قصے کہانی میں کتنی طاقت ہوتی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ربِ رحیم نے تمام مذہبی صحائف اور قرآنِ مجید میں گزری ہوئی قوموں کی بابت واقعات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ بعد ازاں انھی قصوں کو قصص القرآن، کی صورت مرتب و مدوّن بھی کیا گیا۔ من و سلویٰ پر ککڑی مسور کو ترجیح دینے والی انسان نامی اس مخلوق کی نفسیات سے خالق و برتر سے زیادہ کون آگاہ ہوگا کہ اسے سیدھے سادے حقائق کی بجائے ترتراتے قصے زیادہ مرغوب ہیں۔
آج کل ہمارے چاروں جانب پانچ سیزن اور ۴۱۸ اقساط پر مشتمل ترکی ڈراما سیریل "ارطغرل غازی" کے چرچے اور تذکرے ہیں کہ گریز اور پرہیز کرتے کرتے بھی جس کی سو سے زائد اقساط ہمارے ملاحظے میں آ چکی ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ترک ایک بہادر اور زندہ دل قوم ہیں۔ تاریخ کے پَنّوں پر خلافتِ عثمانیہ کے طنطنے اور دبدبے کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔ یہ الگ بات کہ تنگ نظر اور متعصب مغربی دنیا نے ہمیشہ انھیں مردِ بیمار کے طور پر پیش کیا لیکن جب سے رجب طیب اردوان کہ جن کا اپنا تعلق بھی سلطان شاہ اور ارطغرل غازی والے قائی قبیلے سے ہے، نے عنانِ اقتدار سنبھالی ہے، انھوں نے بہت محدود عرصے میں دنیا کو اپنی موجودگی اور ترجیحات کا احساس دلایا ہے۔ انھی دنوں آیا صوفیا کہ جسے اتاترک نے لبرلزم کی مستی میں عجائب خانے میں تبدیل کر دیا تھا، دوبارہ مسجد کا درجہ عطا کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں اپنی نئی نسل کو اپنے ماضی سے متعارف کرانا بھی ضروری سمجھا، جس کے لیے نئی نسل کی من پسند صنف ڈرامے ہی کا سہارا لیا۔ اس ڈرامے کی پیشکش کے ضمن میں ان کا یہ جملہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ:
"جب شیر اپنی تاریخ نہیں لکھیں گے، تب تک شکاری ہی ہیرو بنے رہیں گے۔"اور ساتھ ہی ابنِ عربی کہ جو اس ڈرامے کا ایک نہایت مؤثر کردار بھی ہیں کا یہ قول کہ: " تقدیر صرف اُن سے پیار کرتی ہے، جو جدو جُہد کرتے ہیں۔"
ویسے تو ہمارا افسانہ بھی سجاد حیدر یلدرم کی وساطت سے ترکی سے امپورٹ ہوا تھا اور مختلف چینلوں پر ان کی اپنی ذہنیت جیسے ڈرامے دکھانے کی روایت بھی موجود تھی لیکن جب سے وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر میڈیا نے "ارطغرل غازی" کا ڈول ڈالا ہے، وہ سلطنتِ عثمانیہ کے دورِ اقتدار کی مانند ہر چیز کو فتح کرتا بلکہ روندتا چلا گیا ہے۔ یہ ایسا ڈراما ہے جو راست فکر لوگوں کے قلوب اور لبرلز کے اعصاب پہ اپنے اپنے انداز میں بہ یک وقت سوار ہے۔ ترکی اور دیگر معاشروں میں تو اس کو جو پذیرائی ملی سو ملی، لیکن ہمارے اپنے ملک میں اس نے ہندی، انگریزی فلموں، بد تہذیب سٹیج ڈراموں اور ہمارے اپنے چینلز پر معاشقوں، طلاقوں، فحاشی و بد لحاظی اور خاندانی بگاڑ کی دوڑ میں اول آنے میں لگے ڈراموں کو جس طرح نکرے لگایا ہے، وہ یقیناً قابلِ داد ہے۔ لوگوں کی پسندیدگی نے بتا دیا کہ کسی فلم ڈرامے کی مقبولیت کے لیے بے حیائی، مختصر لباس اور بے ہودہ بھاتی رقص ضروری نہیں ہیں۔ اس پر ترک پروڈیوسر محمد بزداغ بھی یقیناً مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ہمیں تو اس ڈرامے کی کامیابی کا اصل اندازہ گند مند کلچرکے عاشقوں کی چیخوں سے ہوا۔ پھر اس کی مقبولیت اور تاثیر کا اندازہ اس بات سے بھی لگائیں کہ ہم جیسے ماضی گزیدہ لوگ جو اب تک پی ٹی وی پہ دیکھے، کمال احمد رضوی، اطہر شاہ خان، ڈینس آئزک، فاطمہ ثریا بجیا، انور مقصود، حسینہ معین، مُنو بھائی، امجد اسلام امجد، عطا الحق قاسمی، اوریا مقبول جان اور نور الہدیٰ شاہ وغیرہ کے سحر میں مبتلا تھے اور موجودہ ڈراما کلچر پر لاحول پڑھے بیٹھے تھے، پھر سے ہرے ہو گئے ہیں۔ سچ پوچھیں ہمیں تو اپنے اور ان کے ڈرامے کا موازنہ کرتے ہوئے ایک ہی شعر ذہن میں آتا ہے: ؎
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں کہ جنھیں تصویر بنا آتی ہے
پھر ایک دوسرے زاویے سے بھی اس کی افادیت ملاحظہ ہو کہ سلطنتِ عثمانیہ کی تاریخ سے ہماری لائبریریاں بھری پڑی تھیں لیکن کتنے لوگ اس کے احوال سے واقف تھے، اس ڈرامے کی آمد کو تو ابھی چند ماہ ہوئے ہیں، ترک تو رہے ایک طرف، ہمارے اپنے دیس کا بچہ بچہ جان گیا ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ کی حکومت کس کس برِ اعظم پر اور کتنا عرصہ رہی؟ اس سے پہلے کتنے لوگ جانتے تھے کہ اناطولیہ، قونیہ، حلب کیا تھے؟ اور یہ کہ صلیبیوں، منگولوں اور غداروں نے آج تک مسلمانوں کو کتنا نقصان پہنچایاہے؟ اس سے شاید ہم اس نتیجے پر بھی پہنچ جائیں کہ قوم و ملک سے غداری کی سزامقدمات نہیں فوری اموات ہوتی ہیں۔ اس ڈرامے میں اس پہلو کو بھی نہایت کامیابی سے اجاگر کیا جا رہا ہے کہ بگڑے ہوئے معاشروں میں نیکی اور اچھائی کا پھیلاؤ کتنا مشکل اور نیک نیت لوگوں کے خلاف محلاتی سازشوں کے جال کتنے مضبوط ہوتے ہیں۔
مجھے تو اس کے کرداروں پہ بھی بات کرنا ہے کہ ہم کُول کا لفظ بہت سے لوگوں کے لیے استعمال کرتے آئے تھے لیکن اس کا اصل مفہوم مجھے ارطغرل کا کردار ادا کرنے والے اینجن التان کو دیکھ کے سمجھ میں آیا، تمکنت اور سطوت کے معنی سلطان شاہ کے کردار سے پتہ چلے، گھریلو سوجھ بوجھ اور خاندانی رکھ رکھاؤ کا اندازہ حائمہ خاتون کو دیکھ کے ہوا۔ نسوانی حسن اور وقار کے گز گز پہ حلیمہ سلطان کی مہر لگی ہوئی ہے۔ بہادری اور ایثار کی دنیا کو نور گل، روشان اور بابر نے چمکا رکھا ہے۔ البتہ قوم، ملک اور عوام الناس سے غداری کرنے والے، کردوغلو، کورا تائیگر، بوپارہ، البرگو، کوچا بش وغیرہ ابھی مکاری عیاری، طراری، مطلب و مفاد پرستی اور دولت کی ہوس میں ہمارے بعض سیاست دانوں سے بہت پیچھے نظر آئے!