سانپ: انسان سانپ سے بہت ڈرتا ہے بلکہ یوں کہیں کہ اس میں موجود زہر سے اسے خوف آتا ہے جبکہ دوسری طرف سانپ اگر کسی سے ڈرتا ہے تو وہ انسان ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ بہت سے انسان سانپوں سے زیادہ زہریلے ہوتے ہیں چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ سانپ انسان کو دیکھتے ہی جھاڑیوں میں چھپنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کا پیچھا کیا جاتا ہے اور پھر ہلاک کرکے اور اسے "آلہ قتل" کے گرد لپیٹ کر گلیوں گلیوں اس کی "میت" کی نمائش کی جاتی ہے۔ سانپ انسان کو صرف اس وقت ڈستا ہے جب اندھیرے میں اس کا پاؤں کسی سانپ پر آجائے اس صورتحال میں وہ گھبرا کر حملہ آور ہوتا ہے۔ سانپ کبھی امریکہ کی طرح جارحیت کا مرتکب نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اپنے دفاع میں کارروائی کرتا ہے۔ امریکہ اور سانپ میں سے اگر کسی ایک سے دوستی کو ترجیح دینا پڑے تو یہ ترجیح سانپ کو دینا چاہئے۔
کبوتر:کبوتر بھی بہت خوبصورت پرندہ ہے۔ اس کی غٹرغوں غٹرغوں کانوں کو بہت بھلی لگتی ہے۔ کبوتر بھی دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک جنگلی کبوتر اور دوسرے شہروں میں رہنے والے پالتو کبوتر۔ پالتو کبوتر گھر داماد کی طرح ہوتے ہیں۔ انہیں دانہ ڈال کر ان کی آزادی چھین لی جاتی ہے۔ کبوتر فضاؤں میں بہت اونچا پرواز کرتے ہیں اور اپنا رزق وہیں کہیں تلاش کرنے کے بجائے واپس مالک کی چھتری پر آبیٹھتے ہیں جس نے ان کے لئے دانہ و دام تیار رکھا ہوتا ہے، وہ انہیں دانہ ڈالتا ہے اور پھر رات تک کے لئے انہیں ڈربے میں بند کر دیتا ہے۔ ایک دفعہ میں نے نذر مانگی تھی کہ خواہش پوری ہونے پر کبوتر آزاد کروں گا چنانچہ میں ٹولنٹن مارکیٹ گیا۔ دکاندار نے پوچھا "کبوتر پکانے کے لئے چاہئیں کہ اڑانے کے لئے؟" میں نے کہا "نہ پکانے اور نہ اڑانے کے لئے بلکہ آزاد کرنے کے لئے" اس پر اس نے ایک ڈربہ کھولا اور کبوتر میرے حوالے کر دئیے۔ میں نے باہر آکر انہیں فضا میں اچھالا تو انہوں نے ایک معمولی سی اڈاری ماری اور واپس دکاندار کی چھت پر آکر بیٹھ گئے۔ میں نے ایک لڑکے سے کہا کہ وہ انہیں پکڑ کر لائے، وہ آرام سے انہیں پکڑ لایا مگر جب یہ عمل تین چار بار دہرایا جا چکا تو میں سمجھ گیا کہ انہیں آزادی راس نہیں آرہی، یہ واپس اپنے آقا کی غلامی میں جانا چاہتے ہیں۔ غلام ذہنیت کے حامل ان کبوتروں کو دیکھ کر مجھے اپنے صاحبانِ اقتدار یاد آتے ہیں، اور یہ صاحبانِ اقتدار ایسے ہیں کہ انہوں نے دام تو بہت پھیلائے ہوئے ہیں لیکن چگنے کو دانہ دنکا نہیں تڑیاں دیتے۔
بھینسا:آپ نے کبھی بھینسا دیکھا ہے کس قدر قوی الجثہ ہوتا ہے، اس کے سینگ کتنے خوفناک ہوتے ہیں، وہ چاہے تو اس کے سینگ ہماری ساری "اشرف المخلوقیت" چشم زدن میں مٹی ملا دیں لیکن اسے اپنی قوت کا احساس ہی نہیں، چنانچہ اسپین میں انہیں بل فائٹنگ کے دوران جس طرح زخمی کیا جاتا ہے، ہمارے ہاں جس طرح اسے کولہو میں جوتا جاتا ہے اور اس سے کھیتی باڑی کا کام لیا جاتا ہے یہ سب کچھ اس لئے کہ اسے اس کے مستقبل سے مایوس کر دیا گیا ہے چنانچہ شہر بھر کی گندگی سے بھرے گڈ میں جتے ہوئے اس مایوس بھینسے کو ایک دبلا پتلا سا سنگل پسلی والا بھنگی بھی اپنی چھڑی کے اشارے پر جدھر چاہتا ہے، ہانکتا ہوا لے جاتا ہے۔ پاکستانی قوم بھی اس بھینسے کی طرح ہے جسے اس کے مستقبل سے مایوس کر دیا گیا ہے چنانچہ جو طالع آزما بھی آتا ہے وہ اسے چھڑی کے اشارے پر جدھر چاہتا ہے، ہانکتا ہوا لے جاتا ہے اور ہاں! بھینسے سے ایک کام اور بھی لیا جاتا ہے مگر اس کا ذکر مناسب نہیں کہ اس میں پردہ نشین گایوں کے نام بھی آتے ہیں۔
اور اب آخر میں کیپٹن (ر) عطا محمد خان کے تازہ شعری مجموعے "تکون" میں سے میری ایک پسندیدہ غزل:؎
یہ چہرے اس لئے سہمے ڈرے ڈرے ہوئے ہیں
کہ ان کے سامنے کچھ آئنے پڑے ہوئے ہیں
یہ کائنات، یہ مَیں ہوں یہ آپ ہیں صاحب
اسی تکون میں تینوں کہیں بندھے ہوئے ہیں
سخن کرو کہ گھٹن چھا چکی ہے چہروں پر
دعائیں مانگو کہ موسم ابھی مرے ہوئے ہیں
تمام زادِ سفر تو لدا ہے اونٹوں پر
مگر یہ کیا کہ ابھی قافلے رکے ہوئے ہیں
لگا رہا ہے وہ مرہم ہرن کے زخموں پر
مگر کمان میں کچھ تیر بھی جڑے ہوئے ہیں
ہوا کی سر پھری باتوں کا تُو یقین نہ کر
میاں چراغ ابھی تک مِرے جلے ہوئے ہیں
عطاؔ یہ راس نہ آیا کبھی زمانہ ہمیں
اسی لئے پسِ دیوار ہم کھڑے ہوئے ہیں