Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Khabristan, Se Qabristan Tak

Khabristan, Se Qabristan Tak

سنو حسن عظیم!25 نومبر کی شام تو کرونا کے دوسرے چھاپے سے پہلے پہلے چار سے سات میری ایم فل کی آخری آن کیمپس کلاس تھی۔ موضوع ایسا چھڑ گیا تھا کہ یہ سات کے بعد بھی ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی تھی۔ کلاس کے دوران فون سننا مجھے ہمیشہ زہر لگتا ہے لیکن اپنے خرم عباس کے فون میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی لطافت، کوئی نہ کوئی خوش خبری، کوئی نہ کوئی سنسنی چھپی ہوتی ہے، اس لیے مَیں اس کا فون سننے میں تأمل نہیں کرتا لیکن یار آج کا فون سننا تو مجھے بہت مہنگا پڑا۔ آج اس کا فون ہر طرح کی لطافت و دلبری سے عاری تھا، آج اس کی کال میں محض سنسنی ہی سنسنی ہی تھی۔ سنسنی بھی ایسی جو پلک جھپکتے میں سر سے پاؤں تک دوڑ جاتی ہے۔

حسن تمھیں یاد ہے جب آج سے چونتیس سال قبل ہم اعلیٰ تعلیم، کی خاطر شیخوپورہ سے ہاتھوں میں کپڑوں سے بھرے شاپر تھام کے اپنے اپنے گاؤں پہ آخری نظر ڈال کے مستانہ وار لاہور کو فتح کرنے نکلے تھے۔ اس وقت ہمارا حال بھی ماچس فلم کے ان دیوانوں کا سا تھا، سمپورن سنگھ گلزار کے الفاظ میں: چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں / جہاں تیرے پَیروں کے کنول کھِلا کرتے تھے/ ہنسے تو دو گالوں میں بھنور پڑا کرتے تھے/ تیری کمر کے بل پر ندی مُڑا کرتی تھی / ہنسی تیری سُن سُن کر فصل پکا کرتی تھی/ جہاں تیری ایڑی سے دھوپ اُڑا کرتی تھی? لاہور کے اورینٹل کالج میں ہم اکٹھے ہی ایم اے اُردو میں داخل ہوئے اور پھر وولنر ہاسٹل کے کمرہ نمبر 23 میں ایک ساتھ آباد ہوئے۔ اس کے بعد تو انارکلی کی دکانیں، ہوٹل، مال روڈ کی آوارہ گردی، بانو بازار کے پھیرے، چائے خانوں کی بحثیں، پورے لاہور کے سینما ہال اور سب سے بڑھ کے ہاسٹل کی جاگتی راتیں، سب ہمارے رحم و کرم پر ہوا کرتی تھیں۔ لاہور کا کون سا پارک ہے جہاں ہماری کلاس کے متوالوں نے فتح کے جھنڈے نہیں گاڑے؟ تمھاری تو سالگرہ تک شاہی قلعے میں منائی گئی۔

شروع شروع میں ہمیں شہر کی کچھ باتیں عجیب لگتی تھیں۔ ہوٹلوں میں دھڑا دھڑ بِکنے والا سُوپ ہمیں گاؤں میں چاولوں سے اتاری ہوئی پِچھ جیسا لگتا۔ یاد ہے پرانی انارکلی میں گوشہ نعمت، کے سامنے ریڑھی والے کے پاس کھڑے ہو کے پھانسی دیے گئے مرغوں کے غسلِ میت کے پانی کو مرغ یخنی، کے نام پہ سُڑکتے ایوب ندیم اور ناصر اقبال کو ہم کن نظروں سے دیکھا کرتے۔ ہمارے اندر کا پینڈو ابھی مرا نہیں تھا لیکن پھر شہر کے لوگوں میں رہتے رہتے ہماری "بو مر گئی"۔ سب سے پہلے شہر کا رنگ تمھارے اوپر چڑھا تھا، جینز جوگر تم پہ جچنے لگے تھے، ہلاکو خاں جیسی مونچھیں منڈوانے کے بعد کلین شیو نے تمھارے چہرے کو نکھار بخشا تھا۔ تم کلف دار اُردو میں انگریزی ملا کے بولتے تو سواد آ جاتا۔ آپس کی گفتگو میں عدیل تمھارے لہجے کو لکھنو کا بتاتا اور تم اسے ٹھیٹ دہلوی کہتے۔ یاد ہے چودھری سرفراز نے تم دونوں کی اس خود ستائی کو کُتے لاڈیاں، کا نام دے رکھا تھا۔ پھر یار تمھارے پاس گلوکاری کا جادو بھی تو تھا۔ تم سٹیج پہ آتے تو محفل جھوم جھوم جاتی۔ جگجیت سنگھ کی تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا، سے تم نے اپنی مدھر فتوحات کا آغاز کیا۔ چند ہی دنوں بعد شیزان میں ہونے والے ہیر خوانی کے کل پنجاب مقابلے سے پہلا انعام جیت لائے۔ اپنی فیئرویل پہ تو تم نے کشور کمار کا گیت زندگی کے سفر میں گزر جاتے ہیں جو مقام، وہ پھر نہیں آتے، سنا کے سب کو رُلا دیا تھا۔

مجھے تو4 نومبر 1989ء بھی کل ہی کی بات لگتی ہے جب ہم دونوں وولنر ہی سے فیدڑل گورنمنٹ کی لیکچرشپ کا پروانہ لے کے اکٹھے ہی نکلے تھے۔ مَیں ایف جی کالج سیالکوٹ کینٹ چلا گیا، تم گوجرانوالہ کینٹ سدھارے۔ کتنا خوبصورت تھا تمھارا کینٹ، اور کتنا پیارا تھا میرا سیالکوٹ! کہتے ہیں پہلی ملازمت بھی پہلی محبت کی طرح ہوتی ہے۔ ہم نے وہاں سے رَج کے محبتیں سمیٹیں۔ پھر مَیں اپنی ضروریات یا ترجیحات کا پیچھا کرتا کرتا کمالیہ، شیخوپورہ سے ہوتا ہواتا ایف سی یونیورسٹی آ گیا اور تم نے دارالحکومت کا انتخاب کیا۔ رابطے ضابطے کم ہونے لگے۔ ملاقاتوں کا سلسلہ خوشی غمی کی روایتی تقاریب تک محدود ہو گیا لیکن پھر بھی کبھی کبھار ہم خوف ناک دنیاوی مصروفیات پہ شب خون مار کے بے تکلفی کے کچھ لمحات کا خراج لے ہی لیا کرتے۔ گزشتہ دسمبر کی وہ رات کتنی مزے دار تھی، جب مَیں اوپن یونیورسٹی کے کسی وائیوا کے سلسلے میں یونیورسٹی کے گیسٹ روم میں مقیم تھا۔ رات کا کھانا ڈاکٹر ذوالفقار احسن کے ہمراہ تمھاری کسی پسندیدہ جگہ پہ کھایا۔ پھر ہم دونوں واپس آ کے رات تین بجے تک اپنے پسندیدہ موضوعات پہ مارو ماری کرتے رہے۔ دوستوں کو فون کر کر کے جلاتے رہے۔ پچھلے سال بیسواں گریڈ ملنے پر تم کتنا خوش تھے؟

یار ابھی تو تم دوستوں کو اس بات پہ قائل کرنے میں مصروف تھے کہ شیخوپورہ میں تمھاری زمینیں لاہور سے پینتیس منٹ کے فاصلے پر ہیں، مجھے تم ہمیشہ چونتیس منٹ بتاتے تھے، پرانے دوست تھے ناں! ایک منٹ کی رعایت کیا کرتے تھے!!! ریٹائرمنٹ کے بعد تم بچوں کو بحریہ میں سیٹل کر کے گاؤں لوٹنا چاہتے تھے اور اپنی ان زمینوں میں ایک ایسی کالونی بنانے والے تھے جس میں ماضی کے دوست، کلاس فیلوز ایک دوسرے سے متصل اپنے اپنے فارم ہاؤس بنائیں اور شام کو روز اکٹھے ہوا کریں۔ نام اس کالونی کا ہم نے خبرستان، سوچ رکھا تھا کہ وہاں کے ہر باسی کو ایک دوسرے کی پل پل کی خبر ہوا کرے گی۔ مگر یہ کیا! تم اتنی عجلت میں اسی گاؤں کی ایک بوسیدہ کالونی میں آ کے آباد ہو گئے؟

کبھی آ کے دیکھو تو سہی کہ تمھارے پیچھے بیوی بچوں اور دوستوں کا کیا حال ہے؟ قمر بودلہ پاک پتن میں دھاڑیں مار رہا ہے۔ امیر عباس جرمنی میں اشک فشاں ہے۔ اشرف بھائی اور قاضی محفوظ کشمیر میں پریشان ہیں۔ لاہور میں جمیل احمد عدیل، شاہد عثمان اور جاوید اکرام سر میں خاک ڈالے بیٹھے ہیں۔ زبیر ملک کو اسلام آباد میں چپ سی لگی ہے۔ ندیم افضل کے ساتھ لندن کے در و دیوار گریہ کناں ہیں۔ غزالہ اور ہما وائیں نیویارک کو اداس کیے بیٹھی ہیں۔ ممتاز نادر الخبرمیں اس خبر کا سوگ منا رہی ہیں۔ نائلہ بٹ، حمیرا ارشاد، طیبہ درانی، زاہدہ منظور، زاہدہ رضوی، روبی طارق، عنبرین عدیل، یاسمین، آسیہ کے کئی دن سے آنسو نہیں تھم رہے۔ ہماری دو کلاس فیلوز پیاری تحسینہ اور ہر دل عزیز ممتاز تم سے بھی پہلے سے جنت مکانی ہیں۔ اب تم بھی چلے گئے۔