وطنِ عزیز کے ادبی منظرنامے پر اس وقت جن لوگوں کی وجہ سے رونق میلہ لگا ہوا ہے، ان میں زیادہ تر وہ ہیں، جنھوں نے بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں پر پُرزے نکالے بلکہ ان میں بعض تو ایسے بھی ہیں جنھوں نے پر کم اور پُرزے زیادہ نکالے۔ مذکورہ ادبی اُفق کا ایک ستارہ، اُردو، پنجابی کا خوبصورت شاعر اور یاروں کا یار عمران نقوی بھی تھا، جو ایک معروف اخبار کے ادبی ایڈیشن کا انچارج بھی تھا۔ اس زمانے میں ادبی ایڈیشن کا انچارج ہونا معنی رکھتا تھا۔ کچھ لوگ تو اس ایڈیشن کی سیڑھی پہ سوار ہو کے حال مست اور پھر مال مست ہو گئے، عمران نقوی سے ایسا کچھ نہ ہو سکا، وہ نہ جانے کس خوش فہمی کے تحت تمام عمر ماضی کے رَتھ پہ سوار رہا۔ اُردو کے مہان مزاح نگار جناب مشتاق احمد یوسفی "آبِ گُم" کے دیباچے میں ایسے ماضی پسند لوگوں کی بابت رقم طراز ہیں :
"جیسے کچھ حوصلہ مند اور جفاکش لوگ اپنے زورِ بازو سے اپنا مستقبل بناتے ہیں، اسی طرح وہ زورِ تخیل سے اپنا ماضی آپ بنا لیتا ہے۔ یادوں کا سر شور دریا دشتِ امروز میں بہتے بہتے خواب سراب کے آبِ گُم میں اتر جاتا ہے۔ پھر اندر ہی اندر کہیں ابھرتی، کہیں گم ہو تی سوت ندیوں ا ور کہیں کاریزوں کی صورت، خیال بگولوں میں بوئی ہوئی کھیتی کو سینچتا رہتا ہے اور کہیں اچانک کسی چٹان سے چشمۂ آبِ زندگانی بن کے پھوٹ نکلتا ہے۔"
عمران نقوی پہ بھی کچھ ایسی ہی افتاد پڑی، جب اس کا منہ زور ماضی حال کی مضبوط چٹان کو پاش پاش کر کے صفحۂ قرطاس و یاس پہ کل دی گل اے کی صورت بہہ نکلا۔ یادوں کا یہ ریلا اتنا پُر شور اور تند خو نکلا کہ ہم ایسے شہر کے خوگروں کو بھی اپنے ساتھ بہاتا ہوا لے گیا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہمیں خود اپنے گاؤں سے نکلے چونتیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اب حیات سہل ترین ہے، اورحال اطمینان کی خبر دیتا ہے لیکن کیا کریں اس ساری مادی ترقی کے باوجود، وہ اپنائیت کے شیرے میں لتھڑا ہوا گاؤںاپنی جہالت اور پسماندگی سمیت ہمارے اندر چوکڑی مارے بیٹھا ہے۔
اس ماضی پرستینے اصل فساد یہ کھڑا کیا کہ ہم نے ربع صدی کی عیاری، مکاری اور دشواری کے ساتھ پیپسی، پیزا، پاپ کارن، برگر، سینڈوچ، شوارما، سوپ اور قہوہ وغیرہ سے دل لگایا تھا، اس نے نئے سرے سے ہمارے نہاں خانۂ دل میں لسی، ادھ رِڑکا، مکھن، ستو، کانجی، مِسی روٹی، گنے، گرم گرم گڑ اور بھٹی کے بھنے دانوں کی سوندھی سوندھی خوشبو کی ہِرکھ جگا دی۔ شہر آتے ہی ایک سیانے نے ہمیں بڑا کارگر مشورہ دیا تھا کہ اپنی زندگی میں اس ماضی کے بچے کو ذرا لِفٹ نہ کرانا یہ تمھارے حال کو بے حال کر کے رکھ دے گا۔ پھر تم ساری عمر بھی کوشش کرتے رہے توحال کی اوک سے ماضی کی کوکھ کو نہیں بھر سکو گے۔
عمران نقوی کی شاعری کے مطالعے کے بعد ہماری ساری احتیاط دھری کی دھری رہ گئی۔ ہم نے چونتیس برس کی ریاضت، مشقت کے بعد زندگی کے جس جس زاویے، گوشے اور رویے پر"اج دی گل" کا نقش کندہ کیا تھا، اب وہاں کے قریہ قریہ سے یہ آواز آ رہی ہے: کل دی گل اے۔۔۔ کل دی گل اے۔۔۔ کل د ی گل اے، اس کا انداز ملاحظہ ہو:اِکلاپے نال گلاں کر / کوئی یاد پرانی لکھ / ویلے نوں اپنے ول موڑ / توا، پرات، مدھانی، لکھ
بات صرف توا، پرات، مدھانی، ہی پہ ختم نہیں ہوتی بلکہ ککلی، کھوہ، بیلنے، ویاہ، گِدا، ونجھلی، ویہڑہ، سرگی، بانگاں، سفنے، چھابے، بانٹے، پکی تھاں اور کھُتی پورنا، جیسے ٹھیٹ الفاظ تو یادوں کو کان سے پکڑ کے گاؤں کے چوراہے میں لا کھڑا کرتے ہیں : میں وی دو پل اپنے نال گزار لواں / ویلا جے کر میرا بچپن موڑ دوے
گاؤں کی گلیوں کا طواف بھی اس کے لیے سوہانِ روح ہے لیکن گاؤں کے پرائمری سکول میں جا کے تو اس کی گھِگھی بندھ جاتی ہے، اور وہ بے اختیار پکار اٹھتا ہے:
ایہہ کندھاں / جے تیرا نام پکا نئیں سکیاں / جے اج تینوں / اوپری اکھیں ویکھ رہیاں نیں / ایہدے پِچھے / تیری اک نِکی جیہی بھُل دا دوش اے سارا / کیس کہیا سی / ویلے نوں گلوکڑی پا / کیس کہیا سی / الف انار توں اگے جا
عمران نقوی گاؤں کی محبت میں اتنا محو ہے کہ شہر کو وہ بے برکتا پنڈ، قرار دیتا ہے جہاں :نہ سرگی دی سنگت لبھدی، نہ چوپالیں ہیراسے وقت انسان کا سب سے بڑا دشمن دکھائی دیتا ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے حال کو ماضی کی قبر میں دفن کر دیتا ہے۔ کل جو ہمارے آج کو کبھی جرعہ جرعہ اور کبھی ڈیک لگا کے پی جاتا ہے کہ ڈکار تک نہیں لیتا۔ ہمارا شاعر اسی کے خوف سے احباب کو یہی مشورہ دیتا ہے کہ:
چھیتی چھیتی کر لَے یارا! / ویلا لئے نہ ویکھ / جے اس ظالم ویکھ لیا تے / پا دیوے گا نھیر / ایہدے بوجھے کالیاں راتاں / جنھاں دی نئیں سویر / ساڈے کولوں بانٹے کھوہ کے / ایہنے سانوں انگلی لا کے /لَے جانا اے دُور / ساڈی جھولی خالی کر کے / کھُتی دینی پُور
ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ہماری نئی نسل رانگلی مدھانی، میئنے دی بانگ، سرگی دے تارے، پکی تھاں، کُکڑا دھمی دیا، جوترا، ہل، پنجالی، سوہاگہ کے مفہوم سے بھی آشنا نہیں۔ شاعرِ مشرق کو تو پطرس جیسے فلسفہ زدہ سید زادوں سے اپنی خودی گنوا کے زناریٔ برگساں ہو جانے کا گِلہ تھا اور لسان العصر اپنے عشرتی سے شکوہ کنان تھے کہ: کھا کے لندن کی ہوا سویوں کا مزا بھول گئے ? لیکن ہمارا نوجوان تو اپنی ہی دھرتی پہ رہتے رہتے اپنی ثقافت سے بے گانہ ہو چکا ہے۔ ہمارا شاعر اسی لیے حال سے ماضی کی جانب لَوٹ جانے کا متمنی ہے کہ اسے پورا پورا احساس ہے کہ مادی ترقی کی خواہش میں دوڑتے دوڑتے انسانیت ہی نہیں خود حضرتِ انسان بھی کہیں گم ہو چکا ہے۔ اس کا کہنا ہے: اس دھرتی دا مان گواچا / لبھنا ایں انسان گواچا / اپنی بھال چ نکلن والا / خورے کیس جہان گواچا / نھیری رُکھ شرینھ دا لَے گئی / لوکا! میرا ہان گواچا
اس غزل کی ردیف میں تا دیر گم شدہ ماضی کے ماتم کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور قافیے عمران گواچا، تک ہمارا پیچھا کرتے ہیں۔ ہم اس کی شاعری کا بنیادی نکتہ اس مختصر ترین نظم کو قرار دے سکتے ہیں، جس میں انھوں نے نہایت جامع اور مؤثر انداز میں دو ثقافتوں کے بیچ معلق انسانوں کے جذبات و احساسات کو یوں زبان دی ہے: اوہ کیہ کرے! / جس دے سینے / پنڈ دفنا کے / ویلا اوہنوں / شہر دے پلّے بنھ دیندا اےاس کا انجام بھی شاعرنے اپنی اس نظم میں خود ہی بتا دیا ہے:
خورے کیہ سی؟ / ڈیپری کیپ / پروزیک کھاہدی / کیتے دم درود / گل وچ پائی، گھول کے پیتی / تعویذاں دی پَنڈ / ماں کہندی سی: / " نکے ہندیاں لنگھ آیاں سیں / توں کوئی پکی تھاں " / خورے کیہہ سی تے کیہہ نئیں سی / ملی نہ کدھروں سار / ساہواں مینوں جیوندا رکھیا/ روح نے دِتا مار
دوستو! ماضی کو اتنی شدت سے یاد کرتا کرتا ہمارا یہ دل فریب شاعر آج خود ماضی بن گیا ہے، آج کا یہ کالم اس اولڑے دوست کے اسی حکم کی تعمیل میں ہے:
دنیا دے وچ رہ کے دنیا بھُلے رہے
دنیا تے لازم اے سانوں یاد کرے