Friday, 27 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Inayaten Kya Kya

Inayaten Kya Kya

سر پر سنجیدہ جناح مارکہ ٹوپی، بدن پہ جچتی ہوئی دیدہ زیب شیروانی، لمبی شرعی داڑھی سے سجا ہوا نہایت مطمئن چہرہ، شرم و حیا کو مَس کرتی عینک، چہرے پہ تھوک کے حساب سے برستی شرافت? کوئی ان کو پہلی نظر میں دیکھ کے کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ بابا ہنس بھی سکتا ہے اور سچ بات بھی یہی ہے کہ مشاعرہ پڑھتے ہوئے بھی شاید ہی کبھی انھیں ہنستے ہوئے دیکھا گیا ہو? یہ کام انھوں نے اپنے قارئین پہ چھوڑ رکھا تھا، قارئین پر اعتماد جو تھا۔ حیدرآباد جیسے مضافاتی شہر میں بیٹھ کے قومی سطح کے مشاعروں میں جگہ بنانا کوئی آسان تھوڑی ہے۔ ایسی صورت میں کہ جب بامعاوضہ مشاعروں میں کئی خوشامدی یا فسادی نام مستقلاً چھپے ہوئے ہوتے تھے۔

وہ نہ صرف مزاحیہ شاعری کے تاجدار تھے بلکہ تابدار اخلاقی اقدار کے بھی علم بردار تھے۔ ان کی شاعری محض ہنسنے کا نسخہ نہیں بلکہ وہ سماجی، سیاسی اور تہذیبی شعور سے بھی پُر ہے۔ مشترکہ موضوعات و مقاصد اور اسلوبِ کلام کی بنا پر انھیں اکبرِ ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ ہماری سماجی صورتِ حال اور بالخصوص تحریکِ پاکستان کے حوالے سے ان کا یہ عزم و نظم ملاحظہ ہو:

حوصلے پست تھے فاصلہ دیکھ کر

فاصلے گھٹ گئے حوصلہ دیکھ کر

سی رہے ہیں ہم اک دوسرے کا کفن

موت ہنستی ہے یہ مشغلہ دیکھ کر

تم عنایت اکیلے ہی چلتے رہو

رُک نہ جائیں قدم قافلہ دیکھ کر

ان کی اسی غزل کا یہ شعر تو ضرب المثل کا درجہ اختیار کر چکا ہے:

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا

لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

وہ دس مئی ۱۹۳۵ء کو ٹونک میں پیدا ہوئے۔ راجھستان کے اس شہر ٹونک نے بھی اُردو ادب کو کیا کیا تحفے عنایت کیے ہیں۔ اُردو تحقیق کو حافظ محمود شیرانی، اُردو نظم کو شاعرِ رومان اختر شیرانی اور مزاح نگاری کو مشتاق احمد یوسفی، مختار ٹونکی اور پروفیسر عنایت علی خاں بلکہ ان کے والد ہدایت اللہ خاں ناظر ٹونکی بھی باقاعدہ مزاح لکھتے تھے، والدہ بھی شاعری کا اچھا ذوق رکھتی تھیں۔ تیرہ سال کی عمر میں ہجرت کر کے پاکستان آئے اور حیدرآباد (سندھ) میں مقیم ہوئے۔ وہیں پہ تعلیم (کورنمنٹ ہائی سکول حیدرآباد سے میٹرک، سٹی آرٹس کالج سے ۱۹۵۹ء میں بی اے اور ۱۹۶۲ء میں سندھ یونیورسٹی سے اول پوزیشن کے ساتھ ایم اے اُردو) اور ملازمت (درس و تدریس) کے سلسلے ہوئے۔ ٹھیک ایک برس قبل۲۶ جولائی ۲۰۲۰ء کو پچاسی سال کی عمر میں کراچی میں انتقال ہوا۔

۱۹۵۷ء میں اپنے ہی کالج میں پہلا مشاعرہ بھی طنزیہ کلام کے ساتھ پڑھا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آیا۔ ان کی مطبوعہ کتب میں، ازراہِ عنایت، عنایات، رقعاتِ عنایت (خطوط) نہایت (انتخاب) عنایتیں کیا کیا (مزاحیہ شاعری کا کلیات) بول میری مچھلی، چنو منو اور شیطان، پیاری کہانیاں (بچوں کے لیے) اور متعدد نصابی کتب شامل ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا تو لوگوں کی محویت اور کرکٹ کا جنون دیکھ کے انھوں نے "ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے " کے عنوان سے جو نظم لکھی، اسے بے پناہ عوامی مقبولیت کے ساتھ ساتھ ادبی حلقوں میں بھی شاہکار کا درجہ حاصل ہوا، اس نظم کے دو ایک بند ملاحظہ کیجیے:

مجھے ہمسائے کے گھر میں جونہی شعلے نظر آئے

تو قبل اس سے کہ یہ آتش مِرے گھر تک پہنچ جائے

بہ عجلت تھانے اور فائر بریگیڈ فون کھڑکائے

مگر دونوں جگہ سے یہ جوابِ لاجواب آئے

ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے

اور اُس دُلہا کا قصہ آپ نے بھی تو سنا ہوگا

اسے جب آرسی مصحف کی خاطر گھر بلوایا

کہ لڑکا اندر آئے اور دُلہن کا دیکھ لے چہرہ

تو دروازے پہ پہنچا اور یہ کہہ کر پلٹ آیا

ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اَسّی کی دھائی میں، مَیں نے پروفیسر صاحب کو پنجاب یونیورسٹی کے فیصل آڈیٹوریم میں منعقدہ سالانہ مشاعرے میں پہلی بار سنا، یہ مشاعرے طلبہ و طالبات میں ادب کا ذوق پیدا کرنے کے لیے بہت معاون ہوا کرتے تھے۔ مذکورہ مشاعرے میں، پورے پنڈال نے انھیں اس غزل کے ساتھ صحیح معنوں میں مشاعرے لُوٹتے دیکھا:

کسمسانے کی اجازت نہیں دی جائے گی

بلبلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی

اُس کے رخسار پہ ہے اور تِرے ہونٹ پہ

تلتلملانے کی اجازت نہیں دی جائے گی

ایک رقاص نے گا گا کے سنائی یہ خبر

ناچ گانے کی اجازت نہیں دی جائے گی

پھر تو تم سر پہ اٹھا لو گے زمانے بھر کو

سر اٹھانے کی کی اجازت نہیں دی جائے گی

اس سے تجدیدِ تمنا کی ہوا آتی ہے

دُم ہلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی

ہماری روایتی اُردو شاعری میں محبوب کے اعضا کو جن جن چیزوں سے تشبیہ دی جاتی ہے، اس حوالے سے پروفیسر عنایت علی خاں کا یہ طنزیہ قطعہ بھی دیکھیے:

سیب سے گال ہیں، خوبانی کی جیسی ٹھوڑی

شربتی آنکھیں بھی چہرے پہ بڑی

پیاری ہیں ساری چیزیں اگر ایسی ہیں تو تقصیر معاف

پھر یہ آپ کی بیگم نہیں افطاری ہیں

فنی حوالے سے دیکھیں توان کی شاعری شگفتگی اور روانی کے امتزاج پہ تخلیق ہوتی تھی، جس کا ایک بہترین نمونہ ان کی یہ نظم نما غزل ہے:

ہم ان کو لائے راہ پر مذاق ہی مذاق میں

بنے پھر ان کے ہم سفر مذاق ہی مذاق میں

پڑے رہے پھر ان کے گھر مذاق ہی مذاق میں

مزے سے ہو گئی بسر مذاق ہی مذاق میں

ہوا ہے جدے میں جو اک مزاحیہ مشاعرہ

ہم آ گئے خدا کے گھر مذاق ہی مذاق میں

یہاں عنایت آپ کو مشاعروں کی داد نے

چڑھا دیا ہے بانس پر مذاق ہی مذاق میں