کرفیو کے دنوں میں ایک شخص دروازہ کھولے اپنی گلی کے تھڑے پر بیٹھا تھا کہ پولیس والے گشت کرتے ادھر آنکلے، باہر بیٹھے شخص کو دیکھ کر کہا :
"تمہیں معلوم نہیں کرفیو میں گھر سے باہر نہیں نکلتے، چلو ہمارے ساتھ۔"
وہ شخص بولا!"ٹھیک ہے جی میں ذرا اپنی دوسری چپل پہن کر آتا ہوں "
اس نے فوراً اپنے دروازے سے اندر جاکر چٹخنی چڑھا کے دروازہ بند کرلیا۔ چندساعتوں کے بعد ایک پولیس والے نے دستک دی اور کہا اوئے باہر نکلو اور تھانے چلو!
اس شخص نے بند دروازے ہی سے زور سے کہا :"سرکار!باہر تو کرفیو سے بھلا میں اس کی خلاف ورزی کیسے کرسکتا ہوں؟ "
سو عزیز قارئین! وبا کے دنوں میں ہم بھی گھر سے کم ہی نکلے، بھلا حکومتی "ایس اوپیز" کی ہم خلاف ورزی کیسے کرسکتے تھے؟ "۔
اب لاک ڈاؤن کھلا ہے تو ہم نے کھلی اور تازہ ہوا میں سانس لیا ہے۔ آج تو ہمیں کرونا سے قبل کے روزوشب یاد آگئے کہ ہم اخبار کے لیے بھی لکھتے ہیں، لہٰذا کئی ماہ کی غیرحاضری کے بعد ہم آپ کے روبرو ہیں۔
لاک ڈاؤن کو چند شرائط کے ساتھ کھول کر اچھا کیا گیا ہے۔ اب تو لوگ گھروں میں رہ رہ کر تنگ آچکے تھے۔ تاجروں ہی نہیں، عام مزدور بھی نکونک آگیا تھا۔ ہوٹل ریسٹورنٹس شادی ہال اور دیگر شعبوں سے وابستہ "کاروبار حیات" کی بندش سے ہر شخص کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔ عید پر تو بعض شہروں میں تاجروں نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی بھی کی بلکہ احتجاج بھی کیا۔ اگر حکومت لاک ڈاؤن کے کسی حدتک مکمل خاتمے کا اعلان نہ کرتی تو لوگوں نے خود ہی گھروں سے نکل آنا تھا جبکہ بے روزگاری نے ہمارے ہاں پہلے ہی ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ تازہ روزی کما کر کھانے والے بھی ان حالات میں سب سے زیادہ متاثر ہورہے تھے۔ یہ ایک بہتر فیصلہ ہے، اب زندگی معمول پر آنی چاہیے۔"کاروبارِ حیات" کا آغاز ہونا چاہیے۔ جب تک ملک کے اندر سکون نہیں ہوتا۔ حکومتیں خارجی محاذ پر بھی اپنی صلاحیتیں بروئے کار نہیں لاسکتیں۔ وطن عزیز کو ان دنوں اندرونی سطح پر وبا کے سبب، معاشی مسائل کا سامنا تھا۔ عوام کا جینا دوبھر ہوچکا تھا۔ اُدھر خارجی محاذ پر بھی ہمارے چاروں طرف انتشار کا سماں ہے۔ سال بھر سے کشمیری گھروں میں محصور ہیں وہاں بھارتی فوج ظلم وبربریت کی انتہاؤں کو چھورہی ہے۔ گزشتہ روز پاکستان نے سرکاری سطح پر یوم استحصال کشمیر منایا۔ اس موقع پر "مقبوضہ کشمیر" کو پاکستان کے نقشے میں شامل کرلیا گیا۔ اس پر بھی طرح طرح کی باتیں ہورہی ہیں۔ ایک طبقہ خیال کرتا ہے کہ چلونقشے کی حدتک ہی سہی، موجودہ حکومت نے کچھ تو کیا ہے۔ اس سے قبل تو اس قسم کی کوئی کوشش تک نہیں کی گئی۔ جبکہ اپوزیشن کی سوچ یہ ہے کہ پاکستان کا نقشہ تو مکمل ہوگیا ہے لیکن اب اس نقشے کے مطابق ہمارے کشمیر میں بھارتی افواج کیا کررہی ہیں؟ کیا کوئی ملک اپنی سرزمین پر یہ سب کچھ برداشت کرسکتا ہے؟
آخر کار کسمیر کو بھارتی تسلط سے خود بزور شمشیر آزاد کرانا پڑے گا کہ مکالمے سے تو اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب سے بھی دوٹوک بات کی ہے کہ اگر کشمیر ایشوپر اسلامی ممالک پاکستان کا ساتھ نہیں دیتے خاص طورپر اوآئی سی کے مسلم ممالک اکٹھے ہوکر بھارتی جبروتسلط پر آواز نہیں اٹھاتے تو وہ اسلامی ممالک کی تنظیم سے الگ ہم خیال اسلامی ممالک کا اجلاس بلایا جائے گا۔ اس سلسلے میں پاکستان کا سخت موقف سامنے آیا ہے، سعودی عرب اور چند اور عرب ممالک بھارت کے خیرخواہ ہیں۔ پاکستان نے ایک ارب ڈالر قرضہ بھی سعودی عرب کے منہ پر دے مارا ہے۔ ادھر بیروت میں دھماکوں کے بعد اس خطے کی صورت حال مزید کشیدہ ہوچکی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ چین، روس پاکستان ملائیشیا، ایران، ترکی اکٹھے ہوکر امریکی حلیفوں خاص طورپربھارت سعودی عرب کے خلاف عملی اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔ ایسے میں جب خارجی محاذ گرم ہے اور خطے میں صورت حال کشیدہ ہورہی ہے تو پی ٹی آئی حکومت کو اندرونی سطح پر حالات بہتر کرنے پڑیں گے مہنگائی کنٹرول کرنی پڑے گی۔ بے روزگاری کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات بھی ضروری ہیں۔ ترقیاتی کام بھی کرکے دکھانے پڑیں گے۔ عمران خان کو اپنے وزراءکو تنبیہہ کرنا پڑے گی کہ وہ اپنے اپنے محکمے اور حلقوں میں عوام کی بہتری کے لیے عملی اقدامات کریں۔ مگر حال یہ ہے کہ بارش سے نمٹنے کے لیے بھی ہم کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کرسکے۔ ذرا سی بارش سے ہمارے شہروں کی سڑکیں ندی نالوں کا روپ دھارلیتی ہیں۔ قدرتی آفات سے نبرد آزما ہونے کے لیے تو لمبی پلاننگ درکار ہوتی ہے۔ ہمارے حکمران بس اپنی مراعات اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں یہ فلاحی کام بھی وہی سرانجام دیتے ہیں جن میں مستقبل میں ان کا اپنا فائدہ ہو۔ یہی سبب ہے کہ ہم ابھی تک قوم ہی نہیں بن سکے ایک ہجوم کی صورت میں زندگی گزار رہے ہیں اور ہجوم میں سرتوہوتے ہیں، دماغ نہیں ہوتے کیا خیال ہے آپ کا؟