شاعرِ مشرق جیسی ہمہ جہت اور اپنی زندگی ہی میں لیجنڈ کی حیثیت اختیار کر جانے والی شخصیت کی بابت پڑھ سن کے نوجوان یا نیم خواندہ طبقے میں کئی طرح کا تجسسہر دور میں پایا جاتا رہا ہے کیونکہ شخصیات کی تاریخ میں اقبال، قادرِ مطلق کا ایک انوکھا، منفرد اور ناقابلِ یقین تجربہ ہے۔ وہ شاعر ہے تو اور طرح کا شاعر? وہ سیاست دان ہے تو مختلف نوعیت کا? وہ دانشور ہے تو اپنی طرز کا? وہ حسن پرست ہے تو سب سے الگ? وہ باغی ہے تو اپنے انداز کا ? وہ عاشقِ رسول ہے تو بالکل منفرد ?وہ موحد ہے تو اپنے گہرے قرآنی مطالعے کے باعث ? وہ مقلد ہے تو ذاتی رجحان کے سبب? وہ فلسفی ہے تو وکھری ٹائپ کا? وہ تاریخ داں ہے تو اپنی ترجیحات کے بل بوتے پر ? وہ سیالکوٹی ہے تو کسی اور کو ایسا سیالکوٹی ہونے کی آج تک جرأت نہیں ہوئی? وہ لاہوری ہے تو ایرانی ادب میں پورا دبستان اقبال لاہوری، سے منسوب? کیا کمال ہے کہ ان کی زندگی میں کسی بڑی سے بڑی شخصیت کا ان سے ملاقات یا حاضری کے بغیر لاہور کے دورے کا مقصد ہی پورا نہیں ہوتا تھا ? مختلف ممالک کے سربراہ ان سے ملاقات کے متمنی تھے? وہ شاگرد ہے تو ایسا بے مثال کہ جس پہ داغ اِترائے، جس کے مولوی میر حسن صدقے واری جائے، جس کے آرنلڈ گُن گائے? شیخ عبدالقادر لکھتے ہیں:
"اقبال نے داغ کی زندگی ہی میں قبولِ عام کا وہ درجہ حاصل کر لیا تھا کہ داغ مرحوم اس بات پر فخر کرتے تھے کہ اقبال بھی ان لوگوں میں شامل ہے، جن کے کلام کی انھوں نے اصلاح کی۔ مجھے خود دکن میں ان سے ملنے کا اتفاق ہوا اور مَیں نے خود ایسے فخریہ کلمات ان کی زبان سے سنے۔"
ایسے میں بہت سے حاسد بھی ان کی زندگی میں آتے چلے گئے۔ مولوی کو گلہ ہے کہ وہ داڑھی نہیں رکھتا لیکن خدا سے لاڈیاں بڑھ چڑھ کے کرتا ہے? شاعر کو شکوہ ہے کہ جب مدعی خود شاعر ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا، مشاعروں میں نہیں جاتا تو ضرورت سے زیادہ مشہور کیوں ہو گیا؟ ? ترقی پسند ایک طویل عرصے تک نالاں رہے کہ یہ حضرت تو خالص دینی اقدار اور قرونِ اولیٰ کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے? لہٰذا ان سے متعلق کئی جوانب سے شکوک و شبہات، افواہوں، غلط فہمیوں، اوہام و ابہام حتّیٰ کہ کردار کُشی کا بازار آج تک گرم ہے۔ نوجوان جب نئے نئے مطالعے کی طرف راغب ہوتے ہیں تو بعض لوگوں کے ورغلانے پر نہایت رازدارانہ انداز میں استاد سے پوچھتے ہیں:
کیا اقبال شراب پیتے تھے؟ ? اقبال مُجرا سنتے تھے؟ ? سنا ہے اقبال نے کوئی قتل بھی کیا تھا؟ ? اقبال نے اتنی شادیاں کیوں کیں؟ ? عطیہ فیضی اور ایما ویگے ناست سے اقبال کا کوئی خاص تعلق تھا؟ ?اقبال نے ہندوستان کے لیے ترانہ کیوں لکھا؟
اصل حقیقت یہ ہے کہ اقبال کو اپنی زندگی میں بھی مقامی و قومی سطح پر ایسے بے شمار سوالات وا عتراضات کا سامنا تھا۔ بانگِ درا، کی ستائیس اشعار پر مشتمل نظم زُہد و رندی، میں پڑوس میں رہنے والے ایک متجسس مولوی صاحب کا قصہ انھوں نے شگفتہ انداز میں بیان کیا ہے:
اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی
تیزی نہیں منظور طبیعت کی دکھانی
مدت سے رہا کرتے تھے ہمسائے میں میرے
تھی رند سے زاہد کی ملاقات پرانی
وہ ایک عرصے تک اقبال کی رنگا رنگ مصروفیات کی ٹوہ میں رہے۔ ان مولانا کی تفتیش و تجسس کا طریقہ بھی اقبال کی زبان سے سنیے:
حضرت نے مِرے ایک شناسا سے یہ پوچھا
اقبال کہ ہے قمریِ شمشادِ معانی
سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا
ہے ایسا عقیدہ اثرِ فلسفہ دانی
ہے اس کی طبیعت میں تشیُّع بھی ذرا سا
تفضیلِ علیؓ ہم نے سُنی اس کی زبانی
کچھ عار اُسے حُسن فروشوں سے نہیں ہے
عادت یہ ہمارے شعرا کی ہے پرانی
گانا جو ہے شب کو تو سحر کو ہے تلاوت
اس رمز کے اب تک نہ کھلے ہم پہ معانی
مجموعۂ اضداد ہے اقبال نہیں ہے
دل دفترِ حکمت ہے، طبیعت خفقانی
نظم میں آگے چل کر بیان ہے کہ ایک دن وہی تفتیشی مولانا، اقبال کو سرِراہ مل گئے۔ باتوں باتوں میں اس تجسس اور کھوج کا تذکرہ بھی آیا تو مولانا فرمانے لگے کہ یہ سب کچھ مَیں آپ کی محبت اور اپنے اطمینان کے لیے کر رہا ہوں لیکن ابھی تک کسی نے تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ اب آپ مل گئے تو کچھ خود ہی وضاحت فرما دیں، جس کے جواب میں اقبال نے کسی لمبے چوڑے اقبالی بیان، کی بجائے بصد احترام یہ کہہ کے پنڈا چھڑایا کہ:
مَیں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے مِرے بحرِ خیالات کا پانی
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
اسی طرح اقبال کی مکمل شاعری میں سے اس کی ذات کو منہا کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بالخصوص بانگِ درا، کی ایک اک نظم اقبال کی عملی موجودگی کی گواہی دے رہی ہے۔ ان کی نظموں، بچے کی دعا، ہمدردی، ماں کا خواب، پرندے کی فریاد، ایک مکڑا اور مکھی، ایک پہاڑ اور گلہری، ایک گائے اور بکری، ایک پرندہ اور جگنو، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، بچہ اور شمع، کی سطر سطر میں ان کا اپنا عہدِ طفلی چھپا بیٹھا ہے۔ اسی طرح، صدیقؓ، بلالؓ، شفاخانۂ حجاز، مذہب، شبِ معراج، ایک حاجی مدینے کے راستے میں، فاطمہ بنت عبداللہ، مُسلم، بلادِ اسلامیہ، شبِ معراج، کفر و اسلام، مسلمان اور تعلیمِ جدید، خطاب بہ جوانانِ اسلام، طلوعِ اسلام اور حضورﷺ رسالت مآب میں، جوابِ شکوہ، جیسی شاہکار نظموں میں ایک سچا اور کھرا موحد اور مومن مسلمان، قرونِ اولیٰ کے قافلے سے پِچھڑا ہوا ہندوستانی اور ایک بے مثل عاشقِ رسولﷺ بقلم خود نظر آتا ہے، جو امتِ مسلمہ کے ہر مسئلے کا حل اطاعتِ پیغمبرِ عظیم ﷺ میں دیکھتا ہے۔