Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Kutton Ko Bhonkne Dain (1)

Kutton Ko Bhonkne Dain (1)

کتوں کے بارے میں میرے خیالات ایسے ہیں جو کتوں کو کبھی اچھے نہیں لگے۔ میں سمجھتا ہوں ان کی دوستی اچھی ہے نہ ان کی دشمنی، چنانچہ میں ممکن حد تک ان کے ذکر سے اجتناب کرتا ہوں، البتہ ان کے بنیادی حقوق کے لئے میں ہمیشہ آواز اٹھاتا رہا ہوں اور آئندہ بھی اٹھاتا رہوں گا۔ میرے نزدیک بھونکنا ان کا بنیادی حق ہے۔ کئی لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ بلاوجہ بھونکتے رہتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا کہنا زیادتی ہے کیونکہ کوئی کتا بلاوجہ نہیں بھونکتا، اعتراض کرنے والوں کو اور خود مجھے علم نہیں کہ جب وہ بھونکنے کی صورت میں گفتگو کر رہے ہوتے ہیں وہ آپ کو کیا کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں؟ اس ضمن میں سب سے بڑی زیادتی تو یہ ہے کہ ہم نے دنیا جہان میں ہونے والی زبانوں کو نام دے رکھے ہیں لیکن کتوں کی زبان کو ہم نے جو نام دیا ہے وہ "بھونکنا" ہے۔ یہ تعصب کی انتہا ہے۔ وہ بیچارے اگر آپس میں کوئی معقول بات بھی کر رہے ہوں تو ہم اسے بھی بھونکنے کے زمرے میں شامل کرتے ہیں۔ وائلڈ لائف پر بننے والی دستاویزی فلموں نے جانوروں کی زندگی کے حوالے سے بہت انکشافات کئے ہیں۔ کاش وہ "لسانیات" کی طرف بھی توجہ دیں اور خصوصاً یہ پتہ کریں کہ کتے جب بھونکتے ہیں تو کیا کہہ رہے ہوتے ہیں، ممکن ہے وہ رحمو قسائی کی شکایت کر رہے ہوں کہ وہ گاہکوں کو چھیچھڑوں سمیت گوشت فروخت کر رہا ہے اور یوں وہ اس کی دکان کے پھٹے تلے بیٹھے چھیچھڑوں کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہوں، ممکن ہے ان میں سے کچھ کتے نامراد عاشق ہوں اور ان کی فریاد کی لے کو بھی ہم یہ کہہ کر نظر انداز کر رہے ہوں کہ ان کا تو کام ہی بھونکنا ہے۔ ممکن ہے ان میں سے کوئی شاعر ہو اور وہ اپنا تازہ کلام سنا رہا ہو، یہ امکان بھی موجود ہے کہ اس کا تعلق زندگی کے کسی ایسے شعبے سے ہو جس سے وابستہ لوگوں کو یہ گمان ہو کہ وہ سب سے پیچھے رہ گئے ہیں اور یوں "خود تشخیصی اسکیم" کے تحت انہوں نے اپنا جو مرتبہ خود تعین کیا تھا، وہ رتبہ نہ ملنے پر وہ "بھونک" رہے ہوں۔ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ممکن ہے وہ کسی "ٹاک شو" میں بیٹھے ہوں اور ہم ان کے باہمی مکالمے کو بھونکنا قر ار دے رہے ہوں۔ ہم یہ بھی تو سوچ سکتے ہیں کہ قسائی کے پھٹے تلے چھیچھڑوں کے انتظار میں بیٹھے اور اپنی دم سے مکھیاں اڑاتے ہوئے یہ مظلوم ان کتوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہوں جو صاحب کی کوٹھی کے ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں رہتے ہیں، جنہیں انسان نہلاتے ہیں اور جن کو ہر نعمت میسر ہوتی ہے مگر ہم اس طبقاتی تقسیم کے خلاف ان کے احتجاج کو بھی ان کو بھونکنا ہی قرار دیتے ہیں، تاہم ان تمام امکانات کے بیان کا یہ مطلب نہیں کہ سارے کتے کسی ٹھوس وجہ ہی کی بناء پر بھونکتے ہیں۔ "بھونکنا" ایک رویئے کا ہی تو نام ہے۔ چنانچہ کئی انسان بھی تو بھونکتے ہیں۔

سو جیسا کہ میں نے اس تحریر کے آغاز میں عرض کیا تھا کہ کتوں سے نہ دوستی نہ ان سے دشمنی اچھی، تاہم ان کے بنیادی حقوق کی بات میں ہمیشہ کرتا ہوں، مجھے ویسے بھی جانوروں کی عادات و اطوار سے خصوصی دلچسپی ہے اور ان میں کتے سرفہرست ہیں۔ میری متعدد تحریریں اس مخلوق کے حوالے سے ہیں۔ گزشتہ روز "سنہری حروف" کے نام سے ایک جریدہ مجھے موصول ہوا تو کتوں کے بارے میں میری ایک تحریر مجھے اس میں بھی نظر آئی جو برسوں پہلے کی تھی اور جس کے مطابق میرے بہت سے دوستوں نے بہت خوفناک قسم کے کتے پالے ہوئے ہیں۔ یہ دوست اس سگ نوازی کے بہت سے فائدے گنواتے ہیں۔ صرف ایک فائدہ نہیں گنواتے اور وہ یہ کہ ان کتوں کی موجودگی میں کوئی شریف آدمی ان سے ملنے نہیں آ سکتا کیونکہ اہل خانہ سے پہلے ان کے یہ کتے اپنے مہمان کا استقبال کرتے ہیں، یہ کتے اتنے خوفناک قسم کے ہیں کہ انہیں سامنے پا کر استقبال کا ایک قافیہ ہی انتقال یاد آتا ہے۔ میرے یہ دوست اپنے ان کتوں کے لئے رطب اللسان رہتے ہیں، ان کی کچھ خوبیوں کا تو میں بھی معترف ہوں اور ان میں سے ایک خوبی ان کے استقبال کا والہانہ انداز ہے، جب میرا کوئی سگ نواز دوست دروازہ کھولتا ہے اور مجھے بتاتا ہے کہ یہ کتا اس کی موجودگی میں مجھے کچھ نہیں کہے گا لہٰذا اندر چلے آؤ تو میں دوست کی بات پر یقین کر کے اپنے سہمے ہوئے قدم ان کے گھر میں رکھتا ہوں اور اس کے ساتھ ہی مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ کتا واقعی بہت بھلا مانس ہے بلکہ نہایت مہمان نواز بھی واقع ہوا ہے، وہ میرے پیٹ پر نوکیلے پنجے جما کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنی تھوتھنی جس سے رال ٹپک رہی ہوتی ہے، میرے منہ کے بالکل قریب لے آتا ہے، وہ غالباً معانقے کے بعد میرا بوسہ بھی لینا چاہتا ہے۔ اس پر میں اپنے دوست کو مشورہ دیتا ہوں کہ اس "لُوز کریکٹر" کتے کو گھر میں رکھنا مناسب نہیں، اسے چلتا کرو، مگر دوست میری بات پہ ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ تم غلط سمجھے ہو۔ میں نے یہ کتا ایک پولیس اہلکار سے خریدا تھا، اسے لوگوں کا منہ سونگھنے کی عادت پڑی ہوئی ہے، میں اسے جب سیر کے لئے گھر سے باہر لے جاتا ہوں تو یہ راہ گیروں کا منہ سونگھنے کی بھی کوشش کرتا ہے اس کی یہ حرکت بد اخلاقی نہیں، اخلاق سنوارنے کے زمرے میں آتی ہے.!!! (جاری ہے)

About Ata Ul Haq Qasmi

Ata Ul Haq Qasmi

Ata ul Haq Qasmi is a Pakistani Urdu language columnist and poet. He has written many articles on different subjects for the leading newspapers of Pakistan.

The most distinguished character of Qasmi's column is his satire on social inequalities of the society and his anti dictatorship stance which he boldly takes in his columns. He has a unique style of writing incomparable to any other columnist because of his humorous way which holds the reader till the last line of his column which is his punch line.

Qasmi was also elevated to the position of Ambassador of Pakistan in Norway and Thailand during Nawaz Sharif's reign from 1997 to 1999. His books of columns include "Column Tamam", "Shar Goshiyan", "Hansna Rona Mana Hay", "Mazeed Ganjey Farishtey and many more while his TV Drama Serials include the most popular "Khwaja and Son", "Shab Daig" and "Sheeda Talli". His travelogues include "Shoq-e-Awargi".

His writing is more toward Nawaz Sharif, and he has some closed relation with him. He supported PML-N in the 2013 election, and there are news that soon he will be appointed Ambassador to some country.