شاہین عباس کا ایک خوبصورت شعر ہے:
موجۂ خون کی تحریر سے ڈر لگتا ہے
شِمر کو آج بھی شبیر سے ڈر لگتا ہے
حق و باطل کا معرکہ ہو یا نیکی بدی کی کشمکش، اس کا سلسلہ ازل سے جاری و ساری ہے اور قیامت تک اس کے خاتمے کے بظاہر کوئی امکانات نظر نہیں آتے کیونکہ اس زمین پر آدم ؑ کے ساتھ ابلیس بھی دندناتا ہوا چلا آیا تھا اور اس نے کسی مکروہ اپوزیشن کی طرح ہر اچھے کام میں ٹانگ اور مانگ اڑانا شروع کر دی تھی۔ اس کی کار گزاریوں کے سلسلے کا آغاز قابیل اور ہابیل کی آویزش ہی سے ہو گیا تھا۔ اسی طرح جب سے کائنات کی کوکھ میں روشنیوں کا علم بردار دن تخلیق ہوا ہے، اس کے ہمرا ہ اندھیروں کی ملکہ رات بھی وجود میں آ گئی تھی۔ ابلیس کی محنت اور دیے گئے دنیاوی لالچ کی وجہ سے رات کے عبادت گزار کم اور اندھیروں کے پجاری زیادہ پیدا ہوتے چلے گئے۔ اسی اصول کے بموجب جب زمین کی تخلیق عمل میں آئی، اس کے اوپر ایک آسمان بھی جما دیا گیا، جس سے کردار و اعمال میں اونچ نیچ کا تصور بھی تیزی سے واضح ہوتا چلا گیا۔ آج کی دنیا میں بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بعض لوگ اپنے کردار و اعمال کی بنا پر آسمانوں پہ چمکتے ستاروں کی مانند ہیں اور بعض اپنی حرص و ہوس کی کثرت کے سبب دھرتی پر بھی بوجھ ہیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ:
جسے صرف حق ہی قبول ہو، یہی جس کا اصلِ اصول ہو
جو نہ بِک سکے، جو نہ جھُک سکے، اسے کربلائیں ہی راس ہیں
پھر جہاں دنیا میں سچ، خلوص، ایثار کی برکتوں کا احساس جاگا، وہاں جھوٹ اور مکر و فریب کی رنگینیاں بھی آنکھیں چندھیانے لگیں۔ اس کائنات میں تضاد کے اسی فارمولے کے تحت بر سرِ عمل اشیا اور رویوں کی بابتیہ تو تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جتنی چیزیں روشنی، سچائی، خیر اور انسانی فلاح کی علامت ہیں، وہ خدائے برحق کی منشا اور عطا کردہ ہیں اور جتنے رنگ، ڈھنگ اور رویے شر، مایوسی، تخریب اور آزارِ آدمیت کے نمایندہ ہیں، وہ پیرویِ ابلیس کا نتیجہ ہیں۔ تاریخ اٹھا کے دیکھیں تو اچھائی برائی اور خیر و شرکی کشمکش ازل سے جاری ہے۔
ایک اہم بات یہ کہ اس دنیا میں جہاں مذہب سے ہٹ کے انسانیت کی خدمت جاری ہے، اس کے ساتھ ساتھ مذہب کے نام پہ شر پھیلانے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ہمارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان تو اتنی ارفع ہے کہ ان کے بارے سوچتے ہوئے بھی سوچ کو وضو کرانے کی ضرورت ہے۔ کسی کو ان کی درجہ بندی کی ٹھیکے داری بھی نہیں لینی چاہیے، مولانا ظفر علی خاں کا موقف ہی سو فیصد درست ہے کہ:
ہیں کرنیں ایک ہی مشعل کی بوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ و علیؓ
ہم مرتبہ ہیں یارانِ نبیؐ کچھ فرق نہیں ان چاروں میں
یہ حقیقت ہے کہ مذہب اور دین کسی منہ زبانی چیز کا نام نہیں بلکہ اس کا تعین اعمالِ خیر، سنتِ رسول اور احکامِ ربانی کی پیروی ہی سے ممکن ہے۔ سب جانتے ہیں کہ دین کی تکمیل کا اعلان ہمارے نبیِ معظم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر نہایت واضح الفاظ میں فرما دیا تھا۔ وہ دین، جس کے بھیجنے، لانے اور اس کا اعلان کرنے والے پہ ایک رتی کے برابر شائبہ رکھنے والا بھی ایمان سے خارج قرار پائے گا لیکن برِ صغیر میں اس دین کا جو حال ہم نے کیا، اس کی مختصر سی تصویر مولانا الطاف حسین حالی کے ان اشعار میں دیکھی جا سکتی ہے:
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
وہ دین کہ تھا شِرک سے عالَم کا نگہباں
اب اس کا نگہباں اگر ہے تو خدا ہے
عالِم ہے سو بے عقل ہے، جاہل ہے سو وحشی
مُنعم ہے سو مغرور ہے، مفلِس سو گدا ہے
آج دس محرم ہے، نواسۂ رسولؐ کا یومِ شہادت۔ اسی مناسبت سے جناب ارشد کی نظم "سرخرو لمحے" ملاحظہ کریں :
چراغ بجھنے کے بعد مَیں جس جگہ کھڑا ہوں
چراغ بجھنے سے پیشتر بھی یہیں کھڑا تھا
یہیں کھڑا تھا کہ میرے باطن میں شک کی کوئی گرہ نہیں ہے
درونِ خانۂ دل یقیں ہے کہ کوئی وہم و گماں نہیں ہے
یہ میرے پاؤں مِری بصارت، مِری بصیرت کے ترجماں ہیں
اسی لیے تو چراغ بجھنے سے پیشتر بھی یہیں کھڑا تھا
چراغ بجھنے کے بعد مَیں جس جگہ کھڑا ہوں
مَیں جانتا ہوں کہ ایک ساعت میں سارا منظر بدل گیا ہے
جو حرف تھا میری دسترس میں جو اِذن میری پناہ میں تھا
وہ مَیں نے خود ہی کسی کی جھولی میں دھر دیا ہے
کہ اپنے حصے کا جام مَیں نے لہو کی بوندوں سے بھر دیا ہے
آخر میں چلتے چلتے موجودہ دن کے حوالے سے راقم کا ایک احساس اس مختصر نظم کی صورت ملاحظہ کیجیے:
آنکھ میں رت جگے مدینے میں
دل میں کربل بپا ہے یادوں کی
خواب بغداد ہو گئے میرے
نقش برباد ہو گئے میرے
مَیں بھی کوفے سے ہو کے آیا ہوں
اپنا لاشہ اٹھا کے لایا ہوں