Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Saaien Kode Shah Ke Takiye Par!

Saaien Kode Shah Ke Takiye Par!

بہت دنوں سے سائیں کوڈے شاہ کے تکیے پر حاضری نہیں دے سکا تھا۔ چنانچہ دل کو کچھ بے کلی سی محسوس ہو رہی تھی، سو گزشتہ روز میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، سائیں جی کا خادم خاص "دوری" میں "سردائی" گھوٹ رہا تھا، اس نے مجھے دیکھا تو اپنے پیلے دانتوں کی نمائش سے میرا استقبال کیا۔ میں نے سائیں کے گھٹنوں کو چھوا اور ان کے قدموں میں بیٹھ گیا، خادم خاص نے "سردائی" کا بھرا ہوا ایک پیالہ سائیں اور ایک میرے سامنے رکھ دیا، سائیں نے خادم خاص کو مخاطب کیا اور کہا "اوے بد بختا! مجھے اور کتنی سردائی پلائے گا، میں تو پہلے ہی کائنات کے آخرے کنارے تک پہنچا ہوا ہوں" یہ سن کر میں چونکا چنانچہ میں نے سائیں کو مخاطب کیا اور پوچھا "سائیں جی، آپ نے بھی کائنات کا آخری سرا دریافت کر لیا، میں نے کل اخبار میں پڑھا ہے کہ اس ضمن میں برطانوی سائنسدان بھی کسی نتیجے تک پہنچ گئے ہیں"۔ اس پر سائیں کوڈے شاہ کی بلغم میں کھنکھناتی ہنسی سنائی دی اور وہ بولے "جہاں سائنس صدیوں بعد پہنچتی ہے وہاں فقیر چشم زدن میں پہنچ جاتا ہے، میں یہاں تمہارے بیٹھے بیٹھے کسی بھی سیارے سے ہو کر آسکتا ہوں"۔ جب میں نے سائیں جی کی زبان سے یہ دعویٰ سنا تو میں بہت زیادہ ایکسائیٹڈ ہوگیا اور میں نے کہا "سائیں جی، خدا کے لئے آپ ابھی مریخ سے ہو کر آئیں اور واپسی پر میرے لئے وہاں سے کوئی سوونئیر ضرور لائیں، جس طرح امریکی سائنسدان چاند سے وہاں کے کچھ پتھر اٹھا کر لائے تھے!"۔ یہ سن کر سائیں کوڈے شاہ نے لال بھبھوکا آنکھوں سے کچھ اس طرح میری طرف دیکھا کہ مجھ پر لرزہ طاری ہوگیا، وہ اس وقت جلالی کیفیت میں تھے، انہوں نے شدید غصے کے عالم میں کہا "اے مورکھ تو سیدھی طرح یہ کیوں نہیں کہتا کہ تجھے میری بات پر اعتبار نہیں ہے، میں ایک عرصے سے تیرے دل کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کررہا ہوں لیکن لگتا ہے تیرا دماغ ابھی تک تجھے گہرے اندھیرے میں دھکیل رہا ہے۔ میں نے تیرے لئے مریخ سے کیا لے کر آنا ہے، تو چل میرے ساتھ، جو ہیرے موتی وہاں سے اٹھانا ہوں وہ اٹھا لانا اور اپنی دوزخ کی آگ میں مزید اضافہ کر لینا!"۔ میں نے حیرت سے سائیں جی کی طرف دیکھا اور پوچھا "سائیں جی، کیا آپ واقعی مجھے مریخ کے دورے پر اپنے ساتھ لے جارہے ہیں؟" بولے "ہاں، مگر پہلے یہ "سردائی" پی لے" میں پورا پیالہ غٹاغٹ چڑھا گیا، سائیں جی نے خادم خاص کو ایک اور درویشی مشروب مجھے دینے کیلئے کہا اور میں نے وہ بھی ہونٹوں کے ساتھ لگایا اور ایک ہی سانس میں پی گیا۔

اُس کے بعد مجھے سائیں جی کی آواز کہیں دور سے آتی سنائی دی۔ "اب اپنی آنکھیں بند کر ہم مریخ کی طرف روانہ ہونے والے ہیں"۔ میں نے آنکھیں کیا بند کرنا تھیں، وہ تو پہلے ہی بند ہو چکی تھیں، کچھ دیر بعد سائیں جی کی آواز ایک بار پھر کانوں سے ٹکرائی "اے مورکھ اپنی آنکھیں کھول لے" میں ایک عجیب سرور کے عالم میں تھا، میں نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی مگر وہ بوجھل ہورہی تھیں، اس پر خادم خاص نے آگے بڑھ کر میری آنکھوں کے پپوٹے اوپر کو اٹھائے اور پانی کا ایک چھینٹا میرے منہ پر مارا۔ تو میں نے محسوس کیا کہ میری آنکھیں پوری طرح کھل چکی ہیں۔ سائیں جی نے پوچھا "کیسا لگا مریخ؟" میں نے کہا "سبحان اللہ، اگر آپ اجازت دیں اور اپنے خادم خاص کو اس خاص سردائی سے مجھے ہمیشہ اسی طرح مستفید کرنے کی ہدایت کریں تو میں چاہوں گا کہ روزانہ آپ کے قدموں میں بیٹھ کر آپ کی معیت میں مریخ کی سیر کیلئے جایا کروں، سائیں جی نے اثبات میں سر ہلایا!
یہ سائیں کوڈے شاہ کا مجھ پر خصوصی کرم تھا کہ وہ مجھے مریدوں کے ہجوم کے علاوہ اکیلے میں بھی اپنی دید کی اجازت مرحمت فرماتے تھے، وہ مخلوط اجتماع کے بجائے میری تربیت خلوت میں کرنا چاہتے ہیں، تاہم میری خواہش پر وہ مجھے مجمع عام میں ہی بیٹھنے کی اجازت بھی مرحمت فرما دیتے تھے، اس دوران باہر ایک لمبی قطار لگ چکی تھی اور یہ سب دعا کیلئے حاضر ہوئے تھے، ان میں سے تین چار لوگوں نے سائیں جی کے سامنے آتے ہی والہانہ انداز میں ان کے ہاتھ پائوں چومنا شروع کردیئے کیونکہ سائیں جی کی دعا سے ان کے دل کی مرادیں پوری ہو گئی تھیں، مجھے بہت حیرت ہوئی کہ واپس جاتے ہوئے وہ خادم خاص کو ہلکی سی آنکھ ضرور مارتے تھے مگر بہت سے لوگوں نے گڑگڑا کر کہا کہ سائیں جی، آپ ہم پہ نظر خاص فرمائیں کیونکہ ہم ابھی تک محروم ہیں۔ اس پر سائیں کوڈے شاہ انہیں گھور کر دیکھتے چنانچہ اس طرح کے لوگ الٹا شرمندہ ہو جاتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر ان پر مرشد کی دعا اثر نہیں کررہی تو اس میں یقیناً ان کا اپنا کوئی قصور ہے۔

سائیں جی کے پاس بہت دنوں سے ایک لڑکی آرہی تھی۔ اس کے ماہتاب چہرے کی کرنوں سے سارا تکیہ روشن ہو جاتا، دعا کیلئے اس لڑکی کی باری ہمیشہ سب سے آخر میں آتی، سو اس بار بھی جب اس کی باری آئی، تکیے پر صرف، میں، وہ لڑکی، خادم خاص اور سائیں رہ گئے تھے، مجمع چھٹتے ہی خادم خاص اٹھ کر باہر چلا گیا۔ سائیں جی نے میری طرف بھی دیکھا لیکن میں بیٹھا رہا، بلکہ سائیں جی کے پائوں بھی دابنا شروع کردیئے، لڑکی نے ایک نظر مجھ پر ڈالی اور سائیں جی سے پوچھا "یہ کون ہے؟" انہوں نے مختصر سا جواب دیا "یہ ایک بے وقوف شخص ہے جو موقع محل کی نزاکت سے واقف نہیں ہے!"

About Ata Ul Haq Qasmi

Ata Ul Haq Qasmi

Ata ul Haq Qasmi is a Pakistani Urdu language columnist and poet. He has written many articles on different subjects for the leading newspapers of Pakistan.

The most distinguished character of Qasmi's column is his satire on social inequalities of the society and his anti dictatorship stance which he boldly takes in his columns. He has a unique style of writing incomparable to any other columnist because of his humorous way which holds the reader till the last line of his column which is his punch line.

Qasmi was also elevated to the position of Ambassador of Pakistan in Norway and Thailand during Nawaz Sharif's reign from 1997 to 1999. His books of columns include "Column Tamam", "Shar Goshiyan", "Hansna Rona Mana Hay", "Mazeed Ganjey Farishtey and many more while his TV Drama Serials include the most popular "Khwaja and Son", "Shab Daig" and "Sheeda Talli". His travelogues include "Shoq-e-Awargi".

His writing is more toward Nawaz Sharif, and he has some closed relation with him. He supported PML-N in the 2013 election, and there are news that soon he will be appointed Ambassador to some country.