خاکوں اور مزاحیہ مضامین پر مشتمل میری پہلی کتاب "قلمی دشمنی" کی اشاعت و طباعت میں جناب ممتاز مفتی کی بھرپور معاونت شامل تھی۔ جب ہمارے دوست شاہد عثمان کے بے پناہ اصرار پر کتاب کی تقریبِ رونمائی کی بات چلی تو دوستوں کی مشاورت سے صدارت کا قرعہ بھی مفتی جی کے نام پڑا، ان سے رابطہ کیا تو جواب آیاکہ مجھ نوے سال کے بوڑھے کو مت گھسیٹو!? اشفاق احمد کی تجویز دی تو کہا بالکل نہیں! پھر اگلے خط میں خود ہی لکھا:
" لاہور میں میری دو مائیں ہیں: ۱۔ بانو، ۲۔ پروین?دونوں کے نام خط بھجوا دوں گا۔ بانو صدارت کرے گی، پروین عاطف اور نیلم جلسہ کامیاب بنانے کے لیے کوشش کریں گی۔ بانو قدسیہ کی صدارت میں یہ تقریب مارچ ۱۹۹۳ء کو شیزان لاہور میں ہوئی، جس کی روداد پھر کبھی سہی۔۔۔ اس تقریب کی خاص بات میرے لیے یہ ہوئی کہ اس نے مجھے ایک بڑی ادیبہ پروین عاطف سے ملا دیا، جی ہاں احمد بشیر کی بہن اور بریگیڈیئر عاطف کی بیوی، گوشہ نشینی میں رہیں لیکن باکمال افسانے اور ناول تحریر کیے، ہماری سیاسی اور معاشرتی زندگی سے لبالب فکشن۔ پاکستانی سیاست پر گہری نظر تھی، بھٹو سے خاص طور پر متاثر تھیں۔ جب مشرقی پاکستان میں ترانوے ہزار جنگی قیدی بنے، جن میں بریگیڈیئر عاطف بھی تھے تو بھٹو کی تجویز پر قیدیوں کی رہائی کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھانے کے لیے جن چند خواتین پر مشتمل وفد باہر بھیجا گیا، یہ ان میں بھی شامل تھیں۔ گزشتہ دنوں ان کا سوانحی ناول شبِ رفتہ، پڑھنے کا اتفاق ہوا، جس میں ان کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تاریخ پر بھی گہری نظر ڈالی گئی ہے۔ آئیے آج اس میں ملکی تاریخ اور بالخصوص ان کے سیاسی ہیرو بھٹوکو انھی کی نظر سے دیکھتے ہیں:
"مفاد پرست سیاسی وڈیروں، سرداروں اور ملاؤں نے تو ایوب کے آتے ہی اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے ذہین و فطین پڑھے لکھے انسان نے بھی ایوب کیبنٹ کا اہم حصہ بننے کا فیصلہ کر لیا تھا اور مشرقی پاکستان کے حقوق غصب کرنے کی پالیسی پر بھٹو بھی ایوب کے ساتھ ہی شامل تھا (۶۹) ? افسوس کہ مندرجہ بالا الیکشن کے وقت ذوالفقار جیسے ذہین و فطین سیاسی لیڈر اور باکردار صوفی منش ادیب اور بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب، جنرل ایوب کے معتمد مشیران میں سے تھے اور فاطمہ جناح کی شکست میں دونوں برابر کے شریک (۸۵) زیادہ تر داخلی اور خارجی پالیسیاں تو واشنگٹن کی مرضی کے مطابق ہی طے کی جاتی تھیں لیکن بھٹو اور ایوب اپنے راج کی طوالت کی خاطر آپس میں کیا کھچڑی پکاتے تھے، وہ اندر والی کچن کیبنٹ کے علاوہ کوئی نہ جانتا تھا۔ نیم خواندہ قوم کو تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ سرسبز و شاداب زراعت سے پھلتے پھولتے پنجاب کے دریاہندوستان کو کیوں بیچ دیے گئے؟ (۹۱) محبِ وطن اور انقلاب کا داعی وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو، اُس دور میں جنرل ایوب کی آنکھ کا تارا تھا، وہ اس کا معتمد مشیر تھا۔ (۹۵)نوجوان ذوالفقار علی بھٹو ایک اقتدار پسند پارہ صفت انسان تھا۔ اپنی بین الاقوامی شناخت اور پاکستان پر راج کرنے کی خاطر وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔ (۱۲۴)
جدید خیالات کا مالک ذہین ذوالفقار علی بھٹو قوم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی خاطر کوئی نہ کوئی بارود کا ایسا انار سلگاتا تھا کہ اس میں کل ارض و سما جھلس جائیں۔ جنرل ایوب کا جینئس، بھٹو کے سامنے ایک کھڑے پانی کا چوبچہ تھا۔ بھٹو کی شخصیت بھی کچھ کچھ بائی پولر ذہن کے مالک لوگوں جیسی تھی، وہ جن ساتھیوں سے محبت کرتا تھا، انھی سے نفرت کرتا تھا۔ مولوی سے خوف زدہ تھا، پھر بھی اس کے ساتھ اس نےLove Hateکا رشتہ قائم کیا تھا۔ (۱۶۷) ایوب کے بعد والے بغیر دھاندلی الیکشنوں میں مشرقی پاکستان میں باغیوں یا تحریک آزادی کے جیالوں کا لیڈر مجیب الرحمن اکثریت سے جیتا تھا۔ مغربی پاکستان میں ماؤں بہنوں، دانشوروں، مزدوروں، طالب علموں کے نعرے لگانے والی پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے الیکشن جیت چکی تھی۔ جمہوری اصول کے مطابق، زیادہ سیٹیں جیتنے والے مجیب الرحمن کو سارے پاکستان کا پرائم منسٹر ہونا چاہیے تھا لیکن ہر دل عزیز ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار پسند دل کو یہ فارمولا اچھا نہ لگتا تھا۔ جنرل یحیٰ کی فوجی سوچ تو اندر سے جمہوریت کی قائل نہ تھی لیکن ذوالفقار علی بھٹو جو حالات کے مطابق اپوزیشن لیڈر بن سکتا تھا، اسمبلی بننے نہیں دیتا تھا۔ (۲۰۰) مجھے گھر پہنچے ابھی دو ہی گھنٹے ہوئے ہوں گے، جب وزیرِ اعظم ہاؤس سے فون آ گیا کہ آج رات آپ وزیرِ اعظم کے ساتھ کھانا کھائیں گی۔ تب تک مجھے بھٹو قوم کا مسیحا دِکھتا تھا۔ روشنی کا مینار۔ مَیں بھاگ بھاگ کر تیار ہوئی اور کار پکڑ کر پنڈی روانہ ہو گئی۔ مَیں اپنے آئیڈیل لیڈر کے ساتھ کھانا کھاؤں گی، یقین نہیں آ رہا تھا۔ بھٹو نے اپنے تمام مہمانوں کے سامنے وفد کو بھرپور شاباش دی تھی۔ بیگم بھٹو ان کے ساتھ جی بھر گپ شپ کرتی رہی تھی۔ پیپلز پارٹی نے سیاست میں آنے کی دعوت بھی دے دی، مَیں نے معذرت کر لی کیونکہ پارٹی میں سامراج زدہ وڈیرا خواتین کی بھرمار ہو چکی تھی۔ اس شام کھانے پر مصطفی کھر اور حفیظ پیرزادہ بھی موجود تھے، مَیں ان سب کو ایک نظریاتی اور مخلص گروہ مانتی تھی لیکن افسوس ان سب کے اصل چہرے کچھ اور تھے۔ (۲۱۴)
قائدِ اعظم کے بعد وہ پہلا لیڈر تھا جس کی باتوں کو لوگ مانتے تھے۔ حالانکہ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ اس کے عوام سے کیے گئے بہت سے وعدے ایک ملمع تھا، دل بہلاوے تھے۔ عوام کے ماضی، مستقبل میں تِل بھر کا فرق نہ پڑا تھا۔ جھوٹ موٹ کی عزتِ نفس کی بحالی ہوئی تھی، وہ بھی محض کچھ دیر کے لیے۔ وہ خواہشات اور اقتدار کی بھٹی میں جلتا تھا۔ اپنی خواہشات کے سامنے اس کی آنکھیں چندھیا جاتی تھیں، بھٹو کی زندگی کے بہت سارے فیصلے جذباتیت پر مبنی تھے وہ جرنیلوں کی سپر پاور اور سیاست میں مداخلت کم کرنا چاہتا تھا، وہ ملک میں مستقل جمہوریت کی داغ بیل ڈالنا چاہتا تھا، وہ طاقت ور اور مقبولِ عام جرنیلوں سے ڈرتا تھا۔ وہ خوشامد پسند اور مغرور بھی تھا۔ نیا کمانڈر اِن چیف چننے کا وقت آیا تو اس نے انتہائی خوشامدی اور محنتی جرنیل ضیا الحق کو کمانڈر اِن چیف کی ٹوپی پہنا دی۔ وہ کٹر مذہبی احساسِ کمتری کا مارا ہوا رجعت پسند اور کرسی کا رسیا جرنیل تھا، بھٹو کی آب و تاب سے خوف زدہ۔ بھٹو نے ضیا کو ایک معمولی جرنیل کے طور پر اپنے لیے چنا تھا، تاکہ اسے فوج کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ وہ یہ نہیں جان سکا تھا کہ آنے والے کل میں وہ پینٹا گون کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہو جائے گا ? (۲۲۰)
"اپنی تقاریر میں اس سندھی لیڈر نے زمین میں سورج اگانا شروع کر دیے?سب کچھ چھوڑ چھاڑ جلدی جلدی واپس پہنچے تو امید کی ساری چیج بہوٹیاں اپنے رنگ بدل چکی تھیں۔ نہ کہیں کوئی دولھا تھا، نہ شادیانوں کی آواز، لُولے لُنجے مایوس ہجوم بے سمتی میں رواں تھے? غریب اپنی گندی متعفن گلیوں اور کچے کوٹھوں میں ان جھوٹ سچ کے رانگلے کبوتروں کو چھپ چھپ کر چوگا ڈال رہے تھے، جو ان کے لیڈر نے اپنی بغل سے نکال کر انھیں دکھائے تھے۔"