احمد شاہ پطرس بخاری ساٹھ سال کی عمر میں دنیا سے چلے گئے۔ اب انھیں گئے ہوئے بھی باسٹھ سال ہو گئے لیکن نثری مزاح کی دنیا میں ایک لمحے کے لیے بھی ان کو دوسرے نمبر پر نہیں سوچا گیا۔ اس خوشگوار طلسماتی دنیا میں فرحت اللہ بیگ اور رشید احمد صدیقی نے اپنا اپنا اسلوب اپنایا۔ شوکت تھانوی اور عظیم بیگ چغتائی نے ہلچل مچائی۔ ایک زمانے میں منٹو نے قدم جمانے کی کوشش کی۔ شفیق الرحمن نے ایک عالم کو ہنسایا۔ محمد خالد اختر نے بڑے بڑوں کی توجہ حاصل کی۔ مشتاق احمد یوسفی کا دھماکے دار ورُود ہوا۔ ابنِ انشاکی بے ساختگی نے داد پائی۔ ضمیر جعفری نے قہقہے کاشت کیے، کرنل محمد خاں نے شگفتہ سفرنامے میں آپ بیتی ملا کے اس نشے کو دو آتشہ کرنے کی کوشش کی۔ عطاء الحق قاسمی نے کالم کی دنیا کو زعفرانِ زار کیا، صدیق سالک اپنی سی کر گزرے۔ اُدھر بارڈر پار یوسف ناظم، دلیپ سنگھ، فکر تونسوی، کنھیا لال کپور اور مجتبیٰ حسین نے اپنا اپنا رنگ جمایا لیکن دوستو:
نہ ہوا، پر نہ ہوا پیر، کا انداز نصیب!!
اس میں کوئی شک نہیں کہ اُردو میں نثری و شعری مزاح کا ایک ساتھ آغاز جعفر زٹلی کے ذریعے ہوا لیکن۱۷۱۳ء میں ایک جابر سلطان (فرخ سیئر) کے سامنے شریر پیروڈی کی صورت کلمۂ حق کہنے کی پاداش میں اس کے سفاکانہ قتل کے بعد تو لگتا ہے، برصغیر کی زندگی سے ہنسی اور قہقہہ کے پکھیرو کسی ان دیکھی دنیا کی جانب پرواز کر گئے۔ کہیں ڈیڑھ سو سال بعد مولانا حالی کے حیوانِ ظریف، میرزا اسداللہ خاں غالب نے اس خوف ناک فضا میں مسکراہٹوں کا بیج بونے کی جرأت کی لیکن اس سے نمو پانے والی کلیاں بھی ماحول کی سوگواریت سے جھلسی ہوئی ہیں۔ ان کلیوں کو گلاب بننے کے لیے پطرس جیسے ماہر فن کار کا انتظار کرنا پڑا۔ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ چمن میں دیدہ ور ہی نہیں اچھا مزاح نگار بھی بڑی مشکل سے پیدا ہوتا ہے۔
پطرس بخاری کے آباؤ اجداد کسی زمانے میں بخارا سے کشمیر آ کر آباد ہوئے، پھر کشمیر سے پشاور منتقل ہوئے۔ ان کے دادا کا نام سید غلام حسین اور والد سید اسداللہ بخاری تھے، جو پشاور کے ایک معروف وکیل خواجہ کمال الدین کے منشی تھے اور فرصت کے اوقات میں محلے کے بچوں کو قرآن و حدیث کا درس دینے کے ساتھ ساتھ شیخ سعدی کی گلستان، اور بوستان، بھی پڑھاتے تھے۔ پطرس، پشاور کے محلہ جہانگیر پورہ میں یکم اکتوبر ۱۸۹۸ء کو پیدا ہوئے۔ گھر والوں نے خاندانی روایات کے مطابق احمد شاہ نام رکھا، جسے انھوں نے مشن سکول پشاور کے انگریزی کے استاد پیٹرز کی محبت میں پطرس، کر لیا، یہ پیٹرز کا فرانسیسی تلفظ بھی ہے۔ دنیائے ادب میں وہ اسی نام سے معروف ہوئے۔ گھر کی سخت تربیت کی بنا پر طبیعت میں بغاوت کا عنصر بچپن ہی میں شامل ہو گیا۔ اور وہ اکثر گھر سے بھاگنے کے خواب دیکھا کرتے بلکہ کئی بار عملی کوشش بھی کی لیکن ہر بار پکڑے آئے۔ آخری بار جو دوڑ انھوں نے لاہور کی طرف لگائی، اس میں ایسے کامیاب ہوئے کہ آج تک پکڑائی نہیں دیے۔
جہاں تک ان کی تعلیم کا معاملہ ہے، ناظرہ قرآن اور فارسی عربی گھر میں پڑھی۔ نو سال کی عمر میں مشن سکول پشاور میں داخل کروایا گیا اور یہی سکول ان کی زندگی کا ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوا۔ انگریزوں کے لہجے میں انگریزی بولنے کا شوق بھی یہیں سے پروان چڑھنا شروع ہوا۔ ۱۹۱۳ء میں میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں کے ساتھ پاس کیا تو پطرس کی خواہش، اساتذہ کی مشاورت، احباب کی دور اندیشی اور والدین کی رضامندی سے لاہور سدھارے، یعنی ۱۹۱۴ء میں انھیں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل کروا دیا گیا۔ یہی کالج ہے جہاں سے پشاور کا احمد شاہ صحیح معنوں میں اُردو ادب کا پطرس بخاری بن گیا۔ یہاں سے انھوں ۱۹۱۶ء میں انٹرمیڈیٹ، ۱۹۲۰ء میں گریجویشن اور ۱۹۲۲ء میں طلائی تمغے کے ساتھ ایم اے انگریزی کا امتحان پاس کیا۔ جی سی میں وہ راوی، کے مدیر بھی رہے۔ گریجویشن کے بعد اپنے ممکنہ خسر کی خواہش پر ایم ایس سی طبیعات میں داخلہ لیا لیکن جلد ہی ارادہ بدل کر انگریزی کی طرف آ گئے۔ یوں مزاج کے مطابق تعلیم اور لٹریچر کے وسیع مطالعے نے آل انڈیا ریڈیو کو ایک کامیاب براڈ کاسٹر اور اُردو ادب کو بے پناہ ادیب سے سرفراز کیا۔
جہاں تک ان کی ملازمتوں کا تعلق ہے، ۱۹۲۲ء ہی میں انھیں انگریزی لیکچرار کی ملازمت مل گئی۔ ملازمت کے دوران ہی ۲۶۔ ۱۹۲۵ء میں وہ کیمبرج کے ایمانوئل کالج سے انگریزی ادبیات کی اعلیٰ ترین سند لے آئے۔ ۱۹۳۶ء میں انڈین ریڈیو کے کنٹرولر جناب فیلڈن کی خواہش پر انھوں نے بطور ڈپٹی ڈائریکٹر ریڈیو جوائن کر لیا۔ اس شعبے میں آتے ہی انھوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس ادارے کا نام انڈین براڈکاسٹنگ سروس (IBC) سے تبدیل کر کے آل انڈیا ریڈیو (AIR) رکھ دیا۔ ریڈیو کے حوالے سے اس نام کی معنویت اور خوبصورتی کو سب نے سراہا۔ ۱۹۴۰ء میں وہ آل انڈیا ریڈیو کے کنٹرولر بنے اور ۱۹۴۳ء میں ڈائریکٹر جنرل ہو گئے۔ ایک زمانے میں وہاں ہندو لابی سے اختلافات پیدا ہوگئے، جس کی بنا پر انھوں نے یکم مارچ ۱۹۴۷ء کو واپس جی سی آ کر بطور پرنسپل جوائن کر لیا۔ ۱۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو انھیں ریڈیو فریکوئنسی کی تقسیم کے سلسلے میں ہونے والی پہلی کانفرنس میں ریڈیو کے وفد کا سربراہ بنا کر میکسیکو بھیجا گیا، جو اپریل ۱۹۴۸ء تک جاری رہی۔ اس زمانے میں انھوں نے اپنی اس نوزائیدہ مملکت پاکستان کو بڑے اچھے انداز سے متعارف کرایا۔ یکم اگست ۱۹۴۹ء کو وہ یو این او میں پاکستان کے نمایندہ بن کر گئے، جہاں ان کی تقریروں کی آج تک دھوم ہے۔ ۳۰ نومبر ۱۹۵۴ء کو ان کی اس ملازمت کی معیاد ختم ہو ئی تو اقوامِ متحدہ کی طرف سے ایک نئی اسامی قائم کر کے ان کا بطور انڈر سیکرٹری، انچارج پبلک سروس انفرمیشن تقرر کر دیا گیا۔ ۱۹۵۵ء میں انھوں نے سیکرٹری جنرل یو این او کے ہمراہ چین کا اہم دورہ کیا۔ کام کے دباؤ کی وجہ سے صحت خراب رہنے لگی۔ چنانچہ ۵ دسمبر ۱۹۵۸ء کو نیویارک ہی میں ان کا انتقال ہوا، اور وہیں دفن ہوئے۔