گزشتہ دنوں پاکستانی فلموں کے باکمال کامیڈین منور ظریف کی برسی تھی? ایسا اچھوتا فن کار کہ جس کا انداز، اسلوب، ٹھاٹ کسی سے چرایا بھی نہیں جا سکا۔ ایسا گُنی کہ کامیڈین ہو کے ہیرو کی کاٹھی پہ بیٹھتا رہا۔ وہ ہماری ثقافت کا غالباً پہلا ہنسوڑ تھا، جس نے اس شعبے کو توقیر کی پگڈنڈی پہ گامزن کیا، وگرنہ جُگت پانی کے اس عمل کو بالعموم بھانڈ میراثیوں ہی کا کام سمجھا جاتا تھا۔ منور ظریف سے متعلق مجھے سب سے زیادہ اس بات نے حیران کیا کہ وہ محض چھتیس برس کی عمر میں دنیا سے چلا گیا۔ اس کے بعدحافظے میں ایسے متعدد لوگوں کی قطار سی بنتی چلی گئی جو نہایت عجلت میں پرلوک سدھار گئے لیکن اس مختصر سی مہلت میں قدموں کے ایسے ان مِٹ نقوش چھوڑ گئے کہ جن کے اوپر قدم رکھتے ہوئے بھی پاؤں مَن مَن کے ہو جاتے ہیں۔ ناصر کاظمی، ابنِ انشا، میرا جی، شکیب جلالی، پروین شاکر، ثروت حسین، جمال احسانی، سارا شگفتہ، اور سب سے بڑھ کے سعادت حسن منٹو!? جو ساڑھے بیالیس سال کی عمر میں پوری دنیا کو چونکا کے، اُردو ادب کی بنیادوں میں بھونچال بھر کے، اَن کہیوں کو کہیوں میں ڈھال کے چلتا بنا۔ وہ جانے کون سے میگا پِکسل آنکھوں میں بھر کے طوائف کے کوٹھے پہ جاتا کہ ان کے باطن کی اور روح کی تصویریں کھینچ کے لے آتا، آج اُسی منٹو کی ۱۰۹ ویں سالگرہ ہے۔
برِ صغیر میں گیارہ مئی کے حوالے سے دو ہی بڑے سانحے دکھائی دیتے ہیں: ایک ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی اور دوسرا منٹو?دونوں متنازع ہیں، دونوں آج تک گیلی لکڑیوں کی مانند سلگتے ہیں۔ جب منٹو کی شادی کی خبر گرم ہوئی تو احمد ندیم قاسمی نے ایسے ہی تفصیل پوچھ لی، جوابملاحظہ ہو:"میری شادی ابھی مکمل طور پر نہیں ہوئی۔ مَیں صرف نکاحیا، گیا ہوں۔ میری بیوی لاہور کے ایک کشمیری خاندان سے تعلق رکھتی ہے، اس کا باپ مر چکا ہے، میرا باپ بھی زندہ نہیں۔ وہ چشمہ لگاتی ہے، مَیں چشمہ لگاتا ہوں۔ وہ گیارہ مئی کو پیدا ہوئی، مَیں بھی گیارہ مئی کو پیدا ہوا تھا۔ اس کی ماں چشمہ لگاتی ہے، میری ماں بھی چشمہ لگاتی ہے۔ اس کے نام کا پہلا حرف S، ہے، میرے نام کا پہلا حرف بھی S، ہے۔ پہلے وہ پردہ نہیں کرتی تھی مگر جب سے اس پر میرا حق ہوا ہے، اس نے پردہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ (صرف مجھ سے!)"منٹو کوئی ایسامذہبی آدمی نہیں تھا لیکن لوگوں کو دین کی ماہیت سمجھانے کا انداز دیکھیے:
"شیطان بڑا گستاخ تھاکہ اس نے سیدھا خدا کو کہہ دیاکہ مَیں نہیں کرتا سجدہ اور مردود ہو گیا۔ خدا نے اختلافِ رائے پر شیطان کو مارا نہیں بلکہ مہلت دی کہ اپنے نظریے پر لوگوں کو قائل کر سکتا ہے تو کر لے، لیکن یہ خدا کو ماننے والے پتہ نہیں کس مٹی کے بنے ہیں؟ "لوگ آج تک سمجھنے سے قاصر ہیں کہ منٹو گستاخ تھا یا مہذب؟ ، بدتمیز تھا یا تہذیب کا پروردہ؟ فحش نویس تھا یانڈر؟ منھ پھٹ تھا یا سفّاک حقیقت نگار؟ منٹو اپنے عہد کا آئینہ تھا یا باغی؟ مریض تھا یا سرجن؟ تماشا تھا یا تماش بین؟ معاشرے کا خیر خواہ تھا یا دشمن؟ اُس کا ادب قابلِ مطالعہ ہے یا سوختنی؟ اسے سینت سنبھال کے رکھا جائے یا کچرے میں ڈال دیا جائے؟ اس کے افسانوں پہ رویا جائے، ہنسا جائے یا غور کیا جائے؟ دنیا نے منٹو کو کتابوں سے، نصابوں سے، حسابوں سے نکال کے دیکھ لیا لیکن دل سے نہیں نکالا جا سکا۔
منٹو کے بارے میں یہ ساری باتیں اس لیے ہو رہی ہیں کہ وہ ہمیشہ معاشرے کی دُکھتی رگ پہ ہاتھ رکھتا تھا۔ اخلاقیات کے ایسے ایسے خس خانوں میں بھَڑ بھَڑ جلتی تِیلی پھینکتا تھا، جن کے اوپر "ممنوعہ علاقہ" کی تختی لگی ہوتی تھی۔ ایسے گڑے مُردے اکھاڑتا تھا کہ جن کو ہم کب کے "ناگفتہ بہ" کے قبرستان میں دفنا چکے ہیں۔ وہ ہمیشہ وَکھی سے سچ بولتا تھا، کُچھڑ بہہ کے داڑھی مونڈتا تھا۔ اس کے تو خاکوں کے مجموعے کا نام بھی "گنجے فرشتے" ہے۔ وہ اپنی حقیقت بیانی کو عریانی پر محمول کرنے والوں کی عقل پر افسوس کرتا۔ اُس کے نزدیک ہماری یہ نام نہاد اخلاقیات تو ایک زنگ ہے جو سماج کے اُسترے پر بے احتیاطی کی بنا پر جم گیا ہے۔ مجھے یاد ہے ہمارے دیہات میں اگر کوئی شریر بچہ یا تیکھا نوجوان اپنی عمر یا اوقات سے بڑی بات کر دیتا تو مر جانا، ٹُٹ پَینا، نہ رہنا، جیسی گالیاں تو بڑی بوڑھیوں کی ناک پہ دھری رہتی تھیں ?اُردو نظم کے بے پناہ شاعر مجید امجد نے منٹو کی آتش بیانی اور دریدہ دہنی کی بنا پر ہی کہا تھا:
"کون ہے یہ گستاخ؟
مَیں نے اس کو دیکھا ہے/ اُجلی اُجلی سڑکوں پر اک درد بھری حیرانی میں / پھیلتی بھِیڑ کے اوندھے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں / جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے/ دنیا تیرا حُسن یہی بد صورتی ہے!/ دنیا اس کو گھورتی ہے/ شورِ سلاسل بن کر گونجنے لگتا ہے/ انگاروں بھری آنکھوں میں یہ تُند سوال/ کون ہے یہ جس نے اپنی/ بہکی بہکی سانسوں کا جال/ بامِ زماں پر پھینکا ہے/ کون ہے جو بَل کھاتے/ ضمیروں کے پُر پیچ دھندلکوں میں / روحوں کے عفریت کدوں کے زہر اندوز محلکوں میں / لے آیا ہے، یوں بِن پوچھے/ اپنے آپ، عینک کے برفیلے شیشوں سے/ چھَنتی نظروں کی چاپ/ کون ہے یہ گستاخ؟ ؟ "
لالہ بسمل ہمارا ایسا دوست ہے، جو جلتی پہ تیل ڈالنے کے لیے پیسے اپنی جیب سے خرچ کرنے کو بھی عین ثواب سمجھتا ہے۔ ہر متنازع معاملے میں ٹانگ اڑانا اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ منٹو دشمنی کی رِیت چلی تو اس نے بھی اپنا حصہ ڈالنے سے گریز نہیں کیا، لکھتے ہیں:
منھ سے بہتی جھاگ ہے منٹو
تن میں لگی اک آگ ہے منٹو
جس کا ڈسا نہ پانی مانگے
ایسا پھنئر ناگ ہے منٹو
نظروں سے شعلے برسائےکیسا
دیپک راگ ہے منٹو
فکشن کی منڈیر پہ بیٹھا
کاں کاں کرتا کاگ ہے منٹ
ومنٹو کی عمرِ عزیز نے واقعی وفا نہیں کی لیکن ہمارے آج کے شاعر عمر عزیز نے اپنی نظم "وگرنہ مارنا پڑتا"میں اس کی موت کا جواز ضرور پیش کر دیا، ملاحظہ فرمائیں:
"چلو اچھا ہوا خود موت اپنی مر گیا منٹو / خدا کی ہم سری کرتا تھا/ کہتا تھا/ معاذ اللہ/ خدا بھی اک کہانی کار ہے/ افسانہ گو ہے/ اور یہ بھی سوچتا تھا وہ/ کہ دونوں میں سے بہتر کون ہے/ توبہ!/ خدا کی مار ہو اس پر/ کہ کوئی شرم ہوتی ہے/ حیا ہوتی ہے/ کیا کیا فحش لکھتا تھا وہ افسانے/ فقط جنسی ہوس کے گرد/ اس کی ہر کہانی تھی/ یہ" ٹھنڈا گوشت" اور "بلاؤز"/ بھلا پڑھنے کی چیزیں ہیں؟ / یہ باتیں کالی شلواروں، کی لکھنا/ "کھول دو" جیسے نہایت لغو، منفی/ اور "ہتک" آمیز موضوعات/ ارے عورت کبھی تانگہ چلاتی ہے؟ / اک اسلامی ریاست میں / یہ کس کلچر کو لے آیا؟ / ہمارا تو نہیں ہر گز/ یہ" ٹوبہ ٹیک سنگھ" آخر/ ہے کیسا تبصرہ تقسیم کے بارے؟ / مرض کیا تھا؟ / اسے ہر شے سے گندی" بُو" ہی آتی تھی/ بہت اچھا کیا بجلی کے جھٹکوں سے/ اسے داغا/ جگر چھلنی کیا سستی شرابوں نے/ لہو کی اُلٹیاں کرتا/ چلو اچھا ہے خود ہی مر گیا سالا/ وگرنہ مارنا پڑتا!!!"