Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Baap Ke, Naqs e Qadam, Par

Baap Ke, Naqs e Qadam, Par

باپ کی وراثت سے مناسب حصہ پانا عین فطری اور اسلامی ہے لیکن باپ کے بِرتے پر کسی اہم ترین حکومتی عہدے یا قومی قسم کی کلیدی ذمہ داری کو بغیر اہلیت، بنا میرٹ محض "میرا اَبّا" کی بنیاد پر اُچک لینا، کسی بھی معاشرے یا کسی بھی زمانے میں اچھا عمل یا کارِ دانش مندی نہیں گردانا گیا۔ پھر جن معاشروں میں ایک مالی، چوکیدار، کلرک یا پرائمری سکول ٹیچر بھرتی ہونے کے لیے بھی کسی نہ کسی مہارت یا استعداد کو ضروری قرار دیا گیا ہو وہاں کسی اہم عہدے یا بھاری معاشرتی ذمہ داری کے تقاضوں پہ بہتر انداز میں پورا اترنے کے لیے مناسب ترین قابلیت، اچھی خاصی مہارت، گھنے تجربے، کامل ہنر اور وسیع الظرفی کی ضرورت کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ اور یہ سب کچھ، سخت محنت، طویل جد و جہد، مسلسل ریاضت اور شدید مشقت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ شاعر نے سچ کہا تھا کہ:

نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا

سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا

پنجابی کا ایک شعر جو ہمارے ہاں بالعموم ایک مِتھ کے طور پر استعمال ہوتا ہے، وہ کچھ یوں ہے:

جِنساں اپنا اپنا جوہر وکھاندیاں نیں

جدوں اُکھلی دَھر چھڑیندیاں نیں

یعنی تمام اجناس کی اصلیت اسی وقت واضح ہوتی ہے جب انھیں اوکھلی میں ڈال کے بھاری بھرکم موصلوں کی ضربیں لگائی جاتی ہیں۔ سونا بھی کندن اسی وقت بنتا ہے جب اسے شدید قسم کی آگ میں سے گزارا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے دانشوروں نے زمانے کے تھپیڑوں ہی کو انسان کا سب سے بڑا استاد قرار دیا ہے۔ مفت ہاتھ آ جانے والی وراثت، دولت، ملکیت کا سب سے بڑا نقصان ہی یہی ہے کہ اس کے زعم میں دوسروں کے احساسات و جذبات نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ قادرِ مطلق نے اپنے عزیز ترین بندوں کو بھی نبوت و نیابت کی ذمہ داری عطا کرنے سے قبل کن کن آزمائشوں سے نہیں گزارا؟ ویسے بھی جو منصب دوسروں کی زندگیوں پہ اثر انداز ہو سکتا ہو، اس میں اخلاقی معیار، ازلی صداقت، مسلمہ دیانت اور عمر کے ایک خاص منطقے کے بغیر تو بات بھی نہیں ہو سکتی۔ ان کائناتی حقائق کو تسلیم کر لینے کے بعد ہی انسان میں وہ صلاحیتیں پیدا ہو پاتی ہیں، جن کا اقبال کے اس شعر میں اظہار کیا گیا ہے:

نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُر سوز

یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

اور ایک جگہ فرمایا:

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

قرآن ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے جہاں انبیا نے قوموں کو اللہ کے راستے کی طرف بلانے کی ہر ممکن کوشش کی اور لوگوں نے باپ دادا کے رستے پہ چلنے پر اِصرار کیا۔ حالانکہ سیدھی سی بات ہے کہ باپ دادا جب اپنی زمینی ضرورتوں اور نفسانی تقاضوں کی رَو میں بہہ کر صراطِ مستقیم سے بھٹکتے ہیں، تبھی کسی نئے مسیحا یا نصیحت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ قرونِ اولیٰ کی اسلامی سیاست پہ نظر کر لیجیے، خرابی وہیں سے پیدا ہوئی جہاں خلافت و امامت کو ملوکیت میں بدلا گیا۔ تاریخ کے اوراق پلٹنے کے ساتھ ساتھ آج آپ وطنِ عزیز کا ہر وہ شعبہ اٹھا کے دیکھ لیجیے جس میں اختیار یا اقتدار، محنت، مشقت، اذیت برداشت کیے بغیر محض ورثے کے طور پر اولاد میں منتقل ہونے کے آثار ملتے ہیں، وہاں کسی بھی طرح کی معاشرتی یا اخلاقی برائی کو جڑ پکڑنے سے روکا ہی نہیں جا سکتا۔ اپنی ملکی سیاست ہی میں مریم، حسن، حسین، حمزہ، سلمان، بلاول، فواد، تارڑ، خاقان، خرم دستگیر، نفیسہ، نورانی، فضل، اسد، عابد، وریو، خواجے، لغاری، کھوسے، قریشی، گیلانی، یا جس جس نے بھی سیاست اور حکومت کو باپ کا مال سمجھا، کے بیانات اور حرکات دیکھ لیجیے، آپ کو رعونت، تکبر، بدتمیزی، اَکڑ، اکھڑپن، پھکڑپن، چھینا جھپٹی اور بدتہذیبی کے معنی سمجھ میں آ جائیں گے۔ ایسے لوگوں کے منھ سے بدتمیزی کے علاوہ کوئی بات سننے کو کان ترس جاتے ہیں۔ ان کو دیکھ کے لگے گا ہی نہیں کہ یہ کسی دیدہ و بینا کے نقشِ قدم پر ہیں بلکہ ایک ایک حرکت بتائے گی یہ سب اپنے اپنے باپ سے بھی زیادہ اُن کے نقصِ قدم، پر گامزن ہیں۔

جس زمانے میں مَیں نے سیالکوٹ میں پہلی لیکچرشپ جوائن کی تھی، وہاں یہ بات عام تھی کہ کم عمر ترین ارمغان سبحانی (مرحوم) کی ضد پر قبل از وقت شناختی کارڈ بنوا کر انھیں ایم پی اے بنوایا گیا، جو مرتے دم تک سیٹ سے چمٹے رہے۔ اسی طرح جب نوجوان بلاول کو لندن سے پاکستان بلا کے بھٹو بنانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں تو اپنے حکیم جی نے پارٹی والوں کو نہایت ہمدردانہ مشورہ دیا تھا:

بچگانہ بچگانہ کہہ کر لوگ کسیں گے آوازے

کس کس کا منھ بند کرو گے؟ کس کس کو سمجھاؤ گے؟

آج کل عابد شیر علی کی وڈیو اور ظاہر جعفر کا قتل کیس زیرِ بحث ہیں، جو ایسے ہی بلا محنت و میرٹ حاصل ہو جانے والے تعیش و تکبر کا شاخسانہ ہیں۔ ایسے لوگوں کی خود سری و خود رائی، میری لندن تو کیا?الحمدللہ ہمارے ہیں!? لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹوں گا? یہ ہوا تو سیاست چھوڑ دوں گا، وہ ہوا تو ? جیسے رویے جنم لیتے ہیں۔ ابھی ایسے ہی ایک سپوت، کا تازہ ترین کلپ دیکھا جو کسی مجرمانہ حرکت سے تازہ تازہ ضمانت پہ آیا تھا، جو ایک چینل پہ بیٹھا حلفاً کہہ رہا تھا: مَیں وہاں ہار گیا تو آپ میرا نام بدل دینا۔ اب اصول تو یہ ہونا چاہیے کہ اس کو اسی چینل پہ اتنے ہی لوگوں کے سامنے بٹھا کے ایسا نام عطا کیا جائے کہ آیندہ ایسے غیر ذمہ دارانہ اور متکبرانہ بیان دیتے ہوئے کم از کم سوچ ضرور لیا کریں۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سیاست اور بہت سے دینی و قومی اداروں کو وراثت سے مکمل طور پر پاک کیا جائے۔ اس اہم ترین ذمہ داری کی طرف آنے والوں کو ایک کڑے تعلیمی، نفسیاتی، اخلاقی امتحان سے گزارا جائے یا اس مرحومہ و مظلومہ سیاست و نظامت کی قبر پہ شاعرِ مشرق کے اس شعر کا کتبہ لگا دیا جائے:

میراث میں آئی ہے انھیں مسندِ ارشاد

زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن