جب سے اپنے محترم بھائی سراج الحق کو بلاول میاں کے ساتھ شانہ بشانہ پریس کانفرنس کرتے دیکھا ہے، دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا ہے۔ ان کی چِٹی خبور ٹوپی، بلاول کے سفید ماسک سے اتنی میچ کر رہی تھی کہ دونوں کی ایک ہی وقت میں بلائیں لینے کو جی چاہ رہا تھا۔ اس وقت تو لطف اور بھی دوبالا ہو گیا جب ہمارے ایک جیالے دوست نے سینے پہ ہاتھ مار کے کہا: ہم نے اپنے جھنڈے میں سبز رنگ ایسے ہی شامل نہیں کیا تھا!!"
مولانا کے لبرل، ہونے کا اندازہ تو ہمیں اسی وقت ہو گیا تھا، جب وہ ن، اور پ، کے موقف کو تقویت دینے کے لیے ہر روز بڑھ چڑھ کے مدینہ کی ریاست والوں کے لتّے لیتے تھے۔ ان کے اس الحاق، اتفاق یا اشتراک سے جماعت کو تو یقینا کوئی نہ کوئی فائدہ ہوا ہوگا لیکن ہم جیسے جھگڑالو ہم خیالوں کو بہت نقصان ہوا ہے۔ اب ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ جو ہم سارا سارا دن لوگوں کے ساتھ سرخے، سبزے کی بحث میں گزارا کرتے تھے، اب اس فارغ وقت میں کیا کریں گے؟
اب تو ہمیں یہ بھی یاد نہیں آ رہا کہ ہم کس کے بہکاوے میں آ کے آج تک ان رنگوں کو برا بھلا سمجھتے، اور ان کے بارے میں اَول فَول بکتے رہے۔ ہمیں تو مولانا کی اس میانہ روی، کے اندر جھانک کے اندازہ ہوا ہے کہ یہ دونوں رنگ ہی بہت خوبصورت ہیں۔ کیا ہوا جو ٹریفک کے اشاروں پہ دونوں رنگ کی بتیاں ایک ساتھ نہیں جلتیں؟ جماعت کے اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کا ایک بھاری فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ اب کوئی بدخواہ منھ بھر کے یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ آپ کو ٹرک کی سرخ بتی کے پیچھے کس نے لگایا ہے؟ لیکن ہم نے اپنے اندر کی شرمندگی کو مٹانے کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم ساوی اور رتی دونوں سیکنارہ کشی کر کے فی الحال پیلی بتی کو اپنا رہبر مان لیں، ہمارے دوست میرزا مُفتہ اکثر فرمایا کرتے ہیں کہ پیلی بتی ہو یا پیلی پتی، دونوں کا اپنا ہی نشہ ہے، اس رنگ میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب جی چاہے چل پڑو، جہاں جی چاہے رک جاؤ!!!
قبل ازیں ہم جب کبھی میرزا غالب کا یہ شعر پڑھا کرتے:
سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا رُوئے آب پر کائی
تو سمجھ نہیں آتی تھی کہ سبزہ بھلا کیسے کائی بن سکتا ہے؟ اس اتحاد سے دیکھیے یہ معمہ بھی کتنی آسانی سے حل ہو گیا۔ اپنے لالہ بسمل تو کئی دن سے دونوں پارٹیوں کی مساوی الاضلاعی حیثیت پہ لُڈیاں ڈال رہے ہیں کہ اب دونوں منافع پسند پارٹیوں کو توبہ تائب کرانے کے لیے اپنا اپنا ذاتی مولانا میسر آ گیا ہے لیکن حکیم جی، جو وقفے وقفے سے اِن تینوں پارٹیوں کے ساتھ باری باری زندگی کی طویل باری بھگتا چکے ہیں، نے اس سلسلے میں ایک اور ہی بات کہہ کے حیرا ن کر دیا، فرمانے لگے:
"بھائی میاں ! اس سلسلے میں بھی ابنِ زرداری، ابو مریم سے بازی لے گئے!""وہ کیسے؟ " ہم نے دریافت کیا۔
" وہ ایسے کہ مریم کے مولانا اربوں سے کم کی بات ہی نہیں کرتے، جب کہ اپنے سراج بھائی تو زیادہ سے زیادہ عربوں کی بات کر سکتے ہیں!!"میرے جیالے دوست تو اتنے خوش فہم واقع ہوئے ہیں، فرماتے ہیں کہ اب ہمیں اس دن کا شدت سے انتظار ہے جب کسی آٹھ مارچ کو کسی ایسی ہی رنگین پریس کانفرنس میں اپنے یہی معاملہ فہم مولانا ماروی سرمد کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔ ایک طرف سے آواز آ رہی ہوگی: میرا جسم، میری مرضی! اور دوسری جانب سے جوابی نعرہ لگ رہا ہوگا: میری پارٹی، میری مرضی? پھر اسی نظریۂ ضرورت کے تحت، کسی روز اُس خوش نام و خوش ادا حسینہ ایان علی کے ساتھ مل کے منی لانڈرنگ کی جگہ ہنی لانڈرنگ کی جا سکتی ہے۔
دوستو! یقین جانیں اس وقت مجھے اپنے شیخوپورہ کالج کے پروفیسر اور معتدل مزاج جماعتی شیخ ظفر اقبال بہت یاد آ رہے ہیں، جب زمانۂ طالب علمی میں طویل چھٹیوں پہ جاتے ہوئے، مَیں نے انھیں کالج لائبریری سے بانو قدسیہ کے راجا گدھ، اور پروین شاکر کی خوشبو، جاری کروا کے دینے کی فرمائش کی تو انھوں نے ساتھ مولانا مودودی کی تنقیحات، تھماتے ہوئے کہا تھا: ایک ٹکٹ میں دو مزے لینے میں کیا ہرج ہے؟ ، یہ حقیقت ہے ان مختلف ذائقوں کی کتابوں نے اپنے اپنے انداز میں واقعی بہت مزہ دیا تھا۔
اس مزے سے یاد آیا کہ جب کسی زمانے میں جنرل ضیا اور جماعت کی اسی نظریہ ضرورت، کے تحت سگائی ہوئی تو یا رلوگوں نے تصور ہی تصور میں نئی آنے والی فلموں کے نام بھی، مسیت میرے ویر دی?لوٹا تیرا، مصلّا میرا? اسلام آیا تم نہیں آئے? ناظم دا کھڑاک? کی طرز پر تراش لیے تھے۔ ایک زمانے میں نہ جانے کس زعم میں ہم شیخوپورہ میں اپنی کٹر جماعتی وِرک برادری، جماعت کے آخری حد تک خدمت گار اپنے سسر نور محمد اولکھ، اورینٹل کالج کے انتہائی محترم استاد ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی باتوں میں آ کے نظریۂ ضرورت، کو سرے سے بھلا بیٹھے۔ اسی وارفتگی میں ہم نے پی ایس ایف کی ساری رنگینیوں اور اپنے دوست شاہد عثمان کو چھوڑ کر اورینٹل کالج کے ناظم امیر عباس کے ساتھ مل کر تاریخ میں پہلی بار جمعیت کو جتوایا۔
اب سوچ رہے ہیں کہ ہم سے تو وہ شاہد عثمان ہی مستقل مزاج نکلا، جو ہارنے کے باوجود نظریۂ ضرورت، کا قائل نہ ہو سکا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حالات کی ستم ظریفی سے اُس کے گھر والوں نے منصورہ کے سامنے والی آبادی میں مکان خرید لیا۔ ہم نے ان کو چھیڑتے ہوئے کہا تھا:
" بچُّو! اب آیا ناں اونٹ پہاڑ کے نیچے! اب تو اپنے پتے میں مزے سے نزد منصورہ، لکھا کرو گے؟ "
تنک کر بولا:
" مَیں نے اس کا حل بھی ڈھونڈ لیا ہے اور اپنے نئے وزٹنگ کارڈ پہ مستقل طور پر اپوزٹ منصورہ، چھپوا لیا ہے!!!