Friday, 08 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Pasti, Bulandi Aur Jawad Shirazi!

Pasti, Bulandi Aur Jawad Shirazi!

میں ان دنوں روزانہ منڈی کے بھائو پوچھتا رہتا ہوں، حاجی رمضان میرے دوست ہیں اور مجھے تازہ ترین رپورٹ سے آگاہ کرتے ہیں۔ ان کی باتوں سے اس کلیے کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ جب منڈی میں فروخت کے لئے مال ضرورت سے زیادہ آجاتا ہے تو اس کی قیمت گرجاتی ہے اور جب مال کم ہو اور اس کی کھپت زیادہ ہو تو مال کی قیمت بڑھ جاتی ہے، یعنی وہی ڈیمانڈ اینڈ سپلائی والی صورتحال، فروٹ مارکیٹ، سبزی مارکیٹ اور دوسری مارکیٹوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔

میرے ایک جاننے والے ضمیر کی آڑھت کا کام کرتے ہیں۔ میں ان سے بھی ضمیر کے اتار چڑھائو کے بارے میں جانتا رہتا ہوں۔ کل ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ اب نئے ضمیر فروشوں کی کوئی گنجائش نہیں رہی، جو پہلے دن سے اس کاروبار میں ملوث ہیں ان کا کاروبار بھی قدرے مندا پڑگیا ہے، وجہ وہی ڈیمانڈ اینڈ سپلائی والا اصول ہی ہے۔ میں دراصل ان کے پاس اپنی قیمت لگوانے گیا تھا، اس نے کہا برادر تم بہت لیٹ آئے ہو، سال ڈیڑھ سال پہلے آتے تو میں تمہیں اچھا ریٹ دلوا دیتا، اب تو محض رسوائی مول لینے والی بات ہے۔ میں نے عرض کی کہ رسوائی والی اس میں کوئی بات نہیں، ہمارے معاشرے میں آج بھی ضمیر فروش عزت کی نظروں سے دیکھے جاتے ہیں، ان کی لاکھوں کی فالوونگ ہے جس پر ضمیر کے اس آڑھتی نے کہا اتنی فالوونگ تو میں بھی تمہیں دلا سکتا ہوں، فالوونگ ایک سائنسی اصول کے تحت ہوتی ہے وہ میں تمہیں بتا دوں گا مگر میں تمہیں مشورہ دوں گا کہ فی الحال تم صاحب ضمیر ہونے کی اداکاری کرتے رہو، جب تم اس حوالے سے اپنا سکہ جما لو گے، پھر تمہاری ضرورت پڑے گی، وقت میں تمہیں بتادوں گا اس وقت تم اپنا ضمیر لے کر آجانا، بازار سے بہت بہتر قیمت دلوادوں گا۔

حقیقت یہ ہے کہ مجھے ضمیر فروش کی کوئی ضرورت نہیں، ضمیر بیچے بغیر بھی اچھی خاصی کمائی ہو سکتی ہے۔ آپ ایلیٹ کلاس میں اپنی جگہ بنالیں اور آپ کو دھن کمانے کے ایک سو ایک طریقے بتا دیں گے۔ آپ ایل ڈی اے میں کسی پراپر شخص سے میل جول بڑھائیں اور آپ کی ترقی کے راستے کھول دے گا۔ آپ اس کے ذریعے متنازع پلاٹوں کی فائلیں خریدیں یا ان اسکیموں میں انویسٹمنٹ کریں جو ابھی بےآباد ہیں مگر وہ آپ کو بتادے گا کہ عنقریب یہاں ایک بڑا ہوٹل بننے والا ہے اور بہت زیادہ ترقیاتی کام شروع ہوگا۔ بس تم وہاں دو چار پلاٹوں کی فائلیں خرید لینا، کروڑوں کا منافع تو کہیں نہیں گیا۔

میں اس طرح کے دو چار اور لوگوں کی طرف گیا ہوں جو آپ کو راتوں رات پستی سے بلندی تک لے جا سکتے ہیں مگر بالآخر میری سوچ ایک عجیب رنگ اختیار کرلیتی ہے، میں سوچنے لگتا ہوں، پستی کیا ہے اور بلندی کیا ہے؟ بس یہ سوال میرا مستقبل تاریک کردیتا ہے۔ میرا دل میری تربیت کے تابع ہونے کی وجہ سے کہتا ہے کہ ضمیر فروشی اور دو نمبری کام سے بلندی تک پہنچ کر کیا انسان آئینے کے سامنے کھڑا ہوسکتا ہے؟ کیا جو بلندی پستی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے وہ واقعی بلندی ہوتی ہے۔ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ پستی کہتے کسے ہیں؟ مال و دولت عہدہ و منصب سے محرومی کو ہم پستی کہیں گے۔ پستی تو پست کام کرنے والوں کا مقدر بنتی ہے اور بلندی اپنی ناجائز خواہشات کو پائوں تلے روندنے سے ملتی ہے۔ آج یا کل جو لوگ بلندی پر فائز تھے یا ہیں ان میں سے کتنے جائز اور کتنے ناجائز طریقوں سے اس منزل کو پانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ضروریات سب انسانوں کی ایک جیسی ہیں، دو یا تین وقت کا کھانا، رہائش کے لئے گھر، سفر کے لئے سواری، اس کے علاوہ تو فرق صرف بینک بیلنس کا رہ جاتا ہے جو اگر زیادہ ہو تو ان لوگوں کے لئے خوشی کا باعث بنتا ہے جنہوں نے قوم کا خون چوس کر یہ دولت اکٹھی کی تھی اور اگر کم ہو اور یہ بیلنس رزق حلال کی دین ہو تو سکون قلب کی دولت اس سے ملتی ہے، جس سے بڑی دولت اور کوئی نہیں۔ البتہ جو لوگ ان بنیادی ضروریات سے محروم ہیں اور ہمارے عوام کی اکثریت اس سے محروم ہے تو بےپناہ خوشی حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس پستی میں گرے ہوئے لوگوں کو بلندی تک لے جانے کی جدوجہد کی جائے۔

میں جب پستی اور بلندی کی بابت سوچ رہا تھا تو برادرم جواد شیرازی میری طرف تشریف لائے۔ جواد شیرازی ریٹائرڈ میجر اور پائلٹ ہیں مگر غریب عوام کے لئے دل میں بےپناہ تڑپ رکھتے ہیں۔ وہ انہیں پستی سے بلندی تک لے جانے کے لئے ایک منصوبہ اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔ وہ محبت کے نام سے ایک تنظیم بنانا چاہتے ہیں جو ورکشاپوں میں کام کرنے والے معصوم بچوں کو تعلیم بھی دلائے گی اور ان کو جو دہاڑی ملتی تھی، تنظیم وہ رقم ان کے والدین کو ادا کردیا کرے گی۔ اب آگے میں کیا لکھوں، جواد شیرازی نے مجھے قائل کرکے اس تنظیم میں ان کے دست و بازو بننے پر قائل کرلیا ہے اور ان شاء اللہ اب میں اپنی بقایا زندگی اس کام پر صرف کروں گا، لہٰذا ان تمام دوستوں سے معذرت جو مجھے "پستی اور بلندی" کے راستے کے مختلف معانی بتاتے تھے، میں نے بلندی کے لئے صحیح راستے کا انتخاب کرلیا ہے۔ اب آپ سب کو بھی میرا ساتھ دینا ہوگا۔

About Ata Ul Haq Qasmi

Ata Ul Haq Qasmi

Ata ul Haq Qasmi is a Pakistani Urdu language columnist and poet. He has written many articles on different subjects for the leading newspapers of Pakistan.

The most distinguished character of Qasmi's column is his satire on social inequalities of the society and his anti dictatorship stance which he boldly takes in his columns. He has a unique style of writing incomparable to any other columnist because of his humorous way which holds the reader till the last line of his column which is his punch line.

Qasmi was also elevated to the position of Ambassador of Pakistan in Norway and Thailand during Nawaz Sharif's reign from 1997 to 1999. His books of columns include "Column Tamam", "Shar Goshiyan", "Hansna Rona Mana Hay", "Mazeed Ganjey Farishtey and many more while his TV Drama Serials include the most popular "Khwaja and Son", "Shab Daig" and "Sheeda Talli". His travelogues include "Shoq-e-Awargi".

His writing is more toward Nawaz Sharif, and he has some closed relation with him. He supported PML-N in the 2013 election, and there are news that soon he will be appointed Ambassador to some country.