وہ اپنے گھر کے باہر کرسی ڈال کر بیٹھا ہوا تھا لاک ڈاؤن میں پولیس والے لوگوں کو گھر کے اندر رکھنے کے لیے گشت کررہے تھے ....ایک سپاہی نے اُ سے دیکھ کر ساتھ چلنے کو کہا کہ تم گھر سے باہر کیوں ہو؟
وہ بولا!سر ذرا یہ کرسی اندر رکھ لوں، پھر اس نے کرسی اٹھائی گھر کے اندر جاکر گھر کا دروازہ بند کرلیا، پولیس والے نے دستک دے کر اسے باہر بلانے کی کوشش کی تو اندر سے آواز آئی!
"بھائی جان!باہر لاک ڈاؤن ہے باہر نکلنا قانون کی خلاف ورزی ہے، جوکچھ کہنا ہے باہر سے بتادو"۔
پولیس والے نے ہنس کر کہا :"بس اندر ہی رہنا نہیں تو آئندہ کرسی کے ساتھ تھانے لے جاؤں گا۔"
یہ تو تھی لاک ڈاؤن کی صورت حال ....جو ہمیں فون پر فیصل آباد سے ڈاکٹر شاہد اشرف نے بیان کی میں نے کہا :مگر لاہور میں تو زندگی معمول کے مطابق ہے۔ ٹھوکر نیاز بیگ تک توکل میں بھی گیا کہ گاڑی کے ٹائر بدلوانے تھے، کچھ گروسری بھی خریدنی تھی"۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ ٹائر کچھ مہنگے پڑے یہی حال خوردنوش کی قیمتوں کا تھا، سڑکوں پر گداگروں نے مزدوروں کا روپ دھار لیا ہے۔ بعض تو بیلچے، ہتھوڑے، اور برشیاں کرائے پر لے کر سڑک پر آبیٹھے ہیں تاکہ امدادی سامان بانٹنے والے ہمیں "محنت کش" سمجھ کر امداد دیتے جائیں۔ حالانکہ بھکاریوں کو بھی امداد دی جارہی ہے مگر پیشہ ور بھکاری امدادی سامان ایک جگہ سے وصول کرکے کسی دوسری جگہ سٹوروں پر بیچتے بھی نظر آتے ہیں۔
ہمارے ہاں مخیر حضرات کی کمی نہیں ہے ہر شخص اپنی بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ تقسیم کررہا ہے مگر حکومت ہے کہ ابھی ٹائیگر فورس بنانے میں لگی ہے۔
اگر حکومت اپنی مشینری ہی کو چُست کرلے تو "بے لگا ہجوم" اور ناجائز منافع خوروں سے نمٹا جاسکتا ہے مگر اشیائے خورونوش کی منہ مانگی قیمتیں وصول کی جارہی ہیں۔ لوگ تو پھر بھی راضی ہیں کہ چلو سامان مل تو رہا ہے اگر، سبزیاں فروٹ اور کھانے پینے کا دیگر سامان نایاب ہوگیا تو پھر کیا بنے گا۔؟ ؟
ادھر حکومت ہے کہ میڈیا کی طرح عوام میں خوف وہراس پھیلا رہی ہے، عمران خان وزیراعظم ہیں اور فرماتے ہیں کہ :" کرونا سے کوئی نہ بچ پائے گا۔ کرونا وائرس کسی کو نہ چھوڑے گا۔" سربراہ حکومت کو آخر دم تک لوگوں میں امید اور حوصلہ قائم رکھنے کی تلقین کرنی چاہیے۔
حالانکہ خود فرماتے ہیں کہ گھبراہٹ میں کیے گئے فیصلے اچھے نہیں ہوتے۔ ہم نے عوام سے کہیں زیادہ گھبراہٹ عمران خان کے چہرے پر دیکھی ہے۔
حال ہی میں انہوں نے ایک بہت بڑا زبردست فیصلہ کیا کہ چینی اور آٹے کا بحران پیدا کرنے والوں کو بے نقاب کردیا ہے ایکشن اگرچہ 25اپریل تک کریں گے اور مزید فرانزک تحقیقی رپورٹ کا انتظار ہے لیکن اس تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ بھی 25 اپریل کو ہی پبلک کی جاتی تو زیادہ مناسب تھا۔
مگر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وہ کرونا وائرس کے دنوں میں یہ بڑا فیصلہ پبلک کرکے ایک بڑا سیاسی داؤ لگابیٹھے ہیں کہ ایسے میں ایک تو ان کی ہمت کو دادملے گی کہ ایسا آج تک نہیں ہوا بے نقاب ہونے والوں میں بڑی اور اہم سیاسی پارٹیوں کے وہی لوگ ہیں جو گزشتہ تیس برسوں سے کسی نہ کسی طرح اقتدار میں رہ کر اپنے مفاد کی پالیسیاں بناکر قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے ہیں۔ اس میں عمران کے اردگرد کے بڑے لوگ بھی شامل ہیں جن کے دم سے حکومت قائم ہے۔ اب اگر وہ مافیا عمرانی اقتدار پر کوئی ضرب لگاتا ہے تو اس میں عمران خان کی سیاسی ساکھ کو زیادہ نقصان نہیں پہنچے گا کہ اس نے تو عوام دشمن عناصر اس ٹولے کو بے نقاب کیا ہے جو اس ملک کے سیاہ سفید کے مالک بنے پھرتے ہیں ان تاجرانہ ذہن کے لوگوں ہی نے سیاست پر قبضہ کررکھا ہے عام آدمی تو اس وقت خوش ہوگا جب ان مافیا کے سرکردہ افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی اور لوٹا ہوا پیسہ واپس ملے گا۔ لیکن ابھی تک پانامہ کیس کے مجرموں کو بھی سزا نہیں ملی بلکہ اب تو ان کی ضمانتیں ہورہی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ کرونا کے عذاب کے باوجود بھی انہیں موت یاد نہیں آرہی ورنہ وطن کے یہ سارے اثرورسوخ والے متمول حضرات اپنی تجوریوں کے منہ کھول چکے ہوتے۔ جورا قصائی اگلے روز کہہ رہا تھا کہ یار کرونا اگر امیروں کو زیادہ متاثر کرتا ہے تو ہمارے رئیس حضرات سیاستدان، تاجر ناجائز منافع خور کیوں بچے ہوئے ہیں؟ ۔ شالا انہاں نوں کرونا ہووے جو ملک کو چوس گئے ہیں۔