Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Madar e Millat, Saalgirah Mubarak

Madar e Millat, Saalgirah Mubarak

آج 31 جولائی " مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح" کا یوم پیدائش ہے۔ آپ1893 میں پیدا ہوئیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی چھوٹی ہمشیرہ، سیاسی مشیر اور ساتھی کی حیثیت سے 28 برس تک قائداعظم کے ساتھ رہیں۔ ہم ان کو مادر ملت اور قائد اعظم کی چھوٹی ہمشیرہ کی حیثیت سے تو جانتے ہیں لیکن بد قسمتی سے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں ان کی سیاسی زندگی اور بطور " خاتون رہنما" ان کی ذات اور خدمات کے حوالے سے اتنا کچھ نہ تو لکھا گیا ہے اور نہ ہم نے اپنی نئی نسل کو بتایا ہے جو کہ حق تھا اور نہ ہی انہیں بطور سیاست دان اور رہنما وہ مقام دیا ہے جو دیا جانا چاہئے تھا۔

بلکہ اگر ہم ان کی سیاسی اور سماجی زندگی کا مطالعہ کریں تو بہت سے ایسے سوالات جن کے جوا ب ہم اب بھی تلاش کر ر ہے ہیں، مل جاتے ہیں چاہے ان کا تعلق پاکستان کے سیاسی حالات سے ہو یا استحکام پاکستان سے۔ ہم پچھتر برس سے اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ استحکام پاکستان میں خواتین کا کردار کیا ہونا چاہئے یا ہونا بھی چاہئے کہ نہیں جبکہ محترمہ فاطمہ جناح عرصہ پہلے اپنی ذاتی مثال سے ہمیں ان سب سوالوں کے جواب دے چکی ہیں۔ جانے کیوں ہم ان کی زندگی کے ان روشن پہلوئوں کو سامنے لانا ضروری نہیں سمجھتے۔

قائد اعظم کی ہمشیرہ ہونے کے علاوہ اپنی ذاتی اور سیاسی زندگی میں محترمہ فاطمہ جناح اپنے طور پر ایک روشن مثال اور مشعل راہ تھیں۔ حیرت ہے کہ آج بھی یہ سوال ہمارے سامنے آ جاتاہے کہ خواتین کو تعلیم اور پروفیشنل میدان میں متحرک ہونا چاہئے یا نہیں؟ جبکہ اس کا جواب محترمہ فاطمہ جناح قیام پاکستان سے قبل ہی دے چکی ہیں۔ آپ نے یونیورسٹی آف کلکتہ سے ڈینٹل سرجری کی تعلیم حاصل کی اس طرح بر صغیر کی پہلی خاتون ڈینٹل سرجن ہونے کا اعزار اپنے نام کیا۔ اس کے بعد انہوں 1923ء میں ممبئی میں کلینک بھی قائم کیا اور پریکٹس بھی کی۔

تاہم 1929ء میں قائد اعظم کی زوجہ رتن بائی کی وفات کے بعد آپ اپنا کلینک بند کرکے قائد اعظم کے ساتھ شفٹ ہوگئیں تاکہ قائد اعظم اور ان کے گھر کی دیکھ بھال میں مدد کر سکیں۔ لیکن ان کی خدمات صرف قائد اعظم اور ان کے گھر کی دیکھ بھال تک محدود نہیں رہیں بلکہ انہوں نے قائد اعظم کے دوش بدوش تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا اور برصغیر میں مسلمان خواتین کو متحرک اور منظم کرنے اور نہایت قلیل وقت میں برصغیر کی مسلمان خواتین کو متحد اور ایک جھنڈے تلے اکٹھا کرنے میں اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ ذاتی طور پر بھی ایک اہم اور کامیاب سیاستدان تھیں اور آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل کے دوران وہ ممبئی صوبائی مسلم لیگ کی ورکننگ کمیٹی کی ممبر ہونے کے علاوہ آل انڈیا مسلم لیگ کی خاتون ونگ کی نائب صدر بھی رہیں۔

1941ء آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام محترمہ فاطمہ جناح کی کوششوں کے بغیر ممکن نہ تھا۔ وہ اس نظریے پر یقین رکھتی تھیں کہ روائتی گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ خواتین تعلیم اور ہنر حاصل کرکے معاشی طور پر خودمختار بننے کے ساتھ ساتھ قوم اور ملک کی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ صرف اسی طرح پاکستان ترقی کے زینے کامیابی کے ساتھ طے کر سکتا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آبادکاری میں مدد کے ساتھ ساتھ ان کی دیگر سماجی خدمات کی فہرست طویل ہے۔ آپ ترقی پسند، پر عزم اور خواتین کے حقوق کی علمبردار رہنما تھیں جو خواتین کو خودمختار، با اختیار اور معاشرے کا ایک فعال رکن دیکھنا اور بنانا چاہتی تھیں۔ انہوں نے ہی " پاکستان ویمن ایسوسی ایشن" قائم کی جو آگے چل کر APWA بنی۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے پاکستان میں انہوں نے خواتین کے لیے سماجی بہبود کے ساتھ ساتھ صنعتی مراکز بھی قائم کیے جہاں خواتین " ٹیکنیکل تعلیم اور ہنر" سیکھتی تھیں۔

پہلے " مسلم ویمن انڈسٹریل ہوم" کا افتتاح انہوں نے 1948ء میں ہی کر دیا تھا۔ خواتین کے بہت سے تعلیمی اداروں سمیت فاطمہ جناح میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کا قیام بھی محترمہ فاطمہ جناح کے وژن اور کوششوں کا نتیجہ تھا۔ پاکستان کی ایک بدقسمتی تو یہ ہے قائد اعظم قیام پاکستان کے بعد بہت جلد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تو دوسری بدقسمتی یہ کہی جا سکتی ہے کہ قائد اعظم کی وفات کے بعد محترمہ فاطمہ جناح بھی سیاست اور عوام سے دور ہوگئیں یا کر دی گئیں ورنہ قائد اعظم کے وژن سے ان سے زیادہ کون واقف تھا؟ اس کے ساتھ ساتھ ان کی ذاتی سیاسی بصیرت اور صلاحیتیں بھی بے مثال تھیں۔ حیرت انگیز طور پر قائد اعظم کی وفات کے بعد بہت عرصے تک آپ پر قوم سے خطاب پر پابندی تھی۔

انہوں نے قائداعظم کی زندگی کے بارے میں ایک کتاب " مائی برادر" بھی لکھی جو 1987ء میں شائع ہوئی جبکہ یہ لکھی 1951ء میں گئی تھی۔ ساٹھ کی دہائی میں انہوں نے اس وقت کی متحدہ اپوزیشن کی جانب سے الیکشن میں حصہ لینے اور صدارتی امیدوار بننا منظور کیا تو قوم کی امیدوں کا محور بن گئیں۔ آپ مشرقی اور مغربی پاکستان جہاں بھی گئیں آپ کا فقیدالمثال استقبال کیا گیا۔ میرے لیے تو یہی حیرت کی بات ہے کہ " خاتون پاکستان" اور " مادر ملت" کو الیکشن میں حصہ لینا پڑے لیکن اس سے زیادہ کمال یہ ہوا کہ " قوم کی ماں" کو اس کے بیٹوں نے 1965ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں شکست سے دوچار کر دیا۔ 9 جولائی 1967ء کو آپ بغیر کسی علالت کے اچانک وفات پا گئیں۔

پاکستان کی تاریخ نے ان کے لیے مادر ملت اور خاتون پاکستان کے القابات تو تسلیم کر لیے لیکن جب انہوں نے عملی سیاست میں حصہ لے کر اقتدار اور طاقت اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تاکہ وہ پاکستان کو اپنے بھائی اور اپنے وژن کے مطابق آگے لے کر چل سکیں تو انہیں اپنے مقدر میں شکست سے ملاقات لکھی ملی۔ اس کے باوجود ہم انہیں آج بھی مادر ملت بھی کہتے ہیں، ان کی سالگرہ اور وفات کے دن بھی منائے جاتے ہیں اور 75 روپے کے یادگاری نوٹ پر ہمیں ان کی تصویر بھی نظر آتی ہے۔ واقعی ہم سے زیادہ باکمال قوم کہاں ہوگی؟