میں کس منہ سے اللہ کا شکر ادا کروں جس نے آم بنایا اور پھر بجا طور پر اسے پھلوں کی بادشاہت عطا کی اگرچہ آموں ہی میں بادشاہت کے بہت سے دعوے دار پیدا ہو چکے ہیں اور ان سب کے ہم نوا بھی موجود ہیں لیکن میرے نزدیک تاج شاہی اگر کسی کے سر پر سجتا ہے تو وہ انور رٹول ہے۔ سبحان اللہ، سبحان اللہ ہزاروں میں الگ پہچانا جاتا ہے، بوٹا سا قد، خوبصورت رنگت اس کی خوشبو اللہ اکبر، اس کی ایک قاش سے دل و دماغ تر و تازہ اور روشن ہو جاتے ہیں۔ انور رٹول کو تو من و سلویٰ پر بھی اس طرح فوقیت حاصل ہے کہ من و سلویٰ کے برعکس انور رٹول سے برس ہا برس مستفید ہونے والے کبھی اس کی ناشکری نہیں کرتے۔ میری ایک عادت ہے کبھی مجھے اللہ کی کوئی نعمت میسر آتی ہے تو میری خواہش ہوتی ہے کہ میں اسے اپنے پیاروں میں بھی تقسیم کروں چنانچہ انور رٹول کے موسم میں میرے دوست بھی انور رٹول کی لذت سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ کاش میرے پیاروں غالب اور اقبال کے زمانے میں بھی یہ نادر روزگار آم موجود ہوتا، یہ دونوں بڑے شاعر آموں کے بڑے شوقین تھے، لیکن اگر انہیں انور رٹول جیسی نعمت عطا ہو جاتی تو کیا بات تھی، مگر ایک لحاظ سے اچھا ہی ہوا جو انہیں عطا نہیں ہوئی ورنہ انہوں نے اس آم کا نشئی ہو جانا تھا اور ممکن ہے ان کی شاعری پر یہ خوش ادا اور خوش اندام آم غالب آ جاتا اور یوں ان کی شاعری کی باقی لذت کہیں پرے رہ جاتی۔
میری ایک خواہش اور بھی تھی سوچتا ہوں بیان کروں کہ نہ کروں مگر چلیں بیان کئے دیتا ہوں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر مختلف پھلوں کا ذکر فرمایا ہے۔ کاش یہ اعزاز انور رٹول کو بھی نصیب ہوا ہوتا۔ مجھے یہ سطور لکھتے ہوئے اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں انور رٹول کے اس قصیدے سے دوسرے آموں کی ہجو کا کوئی پہلو تو نہیں نکلتا، لاحول ولا قوۃ میں اس کفران نعمت کا کیسے مرتکب ہو سکتا ہوں اگرچہ میرے نزدیک انور راٹول، انور رٹول ہی ہے لیکن میں چونسا، سہارنی، لنگڑا، دوسہری، سندھڑی اور ان کے علاوہ آموں کی دوسری قسموں کے مقام اور مرتبے سے کیسے انکار کر سکتا ہوں، آم تو آم ہی ہوتا ہے یہ کھاتے جائیں اور کھاتے چلے جائیں مجال ہے دل بھرے حالانکہ بقول اکبر الٰہ آبادی:
ہجر ہو یا وصال ہوا کر
جاگنا ساری رات مشکل ہے
مگر آم کا وصال میسر ہو تو انسان ساری رات اس محبوب کے ساتھ گزار سکتا ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں ان دوستوں کا شکریہ ادا کروں یا نہیں جن کی طرف سے ان دنوں مجھے روزانہ آموں کی پیٹیاں موصول ہوتی ہیں۔ میں نے گزشتہ آٹھ مہینوں میں اپنی خوراک کنٹرول کر کے دس کلو وزن کم کیا تھا جس کے نتیجے میں مجھے نئے کپڑے خریدنا پڑے لیکن جب سے آموں کا موسم شروع ہو ا ہے اس کے بعد سے دوستوں کے بھیجے ہوئے آم ہیں اور میں ہوں۔ میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ اب تو تمہاری شکل بھی آم جیسی ہی ہو گئی ہے۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا لیکن اس نے وضاحت کی کہ اس کا اشارہ لنگڑے آم کی طرف ہے۔ میں نے ایک بار پھر اپنے اس بے خبر دوست کا شکریہ ادا کیا کہ میں سمجھ گیا کہ اس نے آم کے ساتھ صرف لنگڑے کا لفظ سن رکھا ہے، لنگڑا آم نہ دیکھا اور نہ کھایا ہے۔ لنگڑا آم گول مٹول سا ہوتا ہے بالکل پپو یار لگتا ہے اور اس کا ذائقہ بالکل منفرد، ویسے بھی اس کے لنگڑا کہلانے سے اسے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس کے شوقین خود اس کے پاس چل کر جاتے ہیں اور من کی مرادیں پاتے ہیں۔
آموں کی مدح کا مضمون اتنی آسانی سے نہیں ختم ہوتا کہ ابھی تو مجھے ان آموں کی مدح کا حق بھی ادا کرنا ہے جو آموں کے موسم کے آخر میں آتے ہیں ان میں طوطا پری، فجری، اور سرخا وغیرہ شامل ہیں۔ سرخوں میں بھی اب صرف آم ہی رہ گیا ہے جو خود کو سرخا کہلاتا ہے ورنہ تو جو صورتحال ہے وہ آپ کے سامنے ہی ہے اور ہاں ایک دیسی آم بھی تو ہوتا ہے جو صدیوں سے ہمارے ساتھ چلا آ رہا ہے اور جو ہماری تہذیب کا باقاعدہ حصہ ہے۔ اسے کثیر تعداد میں کسی بڑے برتن میں برف ڈال کر ٹھنڈا ہونے کے لئے رکھ دیا جاتا ہے اور جب اس کی ٹھنڈک کا یقین ہو جاتا ہے تو شوقین اسے دونوں طرف سے دبا کر پہلے اسے پولا کرتے ہیں اور پھر اس کا رس چوستے ہیں۔ میرے ایک بہنوئی جب کبھی گھر میں آم لاتے تو سارے بچے ایک بڑے سے برتن کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے مگر چونکہ چوسنے والے آم میں کپڑے خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے لہٰذا ان سب کو کپڑے اتار کر صرف کچھے پہننا پڑتے۔ ایک دفعہ میرے یہ بھانجے جو اس وقت بالکل بچے تھے اپنے والدین کے ساتھ ایک فیملی سے ملنے اس کے گھر گئے تو جونہی میزبان نے کھانے کے بعد آموں کا برتن سامنے رکھا تو میرے بھانجوں نے کپڑے اتارنا شروع کر دیئے جس پر میزبان پریشان ہوگیا۔
مگر میں اور آپ تو بڑے ہیں پورے کپڑوں سمیت دیسی آم چوس سکتے ہیں۔ میں ان دنوں آم پارٹی کا سوچ رہا ہوں براہِ کرم سب مہمان پورے کپڑے پہن کر آئیں۔