بد قسمتی سے کراچی شہر پاکستان کے اُس علاقے میں واقع ہے، جہاں کی زمین پر کبھی کوئی سبزہ نہیں اُگتا۔ یہ زمین اِک بے آب وگیاہ بیابان کی مانند ہے۔ یہ سمندر سے جڑے رہنے کے باوجود ایک بنجر ریگستان کی طرح بانجھ اور بے اولاد ہے۔ اِس کا کوئی والی اور وارث بھی نہیں ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اِس کے ساتھ زیادتیوں کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے وہ ابھی تک جاری ہے۔
وطن عزیز جب دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ملک کے طور پر ظہور پذیر ہوا تو یہ شہر اس کا دارالخلافہ قرار پایا۔ آخرکوئی تو وجہ ہوگی کہ قائد اعظم اور اُن کے ساتھیوں نے اِس نئے اسلامی مملکت کے لیے کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ برصغیر پاک وہند کے بٹوارے سے پہلے بھی اِس شہر کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ 1947ء سے لے کر 1958ء تک جب تک جمہوری حکومتوں کا سلسلہ چلتا رہا یہ شہر اِس ملک کا دارالخلافہ ہی بنا رہا لیکن غیر جمہوری حکومتوں کے معاندانہ رویوں اور آمرانہ فیصلوں نے سب سے پہلے اِس شہر سے اُس کی شناخت چھین لی اورکیپٹل کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا۔
وہ دن ہے اور آج کا دن کراچی کو دودھ دینے والی اُس گائے کی مانند کر دیا گیا جسے زندہ رکھنے اور اس سے دودھ حاصل کرنے کے لیے دو وقت کا چارہ ڈال دیا جاتا ہے اور کچھ نہیں۔ ستر سالوں میں بے شمار جمہوری اور غیر جمہوری حکومتیں آتی گئیں لیکن کسی نے بھی کراچی شہر کے لوگوں کو اپنا بنانے کی کوشش نہیں کی۔
جمہوری ادوار میں یہاں کی صوبائی حکومت کی حکمرانی پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے میں آتی رہی لیکن اِس پارٹی نے کبھی اُن علاقوں کا خیال نہیں کیا جن سے وہ ووٹ لے کر برسر اقتدار آتی رہی تو پھر کراچی کا خیال بھلا کیونکر کرتی۔ کراچی کے لوگوں نے توکبھی اُسے بھرپور مینڈیٹ دیا ہی نہیں۔ یہاں ہمیشہ سے مذہبی جماعتوں کا غلبہ رہا لیکن وہ بھی جنرل ضیاء الحق کے دور تک۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنی غیر قانونی اور غیر جمہوری حکومت کو جائز اور قانونی بنانے کے لیے یہاں جب پہلے جو جمہوری انتخابات کروائے تو اِس شہر کو ایک لسانی اور علاقائی جماعت کے حوالے کر دیا۔ اُس جماعت نے اپنے ووٹروں اور اپنے چاہنے والوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جو شاید اُن کے مخالفوں نے بھی کبھی نہیں کیا ہوگا۔
اُس نے یہاں کے لوگوں سے اُن کا چین وسکون بھی چھین لیا۔ بزنس اورکاروبار تو غارت ہوا ہی مگر ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کے مابین دوستی اور ہم آہنگی بھی چھین لی۔ تعلیم اور ہنر مندی میں یہاں کے لوگوں کو سارے ملک میں ایک انفرادی حیثیت اور مقام حاصل تھا۔ ایم کیو ایم نے اُن سے اُن کا یہ اعزاز بھی چھین لیا۔
آئے دن کے ہنگاموں اور پرتشدد احتجاجوں نے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی ناممکن بنا دیا۔ اُس پر ستم بالائے ستم یہ کہ جبری چندے اور اغوا برائے تاوان جیسے واقعات نے ہر شریف آدمی کا جینا دوبھر کر دیا۔ اسٹریٹ کرائمز اورگن پوائنٹ پر موبائل چھینے جانے کی وارداتوں نے خوف کا ایسا ماحول بنا دیا کہ اللہ کی پناہ۔ اب تک اِس شہر میں شاید کوئی شخص ایسا بچا نہیں ہوگا جو اِس طرح کی واردات سے محفوظ رہا ہو۔ ٹارگٹ کلنگ اور بوری بند لاشوں کا سلسلہ بھی ایسے ہی دورکی خوفناک یادیں ہیں جب دن بھر میں دس سے پندرہ افراد مارے نہ جائیں تو اِن نامعلوم قاتلوں کو سکون نہیں ملتا تھا۔ پچیس تیس سالوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اِس طویل دور میں جمہوری حکومتیں بھی آتی رہیں اور غیر جمہوریحکومتیں بھی لیکن کسی نے کراچی والوں کی اِس مصیبت کا مداوا نہیں کیا۔
میاں نواز شریف سے لاکھ اختلافات ہوں لیکن یہ کریڈٹ ہم اُن سے نہیں چھین سکتے کہ بالاخر انھوں نے ہی کراچی والوں کو اِس عذاب سے چھڑایا۔ بلکہ یہ کہا جائے تو یقینا بے جا نہ ہوگا کہ پرویز مشرف نے تو اپنے دور میں شہر کا امن چھیننے والوں کی اور بھی حوصلہ افزائی کی۔ 12مئی 2007ء کا اندوہناک واقعہ اُن کی سر پرستی میں ہونے والا ایک ایسا ہی واقعہ تھا، جس میں پچاس سے پچپن افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
ایم کیوایم کے زوال کے بعد اِس شہر میں اگرکسی کو اب تک بھاری مینڈیٹ ملا ہے تو وہ پاکستان تحریک انصاف ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات نے کراچی والوں نے پی ٹی آئی کو سارے پاکستان میں سب سے زیادہ نشستیں دلوائیں۔ 14 نشستیں کوئی معمولی نہیں ہوتیں۔ یہ اگر نہ ملتیں تو خان صاحب باوجود کوششوں کے وفاق میں حکومت نہیں بنا سکتے تھے۔ خان صاحب اگر اِسی کا خیال کرلیں تو کراچی کے تمام مسائل آج ہی حل ہو سکتے ہیں۔
زبانی جمع خرچ اور لارے لپے کے طور پر انھوں نے کراچی کے لیے 160ارب روپے کی گرانٹ مختص کر رکھی ہے، مگر اُس میں سے ایک دھیلا بھی ابھی تک کراچی والوں کو نہیں ملا۔ انھیں اگر ایم کیوایم اور یہاں کی صوبائی حکومت پر بھروسہ نہیں ہے تو کم ازکم اپنے منتخب ارکان کی مدد سے کراچی والوں کو اِن دیرینہ مسائل سے نجات دلوا سکتے ہیں۔ یہاں کا گورنر بھی اُن کی اپنی جماعت سے ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ کراچی اُن کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ شہر کی غلاظت اور کچرا اٹھانے کی باتیں تو بہت کی گئیں۔
لیکن وہ سب بھی زبانی جمع خرچ ثابت ہوئیں۔ خان صاحب کی پارٹی کے لوگ اِس کام کے لیے بھی کراچی والوں سے چندہ مانگنے لگے۔ ملک بھر میں اب تک کوئی قابل ذکر پروجیکٹ بھی شروع نہیں کیا گیا ہے۔ دنیا بھر سے امداد اور خیرات بھی وصول کر لی ہے۔ آئی ایم ایف سے بھاری شرائط پر قرضہ بھی لے لیا ہے۔ قوم پر نئے ٹیکسوں کی بھرمار بھی کر دی ہے۔ مگر پھر بھی کنگال کے کنگال ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ نجانے سارا پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے۔
کراچی والوں کے مسائل کا صحیح طور پرکسی کو ادراک ہی نہیں ہے۔ کچرا اور غلاظت تو صرف ایک ایشو ہے۔ یہاں پانی، سڑکوں اور ٹرانسپورٹ سمیت لاتعداد حل طلب مسائل ہیں جن سے کراچی والوں کو نجات دلانا ہر حکومت کا فرض بنتا ہے۔ چاہے وہ صوبائی حکومت ہو یا پھر وفاقی حکومت۔ گرین بس منصوبہ بھی دیکھاجائے تو میاں نواز شریف نے ہی شروع کیا تھا۔ اُس کے اسٹرکچرکی تعمیر کے لیے میاں صاحب نے حسب وعدہ 16ارب روپے اپنے ہی دور میں دے دیے تھے، لیکن تاخیر کے سبب اِس کی لاگت اب بڑھ چکی ہے تو یہ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے کہ جلد از جلد کراچی والوں کا یہ ایک منصوبہ تو مکمل کر کے دکھائیں۔
سرکلر ریلوے کی بحالی بھی ایک عرصے سے کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے۔ کبھی اِسے جاپانی کمپنی کے تحت شروع کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں اورکبھی اِسے سی پیک منصوبوں میں شامل کرنے کی تجویز دی جاتی ہے۔ دیگر اداروں نے بھی اپنے طور پر اِس ضمن میں کوششیں کر کے دیکھ لیں، سب کی سب رائیگاں گئیں۔
صوبائی اور وفاقی حکومت کوئی بھی اِس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ کبھی کہا جا تا ہے کہ یہ اب قابل عمل نہیں رہا کیونکہ اُس ٹریک پرگرین بس منصوبے سمیت کئی تعمیرات ہوچکی ہیں، انھیں مسمار نہیں کیاجاسکتا ہے اورکبھی کہا جاتا ہے کہ ٹریک پر تجاوزات قائم ہوچکی ہیں جنھیں ہٹانے یا بیدخل کرنے سے شہر میں امن وامان کا مسئلہ بن سکتا ہے۔ دوسرے جانب ریلوے منسٹر بھی انجن اور بوگیاں فراہم کرنے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔ لہذا اِس پر مزید بات نہیں ہو سکتی۔ اِن تمام نالائقیوں اور نا اہلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ بات بلاتردد و پس وپیش کہہ سکتے ہیں کہ کراچی کی بجائے یہ مسائل اگرلاہور شہر کے ہوتے تو کب کے حل ہوچکے ہوتے۔ وہاں میٹرو بھی اپنے مقررہ وقت میں بنا دی گئی اور اورنج ٹرین بھی اب شروع ہونے والی ہے۔ وہاں پانی اور صفائی ستھرائی کے بھی مسائل ایسے نہیں ہیں جیسے کراچی والوں کے مقدرکا حصہ بنا دیے گئے ہیں۔ 14 نشستیں دے کر بھی یہ شہر لاوارث اور بے آسرا ہی رہا۔