اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ملک و قوم تبدیلی کے ثمرات سے خوب لطف اندوز ہورہے ہیں۔ 2014 میں ڈی چوک اسلام آباد کے دھرنے میں جو خواب بائیس کروڑ عوام کو دکھائے گئے تھے وہ سارے کے سارے پورے ہورہے ہیں۔ 65روپے فی لیٹر ملنے والا پٹرول اب 146 میں باآسانی مل رہا ہے۔
چینی جو 53 روپے کلو ہر دکان پر مل جایا کرتی تھی اب 150 روپے میں بھی کسی کسی دکان پر مل رہی ہے۔ گھی، تیل، آٹا، دودھ سمیت کھانے پینے کی ہر چیز دگنی قیمت پر مل رہی ہے۔ وہی قوم جسے 2014ء میں یہی چیزیں خریدنے کی سکت اور استطاعت نہ تھی اب بڑی آسانی سے دگنے داموں پر خرید بھی رہی ہے اور سکون سے سو بھی رہی ہے، ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ ہے۔
رہنے کو شیلٹر ہومز بن چکے ہیں اور دو وقت کی روٹی کے لیے لنگر خانے بھی بنا دیے گئے ہیں جہاں سے ہر غریب اور مسکین فیض یاب ہوسکتا ہے۔ بے روزگار نوجوانوں کے لیے وہ اگر اپنا کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں تو حکمرانوں نے کمرشل بینکوں سے پانچ لاکھ لون لینے کی سہولت بھی فراہم کر دی ہے، ملک خساروں کے دلدل سے نکل چکا ہے۔ امپورٹ اور ایکسپورٹ کا توازن بھی درست ہوچکا ہے۔ فارن ایکس چینج کے ذخائر بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔
اسٹیل ملز اور پی آئی اے سمیت سارے ادارے منافع بخش بنا دیے گئے ہیں۔ غیر ملکی امداد اور قرضے پہلے کی نسبت دگنے ہوچکے ہیں۔ ہمارا وزیراعظم جہاں جاتا ہے تقریر اور پرسنلٹی کا جادو سب کو رام کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ملک فوراً سے پیشتر قرض دینے کو تیار ہوجاتا ہے۔ روپیہ اور گرین پاسپورٹ ساری دنیا میں عزت افزائی سے سرفراز ہورہا ہے۔
یہی وہ اچھے دن تھے جس کے انتظار میں ہم نے 74 سال گزار دیے تھے۔ اللہ کا شکر ہے ہمیں ایک ایسا رہنما ملا ہے جس نے اپنے سارے وعدے ایک ایک کرکے تین سالوں میں ہی پورے کر دیے ہیں۔ اُس نے کسی ملک سے کوئی قرض لینے کو جو وعدہ کیا تھا وہ بھی حرف بہ حرف پورا کیا۔ آئی ایم ایف کا دروازہ بھی کھٹکھٹانے سے جو انکار کیا تھا وہ اس نے ویسا ہی کرکے دکھایا۔ قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا عزم بھی اب تقریباً پورا ہونے کو ہے۔ قوم کھانا پکانے کا تیل 400 روپے خریدنے لگی ہے یہ اسکے مالدار ہونے کا منہ بولتا ثبوت نہیں ہے توکیا ہے۔
جو قوم جولائی 2018 سے پہلے تک یہی تیل 156 روپے میں بھی خریدنے کی سکت نہیں رکھ رہی تھی آج 400 روپے میں ہنسی خوشی خرید رہی ہے اور اُف تک نہیں کررہی۔ حکمران اور اُن کے رفقاء یہی تو کہہ رہے ہیں کہ ہم نے قوم کو مالدار بنا دیا ہے۔ ملک بھر میں موٹر سائیکلوں کی تعداد پہلے سے دگنی ہوچکی ہے۔ لوگوں کے پاس پیسہ ہے تو یہ لوگ خرید رہے ہیں، یہی حال کاروں کا بھی ہے۔ اپوزیشن بلاوجہ ہلکان ہورہی ہے۔ قوم تو مزے کررہی ہے اور سونامی کی تباہ کاریوں سے بطریق احسن نمٹ رہی ہے۔
سونامی کے ذکر سے یاد آیا خان صاحب اپنی اپوزیشن کے دنوں میں جس سونامی کا ورد روزانہ کیا کرتے تھے وہ شاید یہی سونامی تھی، جس میں ایک زرعی ملک جو گندم، چینی چاول اور کپاس میں مکمل طور پر خود کفیل اور خود مختار تھا آج وہ تمام اجناس بیرون ملک سے امپورٹ کر رہا ہے۔ بمپر فصل ہونے کے باوجود ہم اتنے سخی اور فیاض ہوچکے ہیں کہ اپنی فصلیں اور پیداوار تو افغانستان اسمگل کردیتے ہیں اور خود اپنے لیے زرمبادلہ خرچ کرکے چینی اور گندم بڑی مقدار میں درآمد کررہے ہیں۔ ہمارا دشمن جس قسم کا پاکستان دیکھنا چاہتا تھا ہم نے آج اپنے پاکستان کو اُس مقام پر پہنچادیا ہے۔
ہم نے اپنے تمام بڑے بڑے منصوبے اب گروی رکھنا شروع کردیے ہیں۔ ایئرپورٹ اور موٹروے سمیت بہت سے پروجیکٹ اگر نہ ہوتے تو ہم اپنی کون سی چیر گروی رکھ کے یہ قرضے حاصل کرتے۔ اب صرف نیوکلیئر پروجیکٹ باقی رہ گیا ہے جس پر دشمنوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ اللہ وہ دن نہ لائے جس دن قوم صبح جب خواب غفلت والی نیند سے بیدار ہو تو اُسے پتا چلے گا کہ ہمارا یہ اثاثہ بھی گروی رکھ دیا گیا ہے۔ اُس وقت ہمارے یہ حکمراں شاید یہی کہتے ہوئے دکھائی دینگے کہ ایسے ایٹم بموں کا کیا فائدہ جن کے ہوتے ہوئے قوم بھوک سے نڈھال ہورہی ہے اور وہ اُس کے کام نہ آئیں۔
اچھے دنوں کی آس میں تین سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ جس تیزی سے ہم ڈالر اور مہنگائی میں ساری دنیا سے آگے نکلتے جارہے ہیں لگتا ہے 2023 میں جب ہماری اس حکومت کے مینڈیٹ کے پانچ سال پورے ہونگے توپٹرول اور ڈالر 200 روپے تک ضرور پہنچ چکاہوگا۔ لوگ گھی اور تیل 500 روپے کلو میں خرید رہے ہونگے۔ آٹا100 روپے کلو مل رہا ہوگا۔
چینی بھی قیمت بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے گی۔ ملک کو اس حال میں پہنچا دیا جائے گا کہ آیندہ آنے والا کوئی حکمراں بھی اُسے سنبھال نہ سکے اور پھر قوم کے پاس موجودہ حکمرانوں کے سوا کوئی آپشن باقی نہ رہے۔ ویسے بھی کچھ لوگوں کی نظر میں موجودہ حکمرانوں کا کوئی متبادل ہی موجود نہیں ہے۔
ہم پہلے بھی یہی سمجھا کرتے تھے اور آج بھی یہ سمجھ رہے ہیں۔ قوم کی مستقل مزاجی کی داد دینی چاہیے۔ وہ تمام تکلیفیں اُٹھا کر بھی سڑکوں پر احتجاج کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ بلکہ حکمرانوں کی تعریف و توصیف میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششوں میں سرگرداں ہے۔ ہمیں آج بھی بہت سے لوگ ایسے ملیں گے جو حکمرانوں کو یہ کہہ کر خوش فہمی میں رکھنا پسند کرتے ہیں کہ " اچھے دن آئے ہیں " ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اچھے دن اگر یہ ہیں تو برے دن پھر کیسے ہوتے ہونگے۔ ملک پر قرضوں کا بار 46 ہزار ارب ڈالر ہو چکا ہے۔
روپیہ بنگلہ دیش تو کیا خطہ کے کسی اور کمزور ملک کی کرنسی سے مقابلہ نہیں کر پا رہا۔ چالیس سالوں سے تباہ حال افغانستان کی کرنسی بھی ہم سے زیادہ مضبوط ہے۔ پٹرول آج بھی وہاں ہم سے کم قیمت پر دستیاب ہے۔ طالبان کو جس حال میں حکومت ملی ہے وہ ساری دنیا جانتی ہے۔ لیکن ابھی تک ہم نے اُن کا وہ رونا دھونا نہیں سنا جو ہماری اس حکومت نے تین سالوں سے جاری رکھا ہوا ہے۔ ہماری موجودہ حکومت اپنی ہر غلطی اور ناکامی کو پچھلی حکومتوں کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے۔
کورونا ساری دنیا میں آیا۔ افغانستان میں بھی آیا۔ لیکن وہاں کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم کیا کریں مہنگائی پچھلی حکومت یا کورونا کا شاخسانہ ہے۔ اُن کے سارے مالی اکاؤنٹ بھی منجمد ہیں لیکن وہ پھر بھی عزت و غیرت سے زندگی گذار رہے ہیں۔ کسی ملک یا سربراہ کے آگے بھیک نہیں مانگ رہے۔ جیسے بھی حالات ہیں اپنے طور پر نمٹ رہے ہیں۔ افغانستان میں تبدیلی کا سارا عمل ہمارے سامنے چند مہینوں میں رونما ہوا ہے مگر ہم پھر بھی اُن سے کوئی سبق نہیں سیکھ پا رہے ہیں۔