Thursday, 26 December 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Akbar Allahabadi Ki 100Vi Barsi (2)

    Akbar Allahabadi Ki 100Vi Barsi (2)

    آج ہمارے ٹی وی چینلوں پہ نظر کر لیجیے جہاں مطمئن بیوپاری ہر طرف مخولیاتی آلودگی، پھیلائے ہوئے ہیں۔ منھ پھٹ اداکارایک دوسرے کی ماں بہن کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں کہ اُردو مزاح کی ماں بہن ایک ہوتی جاتی ہے۔ اسی طرح شوہر، بیوی اور بکرے، تک محدود مزاحیہ مشاعروں کے ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد شاعروں کو آج تک مسکراہٹ اور مسخراہٹ، کا فرق ہی معلوم نہیں ہو سکا لیکن اگر ہم اکبر کی شاعری پر نظر کریں تو اپنے دور کی سیاسی چال بازیوں کا جو نقشہ اکبر کی شاعری میں نظر آتا ہے، اس کے ڈانڈے تو ہماری موجودہ سیاست، ثقافت کی بوالعجبیوں سے صاف طور پر ملتے دکھائی دیتے ہیں، فرماتے ہیں:

    ہیں نہایت خوشنما دو جیم

    ان کے ہاتھ میں

    پہنچنا داد کو مظلوم کا مشکل ہی ہوتا ہے

    کبھی قاضی نہیں ملتے، کبھی قاتل نہیں ملتا

    قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ

    رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ

    حضور! عرض کروں مَیں جو ناگوار نہ ہو

    وہ یہ کہ موت ہی بہتر ہے جب وقار نہ ہو

    قوم کی تاریخ سے جو بے خبر ہو جائے گا

    رفتہ رفتہ آدمیت کھو کے خر ہو جائے گا

    پھر ذرا اپنے موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں ٹِک ٹاکرز لڑکیوں کے پیدا کردہ مسائل دیکھ لیجیے یا میرا جسم، میری مرضی، والی بیبیوں کے عزائم ملاحظہ کر لیجیے، جو ہمہ وقت ملکی ساکھ اور اسلامی اقدار کو داؤ پہ لگانے کو تُلی بیٹھی ہیں۔ ملکی وزیرِ اعظم نے خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تعلق بے ڈھنگے عریاں لباس کے ساتھ جوڑا تو مذموم و مخصوص مقاصد کے لیے کام کرنے والی کٹھ پُتلیوں نے اُن کے اس بیان کی وہ بھَد اڑائی کہ خدا کی پناہ! بے پیندے کے سیاسی گماشتوں نے اس فرمودے کو انتہا پسندی اور تنگ نظر کے ساتھ نتھی کر کے بیرونی آقاؤں کی خدمت میں ہِلتی ہوئی دُم کے اوپر رکھ کے پیش کیا، بقول اکبر:

    رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں

    کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اِس زمانے میں

    اکبر ایک پڑھے لکھے روشن خیال شخص تھے۔ جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ اُن کا قرآن و مذہب کا مطالعہ بھی قابلِ رشک تھا۔ وہ حالات کے تقاضوں کو بہ خوبی سمجھتے تھے لیکن وہ یہ بات بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ ایک اسلامی معاشرے میں چیختی چنگھارتی بے حیائی اور منھ بولتی بے پردگی کے نتائج کبھی اچھے نہیں ہو سکتے۔ وہ معاشرتی ترقی کو معاشرتی اقدار کے اندر رہتے ہوئے قبول کرنے کے حق میں تھے۔ آج کے معاشرے میں بے پردگی اور بے احتیاطی کے نتیجے میں پیش آنے والے سانحات کی سنگینی سے تو اکبر الہٰ آبادی نے ڈیڑھ سَو سال قبل ہی آگاہ کر دیا تھا:

    بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں

    اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا

    پوچھا جو اُن سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا؟

    کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

    اس سلسلے میں مردوں کا موقف بھی انھوں نے نہایت دبنگ انداز میں پیش کر دیا ہے:

    مجھی سے سب یہ کہتے ہیں کہ نیچی رکھ نظر اپنی

    کوئی ان سے نہیں کہتا نہ نکلو یوں عیاں ہو کر

    ایک بڑے مزاح نگار کا یہ بھی کمال ہوتا ہے کہ وہ محض معاشرتی حقائق و دقائق ہی کو طنز و مزاح کا موضوع نہیں بناتابلکہ زبان کا ذائقہ اور دھیان کا زائچہ بدلنے کے لیے گاہے گاہے اپنی ذات کو دَھر لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا۔ اس خود استہزائی کیفیت کے مختلف انداز ملاحظہ کیجیے:

    کیا پوچھتے ہو؟ اکبرِ شوریدہ سر کا حال

    خفیہ پُلس سے پوچھ رہا ہے کمر کا حال

    کچھ الہٰ آباد میں ساماں نہیں بہبود کے

    یاں دھرا کیا ہے بجز اکبر اور امرود کے

    آخری بات یہ کہ اکبر کی سیاسی، معاشرتی، اخلاقی، مذہبی بصیرت اپنی جگہ لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ ان تمام اوصاف و خصائص کے باوصف، تھے اول و آخر مزاح نگار? وہ تھکی ہوئی معاشرت، مٹی ہوئی تہذیب اور گری پڑی اخلاقیات کے اندر سے ایسی ایسی بوقلموں حقیقتیں ڈھونڈ کے انھیں مزاح کے بارہ چٹ پَٹے مسالوں کے ساتھ قاری کے کٹے پھٹے ہونٹوں پہ سجاتے ہیں کہ ہنسی کسی بے غرض مسیحا کے صحیفے کی شکل اختیار کرتی چلی جاتی ہے۔ چند مثالیں دیکھیے:

    باہم شبِ وصال غلط فہمیاں ہوئیں

    مجھ کو پری کا شُبہ ہوا اُن کو بھُوت کا

    زندگی سے میرا بھائی سیر ہے

    پھر بھی خوراک ڈھائی سیر ہے

    وصل ہو یا فراق ہو اکبر

    جاگنا ساری رات مشکل ہے

    فرہادسے کہا کہ مناسب ہے تم کو صبر

    کہنے لگا بتائیے تیشے کو کیا کروں؟

    یہ بات بھی بنا کسی مبالغے اور مغالطے کے سچ ہے کہ انیسویں صدی کے نصف آخر کے زمانے کے سیکڑوں شاعروں میں سے عصرِ حاضرمیں جتنی اکبر کی شاعری حسبِ حال اور کارگر ہے کسی اور شاعر کی ہو ہی نہیں سکتی۔ پھر یہ امر بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مذہبی و تہذیبی شعور کے ضمن میں شاعرِ مشرق کی شاعری اکبر ہی کا جدت اور شدت بھرا تسلسل ہے۔ اس بات میں بھی رتی بھر شک نہیں کہ برِ صغیر کی ادبی، سیاسی، سماجی، مذہبی اور اخلاقی صورتِ حال کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانے کے لیے اکبر کی شاعری سے بہتر شہادت تلاش ہی نہیں کی جا سکتی، بقول رشید احمد صدیقی:

    "انیسویں صدی کے آخری اور بیسویں صدی کے آغاز (تقریباً پچاس سال تک) کی ہماری پوری داستان حوصلہ و ہوس کی، الفت و آویزش کی، پیش قدمی و پسپائی کی، شور و سکوت کی اور سُود وزیاں کی، اکبر کی شاعری میں جلوہ گر ہے، کہیں خفی، کہیں جلی، کہیں شگفتہ، کہیں حزیں لیکن ہر جگہ دل نشیں۔ اس عہد کے سیاسی شعور کو سمجھنے کے لیے اکبر کے کلام سے ہر طرح کی مدد لی جا سکتی ہے۔ شاید اتنی قیمتی مدد کہیں اور سے حاصل نہیں ہو سکتی۔"

    آخر میں اکبر کی شاعرانہ تعلّی، اس کج مج زباں نقاد کی تسلّی کے ساتھ پیشِ خدمت ہے:

    گلشنِ دہر میں اکبر کا کلامِ رنگیں

    کھِل گیا گل کی طرح، پھیل گیا بُو کی طرح

    اور

    تحسین کے لائق تِرا ہر شعر ہے اکبر

    احباب کریں بزم میں اب واہ کہاں تک

    (آفاقِ ادب، کی جانب سے منعقدہ اکبر الٰہ آبادی: عالمی صدی کانفرنس، میں پڑھا گیا۔