پرسوں ایک "بابا جی" میرے پاس تشریف لائے، فقیری چوغا پہنا ہوا، گلے اور ہاتھوں میں منکے، ملگجی داڑھی، سر پر سندھی ٹوپی، ہاتھ میں ایک نوٹ بک جس کے متعلق یہ بھی پتا چلا کہ اس میں مختلف افسروں نے "بابا جی" کے "ولی اللہ" ہونے کی تصدیق کی ہے۔
انہوں نے آتے ہی اپنا عصا زمین پر مارا اور کہا "میں ہوں بابا مستان شاہ پاکپتن شریف سے تمہیں دعا دینے آیا ہوں، اللہ تمہیں کسی کا محتاج نہ بنائے، تم ترقی کرو" میں ان کی ہر دعا پر آمین کہتا رہا۔ وہ اپنی ہر دعا کے آخر میں کہتے "پر تم غصہ نہ کیا کرو، ان دنوں بے شمار لوگوں کا بلڈ پریشر ہائی رہتا ہے چنانچہ ان کے رویوں میں جھنجھلاہٹ آجاتی ہے" اگر میرا بلڈ پریشر بھی ہائی ہوتا یا طبیعت میں غصہ ہوتا تو میری نظروں میں بابا جی کی "ولایت" پکی تھی مگر اتفاق سے میرا بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے اور حسن اتفاق سے طبیعت میں غصہ بھی بہت کم ہے چنانچہ بابا جی کا وار خالی گیا۔ اپنی گفتگو کے دوران بابا جی بغور میرے چہرے کی طرف دیکھتے رہے وہ میرے تاثرات کا جائزہ لے رہے تھے اور اندازہ لگا رہے تھے کہ ان کی روحانیت مجھ پر کس حد تک اثر انداز ہو رہی ہے، میرے چہرے کے تاثرات سے انہیں شاید مایوسی ہوئی چنانچہ وہ دعائوں کے بجائے پیش گوئیوں پر اتر آئے۔
انہوں نے کہا "اللہ تیری پریشانیاں دور کرے گا" اب دنیا میں کون شخص ہے جسے کوئی پریشانی لاحق نہ ہو مگر اس سو فیصد صحیح تشخیص پر بھی مرعوب ہونے کے بجائے جب میں نے صرف ان شاء اللہ کہا تو بابا جی نے مایوس ہو کر وہ نوٹ بک میرے سامنے رکھ دی جو انہوں نے بائیں ہاتھ میں تھامی ہوئی تھی اور اس میں سے صرف افسروں کے ریمارکس مجھے دکھانے لگے جو انہوں نے "باباجی" کی ولایت کے حوالے سے دیئے تھے۔ میں نے سوچا کیا زمانہ آ گیا ہے اب اللہ والوں کو بھی دنیا والوں سے اپنی بزرگی کا سرٹیفکیٹ لینا پڑتا ہے۔ جب موصوف نے دیکھا کہ کوئی سند بھی ان کے کام نہیں آ رہی تو انہوں نے اپنا عصا زور سے زمین پر مارا اور گرجدار آواز میں کہا "بابا مستان شاہ جا رہا ہے کل پھر اسی وقت آئے گا" مگر کل میں ان کا انتظار ہی کرتا رہا وہ تشریف نہیں لائے۔
اور آج جب میں یہ کالم لکھ رہا تھا تو اچانک مجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی بابا مستان شاہ تھا جو تقریباً بارہ چودہ برس قبل ہم چند دوستوں کو ایک دفتر میں ملا تھا اور اس نے تقریباً یہی باتیں کی تھیں اور میں نے "ریت کی دیواریں" کے عنوان سے اس پر ایک کالم بھی لکھا تھا جس پر کئی قارئین کے خط مجھے آئے جس میں انہوں نے ان بابا جی کی وہ کرامتیں بیان کیں کہ میں لرز کر رہ گیا تھا۔ آج بھی وہی مستان شاہ ہے صرف عمر کے فرق نے اس کے خدوخال میں تھوڑی سی تبدیلی ہوئی ہے۔ ہم بھی وہی ہیں گزشتہ پندرہ برسوں میں ہم لوگوں میں بھی صرف تھوڑی بہت تبدیلی آئی ہے سارا نظام بھی وہی ہے۔ مہنگائی نے عوام کو حواس باختہ کیا ہوا ہے، دفتروں میں کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا، تھانوں میں مظلوموں کے ساتھ ظالموں ایسا سلوک کیا جاتا ہے، کچہریوں میں انصاف خریدنا پڑتا ہے، ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، مریض سسک سسک کر مر رہے ہیں، بیروزگاری کا عفریت کئی جوانوں کو ہڑپ کر چکا ہے، اوپر سے "ڈائون سائزنگ" کی تلوار لٹک رہی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ یا اس کا عزیز شام کو بخیریت گھر واپس آئے گا کہ نہیں، سو ہر شخص پریشان ہے اور پریشانی کے ان لمحات میں کوئی بابا مستان شاہ آپ کے پاس آتا ہے، فقیری چوغے میں ملبوس، گلے میں منکے پہنے ہوئے، ہاتھ میں درویشی عصا لئے اور کہتا ہے تمہاری پریشانی دور ہو گی، ہر پریشان شخص کو ان کلمات کی ضرورت ہے اور یوں بابا مستان شاہ بھی اس معاشرے کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے اصول کے عین مطابق اس وقت شہر میں ہزاروں کی تعداد میں مستان شاہ موجود ہیں۔ یہ نقلی مستان شاہ اس وقت تک ہمارے درمیان رہیں گے جب تک معاشرے کی پریشانیاں دور کرنے والا اصلی مستان شاہ نہیں آتا۔ اصل مستان شاہ پاکستان کو ایک فلاحی مملکت بنائے گا، وہ سب کو انصاف دے گا، اس کا عصا اژدھا بن کر سب جادوگروں کے سانپوں کو نگل جائے گا۔ میں اسی مستان شاہ کا منتظر ہوں، وہ بہت جلد آنے والا ہے اور نقلی مستان شاہوں کے بعد اصلی مستان شاہ تو آیا ہی کرتا ہے۔
ایک بابا مستان شاہ میں نے ناروے میں بھی دیکھا تھا۔ وہ یہ نہیں بتاتا تھا کہ آپ کی ہر پریشانی دور ہو گی، پریشانی آپ بتاتے تھے، دور وہ کرتا تھا۔ اگر کوئی بیمار پڑتا تھا تو بابا مستان شاہ اس کا علاج معالجہ کرتا تھا، اگر اسپتال میں داخلے کی ضرورت ہوتی تو وہ اسپتال میں بھی ایڈمٹ کرا دیتا تھا، ان خدمات کے عوض وہ آپ سے کوئی رقم طلب نہیں کرتا تھا بلکہ سب کچھ اپنے پلّے سے کرتا تھا۔ اگر آپ بے گھر ہوتے تو وہ آپ کو رہنے کے لئے گھر دیتا تھا، اگر آپ بیروزگار ہوتے تو روزگار پر لگنے تک وہ ہر ماہ آپ کو ایک معقول رقم دیتا تھا، آپ کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو اس کا خرچ وہ اٹھانے لگتا تھا، ناروے کا بابا مستان شاہ آپ کی جان و مال کا بھی محافظ تھا، مجال ہے کوئی آپ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ بھی سکے۔ بابا جی کی نگاہِ دور رس یہ بھی بھانپ لیتی تھی کہ کوئی آپ کی نجی زندگی میں مداخلت تو نہیں کر رہا، چنانچہ ایسے شخص سے بابا جی خود نمٹ لیتے تھے۔
بابا جی کا ایک عجیب و غریب کمال یہ تھا کہ وہ کسی کو نظر نہیں آتے تھے مگر ہر معاملے پر ان کی نظر ہوتی تھی۔ میں نے اسی طرح کے ایک بابا جی کے بارے میں یہ بھی سنا تھا کہ وہ صرف ناروے نہیں سویڈن، ڈنمارک، فن لینڈ اور یوکے وغیرہ میں بھی پائے جاتے ہیں مگر وہاں بھی وہ کسی کو نظر نہیں آتے بس انکے کمالات نظر آتے ہیں۔ بالآخر مجھے پتا چلا کہ بابا مستان شاہ کسی شخص کا نام نہیں، یہ ان ملکوں کی فلاحی ریاست ہے جو اپنے باشندوں کے لئے ماں کا درجہ رکھتی ہے۔ ہمارے بابائے قوم قائداعظم نے بھی اسی قسم کی ریاست کا خواب دیکھا تھا مگر ان کے بعد آنے والے بیشتر حکمران وہ بابا مستان شاہ بن گئے جن سے ان دنوں ہر شہر، ہر گائوں اور ہر قصے میں ہماری ملاقات ہوتی ہے۔ ہمیں قائداعظم کے بابے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ ہمارے درمیان پیدا ہو گیا اور کسی نے شبِ خون مار کر اسے رستے سے نہ ہٹایا تو پھر ہمیں کسی دوسرے ملک کی مثال دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ لوگ کہیں گے پاکستان کا بابا مستان شاہ دوسرے ملکوں کے مستان شاہوں سے بہت آگے ہے۔