Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Taleem Ya Tarbiat?

Taleem Ya Tarbiat?

ویسے تو ہر زمانے میں ہی یہ شکوۃ کیا جاتا ہے کہ زمانہ بہت بدل گیا ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں سے ہمارے تعلیمی اداروں میں، کلچر، لطف اندوزی، غیر نصابی سرگرمیوں اور کھیلوں کے ہفتہ وغیرہ کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اسے دیکھ کر بے ساختہ منہ سے نکل جاتا ہے کہ زمانہ تو معلوم نہیں بدلا ہے یا نہیں لیکن قیامت ضرور قریب آ گئی ہے۔

کلچر کے نام پر ہونے والے پروگراموں اور حرکتوں کا کلچر سے دور دور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔ میں کسی ادارے کا نام نہیں لیتا کیونکہ مقصد کسی ایک ادارے کے بارے میں رائے دینا نہیں بلکہ معاشرے کے عمومی رویے کے بارے میں بات کرنا ہے، لیکن دیکھنے والی آنکھوں نے ایسے سپورٹس ویک بھی دیکھے ہیں جن میں پورا پورا ہفتہ ناچ گانے روزانہ کی بنیادوں پر دیکھنے اور سننے کو ملے۔ قیاس ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ کھیلیں بھی ضرور ہوئی ہونگی۔

کلچر کا اردو ترجمہ "ثقافت" ہے اور اہل دانش کے مطابق ثقافت کا معنی ہے وہ علم، زبان، اقدار، روایات، رواج، رہن سہن اور طور طریقے ہیں جو سینہ بہ سینہ اور نسل در نسل ایک سے دوسرے کو منتقل ہوتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں ہماری روز مرہ زندگی ہو، چینلز پر ترقی پاتی بے حیائی ہو، مادر پدر آزاد سوشل میڈیا یا پھر سکولوں کالجوں میں نام نہاد غیر نصابی سرگرمیاں، ان سب میں جو کچھ ہورہا ہے کیا وہ ثقافت(کلچر) کی اس تعریف پر پورا اترتا ہے؟ بلکہ قریب بھی آتا ہے؟

اسلام کو ایک سائیڈ پر رہنے دیں تو بھی کیا اس سب کا ہماری تہذیب ہمارے کلچر سے کوئی تعلق ہے؟ اگر کوئی اس بارے میں بات کرنے کی ہمت کر ہی لے تو پہلے تو اس پر " انتہا پسند" ہونے کا لیبل لگایا جاتا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ ہر بات میں مذہب کو نہ گھسیٹو، یہ تعلیمی ادارہ ہے مدرسہ نہیں۔ ہم نصابی سرگرمیاں ضروری ہیں۔ رہا مذہب تو وہ تو ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے۔ جناب بالکل درست ہم نصابی سرگرمیاں ضروری لیکن نہ تو اس کا واحد مطلب ہم جماعتوں کا اکٹھے ناچنا گانا ہے اور نہ یہ سب ان کے لیے ضروری ہے۔ رہی بات مذہب کے ذاتی معاملہ ہونے کی تو اگر تو مذہب کا مطلب صرف اتنا ہے کہ کسی مندر، چرچ یا مسجد میں جاکر عبادت کی جائے، اسے پوچا جائے تو پھر تو شاید کہ کہا جا سکتا تھا کہ مذہب ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن میرا ایک سادہ سا سوال ہے۔ کیا یہ لوگ دنیا کے کسی ایسے مذہب کی نشاندہی کر سکتے ہیں جو ہمیں معاشرے میں رہنے کے قوانین اور ضابطے نہ سکھاتا ہو؟ جو روز مرہ معاملاتِ زندگی کے بارے میں رہنمائی نہ کرتا ہو؟

عبادات تو مذہب کا ایک چھوٹا سا حصہ ہوتی ہیں۔ دنیا کے ہر مذہب کا بڑا حصہ در اصل روز مرہ معاملات کے قوانین پر ہی مشتمل ہے۔ سختی اور انتہا پسندی کا الزام تو صرف اسلام پر لگتا ہے لیکن در حقیقت دنیا کا ہر مذہب یہی کچھ سکھاتا ہے اور ہر مذہب کا بڑا حصہ ان ہی معاشرتی قوانین پر مشتمل ہے کہ کن کن چیزوں کے کرنے کی اجازت ہے اور کن کن کی ممانعت۔ دین اسلام بھی انہیں اصولوں پر مشتمل ہے۔ ہاں بطور مسلمان ہمارا یہ یقین ہونا چاہیے (اور ہے) کہ اسلام وہ مذہب ہے جس میں عبادات تو اپنی معراج پر پہنچ ہی چکی ہیں ساتھ ہی روز مرہ معاملات، اخلاقیات، روایات اور انسانیت کے بارے میں تربیت بھی مکمل ترین اور جامع ترین صورت میں موجود ہے۔

اب ہم ان ہدایات پر عمل کریں یا نہ کریں، کامل ہدایت نامہ تو ہمیں مل چکا ہے۔ اسی لیے رسول پاک ﷺ آخری رسول اور پیغمبر ہیں اور دین اسلام آخری مذہب اور ایک مکمل ضابطہ حیات۔ درحقیقت نہ تو انسان کی زندگی اس کاذاتی معاملہ ہے اور نہ انسان دوسروں سے دور تنہا زندگی بسر کر سکتاہے کیونکہ معاشرہ اکٹھے اور مل کر رہنے والے انسانوں سے وجود میں آتا ہے جن کی زندگیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں نہ کہ الگ الگ۔ ایسی صورت میں ہمارے معاملات، اخلاقیات، ہمارا ضابطہء حیات اور ہمارا مذہب ہمارا " ذاتی معاملہ" کیسے رہ جاتا ہے؟

چاہے کوئی میڈیا ہائوس ہو یا میڈیا کنٹرول کرنے والے اداروں کے سربراہ، کسی محلے، ثقافتی ادارے یا شہر کی انتظامیہ ہو یا پھر ہماری درسگاہوں کے"جدید پرنسپل صاحبان" ان سب کے لیے ایک چھوٹی سی یاد دہانی۔ آپ اس سب بے راہ روی کو چاہے جدت کہیں یا زمانے کی رفتار، یا یہ کہیں کہ نئی نسل یہ چاہتی ہے، لیکن ایک حقیقت ہے کہ یہ سب آپکی سرپرستی اور آپکی اجازت سے ہوتا ہے اور آخرت کے دن آپ سب سے آپکی نمازوں اور عبادات کے بارے میں سوال بعد میں کیا جائے گا اور اس سب کے بارے میں پہلے۔ کیونکہ عبادات اور نمازوں کا تعلق دراصل آپکی ذات سے ہے یا یوں کہہ لیں کہ وہ آپ اور خدا کے درمیان کا معاملہ ہے لیکن اس سب کا تعلق پور ے معاشرے، آنے والی نسل اور قوم کے مستقبل سے ہے۔

تربیت کے بغیر تعلیم کی کوئی افادیت نہیں ہے۔ اسی طرح درسگاہوں کا مقصد صرف نٖصاب کی کتاب پڑھا کر کسی یونیورسٹی کا امتحان پاس کروا دینا نہیں ہو سکتا۔ بلکہ ان کا اصل مقصد اس تعلیم کے ساتھ ساتھ ایسی تربیت کرنا بھی ہے جو ہمارے آنے والی نسل کے دماغوں کو بھی روشن کریں اور زندگیوں کو بھی۔ اچھی دنیاوی زندگی کے لیے اچھی نوکری ضرور اہم ہے لیکن اس سے زیاہ اہم یہ بھی ہے کہ نئی نسل کو انکی زندگیوں کا اصل مقصد بھی سکھایا اور سمجھایا جائے۔ اب فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو صرف ڈگری اور نوکری حاصل کرنے والی تعلیم دینی ہے یا اس کے ساتھ ساتھ تربیت بھی؟ ہمارے ملک کے جو معاشی اور معاشرتی حالت ہوگئی ہے اسکی اصل وجہ ہی یہ ہے کہ ہم تعلیم کے نام پر ڈگریوں کے حصول کو تو اہمیت دیتے ہیں لیکن تربیت کا ہمارے یہاں ہر ادارے میں اور ہر سطح پر فقدان ہے۔

اگر کچھ لوگ یہ سب چاہتے ہیں تو بہت سے لوگ یہ سب کچھ نہیں بھی چاہتے۔ اگر انتہا پسندی کا مطلب ہے کہ انسانی اخلاقیات اور دوسرے انسانوں کے جذبات کا خیال کئے بغیر اپنے نظریات زبردستی دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کی جائے، تو آج کے سب سے بڑے انتہا پسند اور مذہبی دہشت گرد تو یہ لوگ ہیں جو انسانیت، جدت اور نئے زمانے کے نام پر اپنے مادر پدر آزاد نظریات زبردستی دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چاہے ایسا کسی ایک چھوٹے سے تعلیمی ادارے میں ہو رہا ہو یا پورے پاکستان میں۔