Monday, 06 January 2025
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Ab Janwar Ban Jao Trump Ji

Ab Janwar Ban Jao Trump Ji

سیاسی حرکیات کے ماہر کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں۔ اس کی جملہ حرکات و سکنات "کلٹ" Cult والی ہیں چنانچہ یہ ایک کلٹ ہے۔

خبر، تو یہ ہے کہ حکومت اور کلٹ کے درمیان مذاکراتی عمل کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ پہلا باضابطہ اجلاس شروع ہوتے ہی ختم ہوگیا۔ کلٹ نے دو مطالبات زبانی شکل میں پیش کئے، پھر کہا، انہیں تحریری شکل دینے کیلئے بابائے کلٹ سے صلاح مشورہ کرنا ہے اس لئے ایک ہفتے کا وقت دے دیا گیا۔ اس ایک دو ہفتے کے دوران 190 ملین پائونڈ کرپشن کیس کا فیصلہ بھی آنا ہے۔ بابائے کلٹ اور مادر کلٹ کو سزا سنا دی گئی تو مذاکراتی عمل کا کیا ہوگا؟ انتظار کرنا ہوگا۔

***

مذاکراتی دور کے علاوہ اسی روز بابائے کلٹ کا بیان بھی سامنے آیا جس می آنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے جانور بن جانے کی استدعا کی گئی ہے۔ جانور یعین نیوٹرل۔ بابائے کلٹ نے کہا، ٹرمپ کو نیوٹرل ہونا چاہیے۔ نیوٹرل کا ترجمہ انصاف اللّغات عرف نیازی پاکٹ ڈکشنری میں جانور لکھا ہے۔

دیکھا جائے تو یہ ایک حیرت انگیز تبدیلی ہے۔ اس لئے کہ پرسوں تک پورا کلٹ، کیا پاکستان، کیا سمندر پار ایک زبردست مہم چلاتا رہا ہے کہ ٹرمپ کو پاکستان کے داخلی امور میں مداخلت کرنی چاہیے، وہ مداخلت کریں، حقیقی آزادی کی راہ ہموار کریں اور موجودہ فلسطائی جرنیلوں اور حکمرانوں کو سبق سکھائیں۔ اس مقصد کیلئے کلٹ نے کروڑوں ڈالر کے خرچے سے لابی فرمیں بھی کرائے پر لے رکھی ہیں، وہاں کے میڈیا والوں کو بھی معقول مشاہرے دئیے جا رہے ہیں، مظاہرے بھی ہو رہے ہیں اور ادھر پاکستان میں اس کے ان گنت میڈیا پرسن امریکی مداخلت کے جواز میں ایک ایک گھنٹے کے ٹاک شوز بھی کر رہے ہیں، اب اچانک ایسا کیا ہوا کہ ساری مہم چھوڑ کر ٹرمپ سے جانور بننے کی عرضی ڈال دی گئی؟

***

کچھ واقفان راز کا بتانا ہے کہ اس تبدیلی کی وجہ امریکہ سے تازہ آمدہ اطلاعات ہیں جو نہایت مشکوک اورتشویش ناک نوعیت کی ہیں اور بابائے کلٹ نے یہ بیان حفظ ماتقدم کے طور پر دیا ہے۔

اطلاعات یہ ہیں کہ نئی حکومت پاکستان کے داخلی معاملات میں فی الحال کسی مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتی۔ ٹرمپ کے سامنے ان کے داخلی اور عالمی ایجنڈے کی جو کاپی رکھی ہے اس میں پاکستان کا نام شامل ہی نہیں۔

امریکہ کو افغان جنگ کا سامنا ہے نہ عراق کا مسئلہ ہے کہ پاکستان سے تعاون کی ضرورت پڑے اور اسے تعاون پر آمادہ کرنے کیلئے اس کا بازو مروڑنے کی نوبت آئے۔

ایک مسئلہ پاکستان کا میزائل پروگرام ضرور ہے لیکن اس سے نمٹنے کی فوری ضرورت نہیں۔ اس لئے دخل در معقولات کو فی الحال ٹرمپ صاحب یکے از نا معقولات سمجھتے ہیں۔

چنانچہ کلٹ فالورز جو اس انتظار میں ہیں کہ کب ٹرمپ صاحب مداخلت کرتے ہیں، وہ مداخلت نہ ہونے سے مایوس ہو جائیں گے اور مخالفین طعنے دیں گے، مذاق اڑائیں گے اور سوال پوچھ پوچھ کر ناطقہ بند کر دیں گے کہ کہاں گئی تمہاری امریکی مداخلت۔ کیا بنا اس کا اور فالورز کے حوصلے مزید پست ہو جائیں گے تو اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے بابائے کلٹ نے پیشگی بندوبست کیا ہے۔ ہر سوال کا جواب پیشگی دے دیا ہے کہ ارے بھئی، ٹرمپ تو مداخلت کرنے پر اڑا ہوا تھا، وہ تو ہمارے مرشد نے اسے روک دیا اور کہا، خبردار جو ہمارے معاملات میں مداخلت کی۔

تو کہانی کچھ ایسی ہی لگتی ہے بھائی!

***

آرمی چیف نے 9 مئی کے ان 19 مجرموں کی باقی ماندہ سزا معاف کر دی ہے جن کو دو دو سال قید ہوئی تھی اور ان کی رہائی میں دو یا چار مہینے باقی تھے۔

رہائی ان معافی ناموں پر ہوئی جو ان افراد نے آرمی چیف کے نام لکھے تھے۔ معافی ناموں کا متن الگ الگ تھا لیکن نفس مضمون ایک ہی تھا، یہ کہ ہم نے 9 مئی کوجو ریاست مخالف سرگرمیاں کیں، فوجی تنصیبات پر حملے، توڑ پھوڑ، گھیرائو جلائوکیا، اس پر بہت شرمندہ ہیں، ہم سے بڑی غلطی ہوئی، آئندہ ایسا نہیں کریں گے، اس بار معاف کر دیا جائے۔

رہائی پر پی ٹی آئی نے ان کارکنوں کا شاندار استقبال کیا، انہیں پھولوں کے ہار پہنائے۔ یعنی تسلیم کیا کہ 9 مئی کے جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرم ہمارے ہی کارکن تھے، فوج اور ایجنسیوں کے خفیہ ایجنٹ نہیں تھے۔

ان معافی ناموں کے نفس مضمون پر بابائے کلٹ کا کیا تبصرہ ہے، یہ معلوم نہیں ہو سکا۔ پارٹی کے نفوس ہائے ناطقہ یعنی میڈیا پرسن اس پر کیا کہتے ہیں، اس کا علم ہونے کی توقع بھی کم ہی ہے۔

***

مذاکراتی عمل کے دوران کلٹ نے دو مطالبے کئے ہیں۔ ایک قیدیوں کی رہائی کا اور دوسرا 29 مئی اور 26 نومبر کو پیش آنے والے "قتل عام" پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا۔

26 ویں ترمیم کی منسوخی کا مطالبہ کالعدم ہوگیا ہے اور ساتھ ہی مینڈیٹ کی واپسی کا بھی۔ مینڈیٹ کی واپسی والا مطالبہ ایسا تھا کہ جس پر کلٹ نے ایک ہزار سے زیادہ بار یہ اعلان اور عہد بلکہ عزم صمیم کیا تھا کہ اس سے تو ہم ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہ تو ہم لے کر ہی رہیں گے اور لے کر دکھائیں گے۔

یہ دونوں مطالبات "سرنڈر" کرنے سے نیازی صاحب یاد آ گئے۔ ارے بھئی، وہی پلٹن میدان والے ٹائیگر نیازی صاحب!

***

بنگلہ دیش کی درسی کتابوں میں تبدیلی کی گئی ہے اور بانی بنگلہ دیش کا نام شیخ مجیب الرحمن کی جگہ جنرل ضیاء الرحمن کر دیا گیا ہے۔

یعنی ایک غلط نام کو کاٹ کر دوسرا غلط نام لکھ دیا ہے۔ بنگلہ دیش کے بانی نہ تو شیخ مجیب تھے نہ ضیاء الرحمن بلکہ نیازی صاحب تھے۔ ارے بھئی، وہی پرانے والے مرحوم نیازی۔ موجودہ نیازی نہیں، پرانے والے نیازی مرحوم تھے، نئے والے محروم ہیں۔ مرحوم اور محروم میں فرق لازماً پیش نظر رہنا چاہیے۔