Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Azad Media Aur Sahafat

Azad Media Aur Sahafat

چار ستون کسی بھی جمہوری ریاست کی بقا اور کامیابی کی ضمانت ہوتے ہیں۔ اول حکمران، جو ریاست اور اس کے اداروں کا نظام چلاتے ہیں، دوسر ا مقننہ یا قانون ساز ادارے جن کا اصل کام ترقیاتی فنڈ استعمال کرنا نہیں بلکہ قانون سازی یعنی حکومت کو درست طریقے سے کام کرنے کے لیے بنیاد اور حدود فراہم کرنا ہوتا ہے۔ سوئم عدلیہ جو اس بات کی ضامن ہوتی ہے کہ ریاست کے تمام باشندوں کو ایک جیسا اور فوری انصاف ملے اورحکومت اور حکمران مکمل آزادی اور ایمانداری کے ساتھ لیکن قانون ساز اداروں کے بنائے گئے قوانین کے اندر رہتے ہوئے ریاست کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرتے رہیں۔

ان کے بعد ریاست کا سب سے اہم ستون " صحافت ـ" کوکہا جاتا ہے۔ سب سے اہم کیونکہ عوام کو قومی اور بین الاقوامی حالات سے باخبر رکھنے کے ساتھ ساتھ اس ادارے کی اصل ذمہ داری یہ بھی ہے کہ باقی کے تینو ں ستونوں پر نظر بھی رکھے کہ آیا ان میں سے کوئی اپنی حدود سے تجاوز تو نہیں کر رہا اور ساتھ ساتھ ان تینوں کو طاقت بھی فراہم کرے۔ صحافت ایک بالکل مختلف اور اہم ترین ذمہ داری ہے جو مروجہ اصولوں کے مطابق اور اخلاقیات کے اندر رہتے ہوئے اپنی ریاست کی بقا، ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے کام کرتی ہے۔

بدقسمتی سے جس رفتار سے ہمارا میڈیا (خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا) پھلا پھولا ہے اس رفتار سے ہماری صحافت ترقی نہیں کر سکی۔ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا میڈیاکسی تیز خود رو پودے کی طرح پھیلا ہے اور کسی بھی خود رو پودے کی اکثر شاخیں بس سورج کی "چمک " کی جانب بڑھتی رہتی ہیں۔ اس کے برعکس صحافت کسی باغ میں لگے ایک خوبصورت پودے کی مانند ہوتی ہے جسے قومی اور معاشرتی مفاد، اصول، اخلاقیات اور ذمہ داری نام کے مالی کانٹ چھانٹ کر اور ایک خوبصورت اور نپے تلے انداز میں بڑھاتے ہیں۔

صحافت کی ذمہ داری سنسنی یا جانب داری کی بجائے معاشرے میں چھپی ہوئی تمام گندگی کی درست اور مکمل نشاندہی اور درست اور مکمل معلومات فراہم کرکے عوام کو اس بارے میں اپنی رائے قائم کرنے کی دعوت دینا ہے۔ مختصر یہ کہ"آزاد میڈیا" ففتھ جنریشن وار میں دشمن کا اہم ترین ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے جبکہ ذمہ دار " صحافت" اس جنگ میں ریاست کا سب سے بڑا دفاع۔

ہمارے پیارے پاکستان میں کچھ لوگ بے شک فرشتہ صفت ہوں گے، لیکن ہم میں اکثریت فرشتوں کی نہیں۔ معاشرے کے جس بھی حصے میں پیسے کی ریل پیل ہو وہاں کسی بھی نظام سے سچ اور اخلاقیات کو غائب ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ یہی ہمارے میڈیا کے ساتھ ہوا۔ بات ریٹنگ کے چکر میں سچائی کو بڑھا چڑھا کر اور سنسنی کے ساتھ پیش کرنے سے شروع ہوئی۔ پھر کچھ مفاد پرستوں نے دیکھا کہ یہ تو ایک مکمل سائنس ہے جس کی مدد سے عوام کی رائے میں تبدیلی اور رحجان سازی کی جا سکتی ہے۔

اگر یہ سب مثبت انداز میں ہوتا تو بہت بڑا انقلاب لایا جا سکتا تھا۔ لیکن ذاتی مفاد کے چکر میں ایک بڑی اکثریت نے آدھا سچ بولتے بولتے پہلا آدھا جھوٹ اور پھر مکمل جھوٹ بولنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد "تجزیے" کے نام پر ایک قدم اور آگے بڑھا یا گیا اور میڈیا، اخبار اور نیوز چینل کا مقصد اور کام صرف خبر دینا نہیں رہا بلکہ اس خبر پر تجزیے کے نام پر عوام کی رائے اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنے کا کاروبار بھی بن گیا۔ یعنی صحافت پہلے میڈیا اور پھر ہوتے ہوتے "اشتہار ی مہم" بن گئی۔

صحافت پیسہ کمانے والے "آزاد میڈیا" میں تبدیل ہوئی تو سیاسی ٹاک شوز سیاسی اختلاف اور منطقی گفتگو اور مباحثے سے لڑائی جھگڑے، دشنام طرازی اور "دنگل" میں تبدیل ہو گئے۔ ڈراموں اور سٹیج شوز کے نام پر لچرپن اور ثقافت کے نام پر مرچ مصالحہ اور بیہودگی دکھائی جانے لگی۔ "آزاد میڈیا " آزاد ہوتے ہوتے "مادر پدر آزاد " ہوتا چلا گیا۔ اس سب کے دفاع کے لیے کبھی تو " آزادیٔ اظہار" کی آڑ لی جاتی ہے تو کبھی یہ بہانہ بنایا جاتا ہے کہ " عوام یہی دیکھانا چاہتی ہے"۔

یہ سب کہنے اور کرنے والوں کو یا تو "Viewership" اور "Rating" کا فرق ہی معلوم نہیں اور یہ اپنی کم علمی کی بنا پر Viewerhip کے چکر میں یہ سب کر رہے ہیں یا پھر کچھ طاقتیں کسی سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ بندی کے تحت ان سے یہ سب کروا رہی ہیں؟ جہاں تک بات " Viewer Ship" کی تو سڑک پر دیکھنے والوں کا ہجوم تو مداری اور منجن بیچنے والے زیادہ اکٹھا کر لیتے ہیں اور کسی استاد کی کلاس میں طلبہ کی تعداد ہمیشہ اس ہجوم سے کم رہتی ہے۔

گلی محلے میں ہونے والے لڑائی جھگڑے اور گالم گلوچ کی " Viewer Ship" ہمیشہ بہت زیادہ ہوتی ہے، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس فعل کی عزت افزائی کی جائے۔ اگر عوام کی اکثریت نماز نہیں پڑھتی تو کیا مساجد کو تالے لگا دیے جائیں؟ ہمارے بچوں کی اکثریت سکول نہیں جاتی تو کیا ہم فیصلہ کر لیں کہ اب سکول نہیں بنانے؟ مان لیں کہ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ کوئی مخصوص نظریہ، جھوٹ، ناچ گانا، مرچ مصالحہ اور بے ہودگی دیکھنا چاہتے ہیں تو کیا ہمارا فرض بن جاتا ہے کہ ہم نے اپنے ہر پروگرام میں یہی بارہ مصالحے ڈالنے ہیں؟

اگر بات صرف " ناظرین" کی ہے تو ناظر تو بندر کا تماشا دکھانے والے کو بھی مل جاتے ہیں۔ اب ہمارے صحافیوں اور میڈیا کے ذمہ داران نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ انکا مقصد صرف ذاتی مفاد ات اور پیسہ ہے یا پھر ان کی کوئی قومی، ملّی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے؟"قوم یہ دیکھنا چاہتی ہے"، کی تکرار اور بہانہ بازی چھوڑ کر یہ بتائیں کہ " آپ قوم کو کیا دکھانا اور سکھانا چاہتے ہیں؟" کیا ہمارے " میڈیا ہائوسز " نے ہمارے بچوں کو اپنی اقدار اور روایات پر فخر کرنا بھی سکھانا ہے؟" بریکنگ نیوز " اور "وائیرل ویڈیو" کے چکر میں"نوٹنکی میڈیا" بن کر معاشرے کے بڑھتے بگاڑ میں اپنا مزید حصہ ڈالنا ہے یا پھر چوتھا ستون بن کر تفریح کے ساتھ ساتھ اس قوم کی اخلاقی و معاشرتی تربیت اور ریاست کی حفاظت، ترقی اور خوشحالی میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہے؟