Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Multan Ka Trustee Hospital

Multan Ka Trustee Hospital

ہر چند 27 اکتوبر اہل کشمیر کے لئے سیاہ دن تھا، مگر خاتون خانہ کے اچانک بلند فشار خون اور ڈینگی بخار نے "ایمرجنسی" کی سی کیفیت پیدا کردی، فارماسسٹ دختر حرا خالد اصغر نے بلڈ پریشر چیک کیا جو نارمل نہ تھا، فوری طور پر ایمرجنسی سروس کو کال کی، ایمبولینس موٹر بائیکر آیا، بلڈ پریشر چیک کرنے کے بعد مطلوبہ گولی دی، اس کی ہدایت پر 1122 گاڑی میں سوار ہوئے نادرن بائی پاس کے سنگم میں ٹرسٹ کے زیر اہتمام نجی ہسپتال روانہ ہونے کا فیصلہ تاہم ہمارا تھا۔

چند سال پہلے اس ہسپتال جانے کا تجربہ اچھا تھا، مذکورہ گاڑی میں نہ تو اے سی کام کر رہا تھا، نہ ہی گیس کا سلنڈر موجود تھا، اہلکاروں سے شکایت کی تو فرمانے لگے اپنی گاڑی میں آ جاتے، تنگ آمد بجنگ آمد شیشے کھول دیئے کہ حبس کم ہو سکے، دیگر کی طرح اس ادارہ کے زوال کا بھی آغاز ہے، ہسپتال ایمرجنسی پہنچے، ایک سینئر مرد اور خاتون ڈاکٹر کے علاوہ ہائوس جاب والے طلباء و طالبات مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔

بلڈ پریشر کو نارمل کرنے کی کاوش شروع ہوگئی، نارمل ہونے پر ڈاکٹرز نے تجویز کیا مریض گھر جا سکتا ہے، لیکن اسی دوران "فٹس" کا حملہ ہوا، جس سے یہ قلعی تو کھل گئی، کہ مسیحائوں نے مریض کو بہت "ایزی" لیا ہے، اب دوڑ دھوپ شروع ہوگئی، میڈیسن سپیشلسٹ کو ایمرجنسی کال پر طلب کیا، موجودہ عملہ سے استدعا کی غفلت سے اجتناب کیا جائے، اس کے بعد مادہ پرستی، انسانی ہمدردی پر غالب آگئی، انتہائی نان پروفیشنل انداز میں گفتگو کی کہا کہ آپ چاہیں تو مریض کہیں اور شفٹ کرلیں، اب بھائو تائو شروع کردیا، آئی سی یو کا روزانہ کا خرچ اتنا ہے، ادویات، ٹیسٹ کی قیمت آپ ادا کریں گے وغیرہ وغیرہ۔

مغربی طرز پر مذکورہ وارڈ میں مریض کے ساتھ کسی کو رہنے کی اجازت اگرچہ نہیں ہے، رات بھر لواحقین کو قیام کہاں کرنا ہے، اسکی فکر مگر کسی کو نہیں، ڈینگی کے موسم میں بینچ پر مچھروں سے لڑائی کرتے گیلری میں رات کاٹی۔ اللہ کی رحمت، معروف معالج کی شبانہ روز محنت اور درست علاج، عزیز و اقربا کی دعائوں نے مایوسی کو اُمید میں بدل دیا، جس کے لئے ہم پروفیسر ڈاکٹر طلحہ رفیق اور انکی ٹیم کے ممنون ہیں۔

کچھ معاملات کی جانب انکی توجہ مرکوز کرائی تو انھوں نے بلا تاخیر نوٹس لے کر ہمارے تحفظات دور کئے۔ اس ٹرسٹی ہسپتال میں البتہ فارمیسی پر ادویات میں 10 فیصد ڈسکائونٹ سہولت سرے سے موجود نہ تھی۔ قابل توجہ بات کہ لیبارٹری ٹیسٹ کی بابت مریضوں اور طبی عملہ کے بہت تحفظات تھے، اس لئے اہم ٹیسٹ باہر کی لیبارٹری سے کرانے کی ہدایت ہر مریض کو کی جاتی، نیز مذکورہ ہسپتال میں کئے گئے ٹیسٹ کے نرخ کسی طور پر بھی ٹرسٹ کے ادارے کے معلوم نہیں ہوتے، ان کے ریٹ ہائی برینڈ کی بہترین لیبارٹری کے ہم پلہ تھے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ڈاکٹرز کے لئے بھی آسانیاں پیدا کردی ہیں، سپیشلسٹ ڈاکٹرز آن کال ہر وقت موجود ہوتے، لیکن مریض کی پریشانی میں بڑا کردار ان "مسیحائوں" کا ہے جن کے دامن سے کاروبار کی خوشبو آتی ہے، بہت سے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز بیک وقت "کار خیر" میں شریک ہوتے ہیں، انتظار کی اذیت البتہ مریضوں کو ہی اٹھانا پڑتی ہے۔

تصور میں بھی نہ تھا کہ بڑے ہسپتال میں ایم آر آئی کی سہولت میسر نہ ہوگی، ہمارے مریض کے لئے حکم صادر ہوا، شہر میں بذریعہ ایمبولنس لے جایا جائے، باوثوق ذرائع نے بتایا کہ ہسپتال میں چھ ایمبولینس ہیں، جنھیں تین شفٹوں میں عملہ کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ ہسپتال شہر سے کافی دور ہے، اب ایسی ایمبولینس کی تلاش شروع کی جس کا ائرکنڈیشن بھی معیاری ہو، آکسیجن کا سلنڈر اور بلڈ پریشر ماپنے کا آلہ بھی نصب ہو، درجن بھر کا جائزہ لیا مگر مذکورہ سہولیات سے مزین نہ تھی، وہ ادارے جن کا کام انھیں لائسنس اور سرٹیفکیٹ جاری کرنا ہے، وہ باقاعدگی سے ایس او پی کے تحت جائزہ کیوں نہیں لیتے، حد ہے ایک طرف ائیر ایمبولینس تو دوسری جانب پرائیویٹ سیکٹر میں 600 سی سی گاڑیاں بھی بطور ایمبولینس استعمال ہو رہی ہیں۔ مریض کی بہتر حالت دیکھ کر ایم آر آئی کا حکم واپس لے لیا۔

مریض کو جنرل وارڈ میں شفٹ کرنے کو کہا، وارڈ کی حالت زار نے اجازت نہ دی کہ یہاں لانے کا رسک لیا جائے، انتظامیہ سے درخواست کی کہ پرائیویٹ کمرہ مل جائے تو مریض اور لواحقین دونوں کا بھلا ہوگا، کچھ بہی خواہوں نے کہا مالی نقصان کے ساتھ بڑا ہاتھ لواحقین سے ہوتا ہے کہ سپیشلسٹ ڈاکٹرز کمرہ کا وزٹ کم ہی کرتے، جو ان کے پے رول پر ہوتے ہیں، بیک وقت بہت سے ہسپتالوں کی انتظامیہ سے وعدے وعید کئے ہوتے ہیں، اب مریض کی قسمت ہے کہ اسکی باری کب آئے۔

خیال تھا کہ قومی جذبہ کے ساتھ اپنی مٹی سے محبت میں ایک کرکٹر نے اپنی والدہ کے نام سے جس نیک کام کا آغاز کیا ہے مریضوں کی مالی مشکلات کا احساس انھیں ضرور ہوگا، مگر پارکنگ فیس کی مد میں ٹوکن کے مبلغ پچاس روپے ایک چکرکے ادا کرنا، گاڑی کے لئے "پاس" کی مدت کا چوبیس گھنٹے ہونا ظاہر کرتا ہے انتظامیہ اس جبری "ڈکیتی" سے آگاہ نہیں؟

اخلاقی طور پر مجھے اور میری فیملی کو ان ڈاکٹرز کا ممنون ہونا ہے جو اس پریشانی میں کسی نہ کسی اعتبار سے شامل حال رہے، ان میں ڈاکٹر محمد ممتاز، ڈاکٹر عثمان وڑائچ لاہور، لیڈی ڈاکٹر روہا باسل وڑائچ، احباب میں ڈاکٹر عمیر رانا، ڈاکٹر راحیل وڑائچ، ڈاکٹر سعد ملتان سے تھے، آسٹریلیا سے بیٹے عمر خالد اصغر، بھتیجے اسامہ اصغر رابطہ میں تھے، لندن سے برادر ظفر اقبال، عامر اصغر، ندیم نذر، کزن شبانہ نورین، مریم جاوید، قطر سے سہیل اکبر اور سویڈن سے بھانجے طلحہ عارف نے ہمیں دعائوں میں یاد رکھا۔

سمدھی چوہدری محمدمنظور گورایہ نے، ہسپتال پہنچ کر ہمارا حوصلہ بڑھایا بعد ازاں ہمشیرہ حفصہ اصغر بہنوئی محمد اختر، برادر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اصغر، طارق اور بابر اصغر، بھتیجوں میں احسن اکرام، انس اصغر، عبدالوہاب، بھانجوں میں عبداللہ اور داود اختر بھانجی تحریم فاطمہ پریشانی میں فرشتہ ثابت ہوئے، سب سے زیادہ کریڈٹ دختر اقرا خالد کو جاتا ہے جس نے اپنی والدہ کی صحت یابی میں کلیدی کردار ادا کیا، سچ ہے خاندان ایسا گلدستہ ہے ہر فرد اپنی اپنی خوشبو رکھتا ہے، اس کا احساس تب ہوتا خدا نخواستہ جب آپ کسی پریشانی میں مبتلا ہوں۔

عام مریض کی ادویات، لیبارٹری ٹیسٹ اور ہسپتال کی خدمات کا یومیہ خرچہ تیس ہزار کے لگ بھگ ہو تو ٹرسٹ انتظامیہ مخیر حضرات پر لازم ہے کہ وہ پالیسیوں کا جائزہ لے کر نظر ثانی کرے۔ ایسی آزمائشوں سے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے، اداروں کی ناقص کارکردگی البتہ ہل من مزید کی سی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔