Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Khushbu Wali Shaerah Ki Kahani

Khushbu Wali Shaerah Ki Kahani

یہ 1993ء کے اوئل کی بات ہے۔ شیزان لاہور میں جناب حفیظ تائب کے حوالے سے تقریب جاری تھی۔ مختصر سا ہال نامور ادیبوں سے لبالب تھا۔ مَیں دوسری قطار میں بیٹھا شرکا کی گفتگو سننے کے ساتھ ساتھ اپنی پہلی اور نئی چھپی کتاب "قلمی دشمنی" بعض احباب تک پہنچانے میں مصروف تھا۔ اسی تگ و دو میں ایک نسخہ مَیں نے اپنے آگے بیٹھے عطاء الحق قاسمی کی جانب بڑھایا تو انھوں نے کتاب اور مصنف کا نام دیکھ کے فوراً پلٹ کے پوچھا: پروین شاکر کا خاکہ آپ نے لکھا ہے؟ ، میرے اثبات پر انھوں نے خاکے کی بہت تعریف کی۔ یہ قاسمی صاحب سے میرا پہلا رابطہ تھا۔ قبل ازیں اپنے چند خاکوں ہی کے حوالے سے میرا جنابِ یوسفی، ممتاز مفتی اور انور مسعود سے نہ صرف تعارف ہو چکا تھا بلکہ ان تمام احباب نے مذکورہ کتاب کے فلیپ بھی تحریر فرمائے تھے۔ ممتاز مفتی سے تو جھاکا ایسا کھلا کہ ان سے خط وکتابت کا ایک طویل سلسلہ چلا۔"خوشبو والی شاعرہ" تو انھیں اتنا بھایا کہ میرے بعد جب انھوں نے پروین شاکر کا خاکہ "شہزادی" کے عنوان سے لکھا، جو اُن کی کتاب اَوکھے اوَلڑے، میں شامل ہے، تو اس میں میرے اسی خاکے سے کئی جملے میرے حوالے اور تعریف کے ساتھ شامل کیے۔

26 دسمبر کو پروین شاکر کی چھبیسویں برسی پر یہ باتیں یاد کرنے کا مقصد اس خوب صورت شاعرہ کو یاد کرنے کے ساتھ یہ بتانا بھی ہے کہ میری یہ تحریر اُردو خاکہ نویسی اور مزاح نگاری میں میرا پہلا باقاعدہ تعارفیہ تھا۔ آئیے آج اپنے ماضی کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ اس دل فریب اور بھرپور شاعرہ کو اسی خاکے کے چند اقتباسات کا خراج پیش کرتے ہیں:

"کہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل کو وقت سے پہلے بالغ کرنے میں تین چیزوں کا ہاتھ ہے: گرمی، غربت اور پروین شاکر، اور انھیں دیر تک جوان رکھنے میں صرف مؤخرالذکر کا?اس کی خوشبو، آج بھی نوجوانوں کے دل و دماغ میں اس قدر رچی بسی ہے کہ یہ خود کلامی، بھی کر رہی ہو تو لوگ سمجھتے ہیں، ہم کلامی کر رہی ہے۔ اس کی آخری کتاب کا نام اِنکار، ہے لیکن میرے دوست کا کہنا ہے کہ اس کتاب کے پیچھے چھپی تصویر دیکھ لیں تو وہ انکار بھی اقرار لگنے لگتا ہے۔ یہ پہلی شاعرہ ہے جس نے ادب سے روپیہ بھی کمایا ہے وگرنہ ہمارے ہاں تو بڑے نامی گرامی شعرا کی مالی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے مشرقی پنجاب میں نائیوں حجاموں کی۔

یہ پہلی عورت ہے جس نے خوبصورت شاعری کی ہے جبکہ حکیم جی کا کہنا ہے، یہ پہلی خوبصورت عورت ہے جس نے شاعری کی ہے۔ ہمارے ہاں بہت سی خواتین نے کل وقتی شادی کی خاطر جز وقتی شاعری کی قربانی دے دی، اس نے اُن کے الٹ کیا۔ ہماری پوری اُردو شاعری عورت کے گرد گھومتی ہے، پروین کی شاعری مرد کے گرد گھومتی ہے اور مرد اِس کے!! حضرتِ اقبال کو ہمیشہ یہ شکوہ رہا کہ ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس کے سر پر عورت سوار ہے، حالانکہ اقبال خود ایک عرصے تک محض ایک عدد پھول کے عطیہ سے فیضیاب ہونے پر باغ باغ ہوجایا کرتے تھے۔ وہ شاید یہ نہیں جانتے تھے کہ تخلیق کار مرد ہو تو اس کے ذہن پہ ایک وقت میں ایک عورت سوار ہوتی ہے لیکن تخلیق کار ہی بقلم خود عورت ہو تو وہ اکیلی ہر ایک کے اعصاب کیا سر پہ سوار ہو جاتی ہے۔ یہ تو ویسے بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ عورت گواہی میں آدھی، آگہی میں پوری، گہرائی میں دُگنی اور گمراہی میں کئی گُنا ہوتی ہے۔

اسے بنانے میں اللہ تعالیٰ اور احمد ندیم قاسمی کا خاصا ہاتھ ہے۔ اس کی شاعری سچے جذبوں اور جھوٹے مردوں پر محیط ہے۔ شکل و شہرت ایسی کہ خاموش بھی ہو تو بولتی ہوئی لگتی ہے۔ ٹی وی پر ہمیشہ بال اور دل کھول کے آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ شاعرہ کم، شاعری زیادہ نظر آتی ہے۔ اس نے عورت کو مرد کے ساتھ شانہ شبانہ، چلنے کا حوصلہ عطا کیا ہے اور نوجوان نسل میں اس قدر خود اعتمادی پیدا کر دی ہے کہ کل تک جو لڑکیاں ہر بات پہ وائی یا ناٹ کہتی تھیں، اب صرف وائی ناٹ، کہتی ہیں۔

سائنس اور ادب دو مختلف میدان ہیں۔ اس نے دو متضاد سِروں کو ملانے کے لیے ایک ڈاکٹر سے شادی کر لی۔ ایک طرف دل ہی دل تھا، دوسری جانب دماغ ہی دماغ? یہ عشق و محبت سے دوچار، وہ دو اور دو چار? تیل اور پانی کو یکجا کرنے کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُس مردِ دانا نے اِس کی شاعری میں مذکور تنوع کی اس خواہش کو مدِ نظر رکھا ہو:

یہ دل میسر و موجود سے بہلتا نہیں

کوئی تو ہو جو مِری دسترس سے باہر ہو

کون نہیں جانتا کہ اس دنیا میں غزل کی وجۂ آغاز عورت اور عورت کی وجۂ آغاز مرد ہے اور اب یہ ایک تیسرے کے لیے لازم و ملزوم بن چکے ہیں۔ اگر اُردو شاعری کی تاریخ پہ نظر ڈالیں تو مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین شاعرات کی بھی کمی نہیں مگر ان میں اکثر کے ہاں شاعرہ بولتی ہے تو عورت غائب ہو جاتی ہے اور عورت کی آواز سنائی دیتی ہے تو شاعرہ پس منظر میں چلی جاتی ہے? یہ پہلی خاتون شاعرہ ہے جس کے ہاں عورت اور شاعرہ قدم سے قدم ملا کر چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

اس کی رنگا رنگ شخصیت کو سمجھنے کیلئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ اگر عورت کی بجائے کوئی ڈیپارٹمنٹ ہوتی تو یقیناً فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ ہوتی۔ مارکیٹ ہوتی تو لبرٹی? جگہ ہوتی تو اعراف، جذبہ ہوتی تو اعتراف? دریا ہوتی تو چناب، حیثیت ہوتی تو جناب? روڈ ہوتی تو مال، داد ہوتی تو کمال? سیاست دان ہوتی تو بے نظیر، ثقافت ہوتی تو ہندی، نظام ہوتی تو جمہوریت? جسم کا کوئی عضو ہوتی تو دل? موسم ہوتی تو خزاں و بہار کا سنگم ہوتی? کوئی کیفیت ہوتی تو محبت ہوتی اور اگر انسانی زندگی کا کوئی لمحہ ہوتی تو قیامت ہوتی?"