Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Mazeed Iqbaliyat (1)

Mazeed Iqbaliyat (1)

انیسویں صدی کے رُبعِ آخر میں پنجاب کے قصبے سیالکوٹ کے ایک لوئر مڈل گھرانے کے نیم خواندہ اور معمولی سے تاجر شیخ نور محمد اور سیدھی سادھی گھریلو خاتون امام بی بی کے ہاں پیدا ہونے کے بعد معمول کی تعلیم حاصل کرتے، محلّے کے عام بچوں کی طرح کبوتر اڑاتے، کنچے کھیلتے، اَدرڑھکا پیتے، تہمد باندھتے، کچی عمر میں قریبی عزیزہ کریم بی بی سے شادی کے لیے والدینی خواہش کے آگے سرِ تسلیم خم کرتے، مناسب سے نمبروں کے ساتھ میٹرک کر کے اپنی ہزاروں خواہشیں اور خاندان کی ڈھیروں امیدیں سینے میں سمائے اعلیٰ تعلیم کی غرض سے لاہور آنے اورپٹے ہوئے روایتی انداز میں پسماندہ سی ڈویژن کے ساتھ ایم اے کا امتحان پاس کرنے والے محمد اقبال کی خوش قسمتی، یا اُن پر قدرت کی نوازش ملاحظہ ہو کہ دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں میں شاعرِ مشرق، دانائے راز، حکیم الامت، مفکرِ پاکستان اور قومی و مِلّی شاعر کے ساتھ ساتھ "سَر" کے درجے پر بھی فائز ہوتے چلے گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال ایک عظیم شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا کا سب سے بڑا مفکر و مبلغ بھی ہے۔ باقی شاعروں میں کوئی رومانی ہوتا ہے، کوئی اصلاحی، کوئی اخلاقی تو کوئی انقلابی، کوئی ترقی پسند تو کوئی ماضی پرست۔ اقبال کے ہاں یہ سارے رنگ، رویے بدرجہ اتم موجود ہونے کے ساتھ ان کی شاعری آفاقیت سے بھی مملو ہے۔

یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ آج اقبال کی وفات کو تراسی برس اور پیدائش کو ایک سو چوالیس سال ہو گئے لیکن ہم آج تک لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، کو بچوں کی نظم سمجھ کے پسماندہ علاقوں کے پرائمری سکولوں کے بچوں تک محدود کیے ہوئے ہیں۔ ماسٹر نے اپنے رَٹا سَٹا نصاب کی مانند بچوں کو اس نظم کا بھی اتنا گاڑھا رٹّا لگوایا کہ وہ زبان سے ذہن تک کا سفر نہ طے کر پائی۔ وہ ہمیں امتحان پاس کرنے کے لیے بے وقعت نظموں کی تشریح کراتے رہے لیکن قومی ترانے اور اس نظم کو بند دماغوں کے ساتھ گا کے پڑھنے کی چیز سمجھے رکھا۔ ذرا سی بصیرت سے بھی کام لیتے تو:

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

والے مصرع کی تفہیم سے بچے کے تعلیمی سفر کا آغاز کرتے بلکہ اسے فریم کرا کے ہر کلاس روم میں آویزاں کرتے بلکہ قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران سے انگریزی یا اُردو کے بے برکت جملوں میں حلف لینے کی بجائے اس مصرع کو نصب العین بنایا جاتا۔ یہاں تک کہ اسی ایک لائن کو بڑے فخر اور امید کے ساتھ پوری قوم اور ملک کا ماٹو قرار دیا جا سکتا تھا۔

دُور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے

کو شیشے میں جڑا کے ہر عدالت، ہر دفتر، ہر محکمے کے وزیر اور ہر بیوروکریٹ کی گھماؤ کرسی کی سامنے والی دیوار پہ نمایاں کر کے لٹکایا جاتا اور اس کا فہم یا احترام نہ رکھنے والے کو نوشتۂ دیوار بنا دیا جاتا۔ ماتحتوں کی جعلی سالانہ رپورٹیں، جنھیں افسروں کا سالانہ انتقام بھی کہا جاتا ہے، لکھنے کی بجائے انھیں اسی مصرعے کی روشنی میں پرکھا جاتا۔ اسی طرح:

ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے

کا تعویذ بنوا کے نہ صرف بجلی سپلائی اور زندگی کی دیگر سہولتیں مہیا کرنے پر با معاوضہ متعین ہر بڑے افسر کے ساتھ ساتھ ہر استاد اور ہر ڈاکٹرکے گلے میں مزید تاکید اور اچھی نوید کی امید کے ساتھ ڈالا جاتا بلکہ اپنے پورے تعلیمی نظام کو اسی مصرع میں پوشیدہ خوب صورت عزم کی روشنی میں ترتیب دیا جاتا۔

ہو مِرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت

جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

والا شعر پاکستانی فوج اور پولیس کے ہر جوان کا طرہ امتیاز قرار پاتا۔ ممکن ہوتا تو اُن کے سینوں پہ بائیں جانب اس عبارت کا بَیج بنوا کے لگایا جاتا۔ اسی طرح ہر سرکاری ملازم، ہر طالب علم نہ صرف اپنے عمل اور کردار سے ثابت کرتا کہ:

زندگی ہو مِری پروانے کی صورت یا رب!

علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب!

بلکہ اسی مشن کو ذہن میں بٹھا کے ترقی کا سفر جاری رکھتا، کیونکہ اقبال واہ کا نہیں نبھاہ کا شاعر ہے۔ بعینہٖ ہر تاجر، ہر آجر کو باور کرایا جاتا، سمجھایا جاتا کہ وہ اس شعر کو پلے سے باندھ لے:

ہو مِرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

درد مندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا

اسی طرح اس نظم کے آخری شعر کو پوری قوم کا نصب العین قرار دیا جا سکتا تھا۔ لیکن افسوس کہ ہم نے آج تک یہ تک سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ اقبال کی نظم مکڑا اور مکھی، محض دو کیڑوں کی داستان نہیں بلکہ اس میں ظالم اور مظلوم کا پورا فلسفہ بیان کر دیا گیا ہے۔ اقبال نے ان نظموں کو بچوں کے ساتھ اس لیے منسوب کیا کہ یہ باتیں اگر ابتدائی عمر میں بچوں کے ذہن میں بٹھا دی جائیں تو ان کا آگے کا سفر کامیاب زندگی کی طرف گامزن ہو جائے گا لیکن ہم نے تو ان کو محض بچپنے کی باتیں سمجھ کے پسِ پُشت ڈال دیا۔ اقبال نے قرآن کے فلسفے کو آسان بنا کے ہمارے سامنے پیش کیا، ہم نے اس کو بھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ہم خوراک تو اچھی سے اچھی کھائیں لیکن وہ جزوِ بدن نہ بننے پائے۔

اقبال کو تمام عمر اُمتِ مسلمہ سے شکوہ رہا کہ انھوں نے قرآن جیسی تا ابد زندہ رہنے اور ہدایت و کامرانی بخشنے والی کتاب کو زبانِ غیر قرار دے کر سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ اتنی بڑی کتاب کو محض ثواب کی نیت سے رٹا لگائے جا رہے ہیں۔ چند سال قبل مَیں نے رمضان المبارک کے اعتکاف کے دوران قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے کا آغاز کیا تو سورہ التکاثر کی آیات پڑھ کے گھِگھی بندھ گئی:

۱۔ ہلاک کر دیا تجھے کثرت کی خواہش نے!

۲۔ یہاں تک کہ تم نے قبروں کو دیکھ لیا!

۳۔ تم سے ایک ایک نعمت کا حساب لیا جائے گا۔

(جاری)