Thursday, 26 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Siyasi Latifay

Siyasi Latifay

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ملکی سیاست کی سکرین پر مولانا فضل الرحمن اور مسرت شاہین والا ڈراما نہایت طمطراق سے کھیلا جا رہا تھا۔ مزے کی بات یہ ہر شہر میں مولانا کے جلسوں کو کامیاب بنانے کے لیے بڑی سکرین پر مسرت شاہین ہی کی وہ قیامت خیزفلمیں دھڑا دھڑ دکھائی جا رہی تھیں، جن کی بنا پر پَشتو فلموں کو پُشتو فلمیں کہا جانے لگا تھا، مولانا کے حلقے کے لوگوں کو یہ آتی ہوئی نہیں جاتی ہوئی اچھی لگتی تھی۔ اپنے کسی مخالف فریق کا اتنا اچھا استعمال کسی مولانا کے ذہن ہی میں آ سکتا تھا۔ ان دنوں میڈیا سے لے کے چوکوں چوراہوں تک ان دونوں ہستیوں کے کئی حوالوں سے موازنے ہوتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں ہمارے خوب صورت شاعر دوست جناب ارشد نعیم کا یہ شعر بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا: ؎

مَیں کڑا وقت ہوں ٹلوں گا بھی تو رفتہ رفتہ

تُو مسرت ہے گھڑی پل میں گزر جائے گی

یہ بھی تقریباً اسی زمانے کی بات ہے کہ ہمارے شہر شیخوپورہ میں خواجہ صدیق اکبر ایک ڈی سی ہوا کرتے تھے، جنھوں نے ایک مجمعۂ عام میں نہایت فخر سے خود کو اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کا کتا قرار دیا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ پنجاب کے اس وقت کے سب سے بڑے ضلع کے اعلیٰ ترین افسر کے اس ادنیٰ ترین بیان پر اس کو نوکری سے نکال کے دریا بُرد کر دیا گیا ہوگا؟ سوچیں بھی نہ! یہ تو اس پارٹی کے مالکان سے وفا داری کا نہایت بیّن ثبوت ہوا کرتا تھا۔ اس کے بعد تو مذکورہ افسر پہ نوازشات، کی بارش ہونا شوع ہو گئی۔ پھر تو یوں سمجھ لیں کہ سیاست، ادب، صحافت، فلم، ڈراما، بیوروکریسی، حتی کہ بعض مقدس حلقوں سے بھی ایسی صفات کے حامل لوگوں کی لائنیں لگ گئیں۔ سنا ہے اس پارٹی کے بر سرِاقتدار آتے ہی بڑے بڑے کلغیوں والے سیاسی لیڈر اور نہایت طُرم خان افسران کسی برساتی مخلوق کی مانند ٹراتے ہوئے آتے اور من کی مراد پا کر دُم ہلاتے واپس جاتے۔ بعض اہلِ قلم کے بارے میں تو ہمیں یقین ہے کی ابھی تک ان کی مراد بر نہیں آئی لیکن ان کی نمک طلبی کا یہ عالم ہے کہ وہ اب تک نہ جانے کس امیدمیں قلم کی دُم ہلائے جا رہے ہیں۔

انھی دنوں ایک اخبار کے ایڈیٹوریل انچارج جناب اطہر ندیم نے احباب کو ایک مزے کی بات سنائی کہ اپنے جدہ فیم وزیراعظم نے پریس کلب سے نکلتے ہوئے اپنے پی اے کو ہدایت کی کہ آج فلاں کالم نگار (کالم نگار اور اخبار کے نام کے لیے معذرت) کی بیٹی کی سالگرہ ہے، اس کے کئی فون آ چکے ہیں، ایسا کرنا کہ اس کو تین لاکھ روپے بھجوا دینا۔ اتنی رقم کا سن کے کئی لوگوں کے منہ میں پانی بھر آیا، ایک صحافی سے رہا نہ گیا، بولا میاں صاحب کبھی ہماری طرف بھی نظرِ کرم ہو، ہم بھی آپ کے وفادرا ہیں۔ میاں صاحب نے فوراً سیکرٹری سے دریافت کیا کہ یہ صاحب ہم سے پیسے لیتے ہیں؟ انھوں نے نہ، میں سر ہلایا تو آجر یوں گویا ہوا:

" پھر یہ ایسے ہی کہہ رہا ہے کہ ہم آپ کے وفادار ہیں!!"

آدھی دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی جمہوریت کے ہاں ایک جمہورا پیدا ہوا۔ ایک دن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جمہوریت کو موت آ گئی۔ آس پاس کے جمہوریت پسندوں نے پہلے جی بھر کے شہر کو لُوٹا پھر سر پکڑ کے بیٹھ گئے کہ اب شہر کا کیا ہوگا؟ بظاہر بڑے نے اعلان کیا کہ جمہورے کے بڑے ہونے کا انتظار کیا جائے گا!! سب بزرگوں کو یہ تجویز بہت پسند آئی، چنانچہ وہ ہاتھوں میں فیڈر، چوسنی، بِب، پیمپر، جھولا اور جھنجھنا لے کے بیٹھ گئے۔ ساتھ ساتھ خبریں آتی رہیں کہ اب جمہوریت کا بچہ تیزی سے بڑا ہو رہا ہے، اب اعلیٰ اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا ہے، اس کے لیے ہر بڑے شہر میں رین بسیرے تعمیر ہونے لگے۔ اس کے نام کو بابرکت بنانے کے لیے۔ کی بجائے "ب " سے شروع کرنے کی تجاویز دی گئیں۔ پھر ایک دن خدا خدا کیے بغیر ہی جمہورا کاکا واپس آ گیا۔ تمام سیانوں نے ماتھا ٹیک کے بیعت کی، اس کی نظروں میں جگہ بنانے کے لیے اپنی اپنی داغ دار پیشانیوں کی وجہ اس کے انتظار میں کیے گئے سجدوں کو گردانا۔ بظاہر بڑے نے خود تواسے ابا بچاؤ، مزید دولت بناؤ، جیسے دنیاوی و بنیادی فوائد سے تفصیلاً آگاہ کیا۔ کچھ بزرگوں کو اس نونہال کو بولنا سکھانے کے فرائض تفویض کر دیے اور کچھ کو اس کے منہ سے بے ساختہ ادا ہو جانے والی ہر بات کی دانش مندانہ توجیح کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ چنانچہ ہم بھی بڑے بڑے اداروں، درمیانی درمیانی خواتین اور چھوٹے چھوٹے بزرگوں کی تربیت میں پلنے والے اس بچے کے منھ سے ذاتی دانش و حکمت کے پھول جھڑنے کا انتظار کرنے لگے۔ بالآخر ایک دن ہماری امید بر آئی اور اس قدیم جمہوری خاندان کے اس عظیم جمہوری سائنسدان نے نیوٹن اور پیوٹن سے بھی بڑا فارمولہ بیان کر ڈالا، جس کو آج تک قدر دان لیے لیے پھرتے ہیں، نوخیز لیڈر نے تمام لکھی باتوں کو پسِ پُشت ڈالتے ہوئے عوام الناس کے استفادے کے لیے ارشاد کیا: "جب کم بارش آتی ہے تو کم پانی آتا ہے اور جب زیادہ بارش آتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔" اس وقت سے پوری دنیا حیران ہے کہ اتنا لطیف اور باریک نکتہ ان کی سمجھ میں کیوں نہیں آیا؟

باقی رہی ان لیڈروں کی باقیات کی بات ? ان کو دیکھ کے تو غصہ بھی نہیں آتا الٹا ان کی مجبوریوں پہ ہنسی آتی ہے بلکہ مریم اورنگ زیب کے بیانات پڑھ سن کے مجھے میری دادی یاد آ جاتی ہے، جو کسی رشتے دار کی کوئی ایسی ہی بات سن کے فرمایا کرتی تھیں: پاء نہ پڑھی تے وخت نوں پھڑی۔ اسی طرح عظمیٰ، سعید، احسن، کائرہ، خاقان جیسے محنتی، افراد سے متعلق میری نانی جان کا قول تھا: نچ گُڈیے نی تینوں پپا ملے گا۔ ، اور یہ اپنے حمزہ میاں کو دیکھ کے تو اپنے حکیم جی بے طرح یاد آنے لگتے ہیں جو فرماتے ہیں: اس کی موروثی کرپشن ایک طرف کر دیں تو سیاست میں اس کی اتنی اوقات بھی نہیں بنتی، جتنی اُردو حروفِ تہجی میں لفظ ہمزہ، کی بنتی ہے!!