برسراقتدار حکومت نے اپنے دور کے تین سال مکمل ہونے پر عوام کے سامنے اپنی کارکردگی کا نامہ اعمال بڑے فخر وافتخار کے ساتھ پیش کیا۔ اِس سلسلے میں اسلام آباد میں ایک بڑی عالی شان تقریب منعقد کی گئی، جس سے وزیراعظم عمران خان نے خطاب بھی کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے رفقاء اور وزراء کو اپنی اس تین سالہ کارکردگی پر اتنا ہی فخروناز ہے جتنا سابقہ حکومتوں کو اپنی پانچ سالہ حکومتوں پررہاہے۔ خان صاحب سابقہ حکمرانوں پر مالی بدعنوانی اورکرپشن کے الزام بڑی شدومد کے ساتھ لگاتے رہے ہیں، وہ اپنی ہر تقریر میں اِس کاذکر کرتے رہتے ہیں۔ اُن کی کوئی تقریر اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتی، جس کرپشن کولے کر وہ پچھلے دس سالوں سے اپنی سیاست کو گرماتے اورپروان چڑھاتے رہیں وہ گرچہ ابھی تک ثابت نہیں ہوپائی ہے مگر الزامات لگانے کاسلسلہ ابھی تک باقی ہے۔
مسلم لیگ(ن) کے تمام سرکردہ رہنماؤں کو انھوں نے کئی کئی مہینوں کے لیے پابند سلاسل کرکے بھی دیکھ لیا لیکن ثابت کچھ نہ کرسکے۔ اس کے مقابلے میں اگر آج کی صورتحال کاغیر جانبدارانہ موازنہ کیاجائے تو مالی بدعنوانیوں کے بہت بڑے اسکینڈلز کھل کربے نقاب ہوتے دکھائی دینگے۔ مالم جبہ، بی آرٹی پروجیکٹ، دس ارب درخت کے پروجیکٹ ایسے ہیں کہ جب اُس پراگرکوئی کارروائی کی گئی تو پی ٹی آئی کے بڑے بڑے چاہنے والے خود انگشت بدنداں رہ جائیں گے۔
حکومت وقت کو ناز ہے کہ وہ پہلی حکومت ہے جس نے اپنے دور میں چینی اورآٹے کے بحرانوں کی تحقیقات کروائی مگر وہ یہ بتانے سے گریزاں ہے کہ اُس تحقیقات کے نتیجے میں اپنے کن لوگوں کے خلاف تادیبی کارروائیاں کی گئی اورکتنوں کو جیلوں میں ڈالاگیا۔ صرف تحقیقات کروانے سے تو کچھ نہیں ہوتا۔ نامزد ملزمان تو آج بھی مزے سے پرتعیش زندگی گذار رہے ہیں، کسی کو وقتی طور پر سائیڈ لائن کردینا تو عوام کی نظروں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہواکرتا ہے۔
چینی آج بھی سستی نہ ہوسکی بلکہ اگر دیکھاجائے تو اُس کی گرانی میں مسلسل اضافہ ہی ہوتاجارہاہے۔ جب تحقیقات شروع کی گئیں تو چینی 85 روپے میں فروخت ہورہی تھی اور اب 110 روپے میں مل رہی ہے۔ یہی حال آٹے کا بھی ہے۔ گھی اورکھانا پکانے کے تیل کاتو حال ہی نہ پوچھیے۔ ستر سالوں میں ہمارے یہاں گھی کی قیمت 160 تک پہنچی تھی مگر خان صاحب کے اِن تین سالوں میں سو فیصدسے زائد اضافے کے ساتھ اب 350روپے تک جاپہنچی ہے۔ حکومت جوہروقت مافیامافیا کرتی رہتی ہے تو اُس سے پوچھاجائے کہ بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کون سا مافیاکررہاہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی چنداں ضرورت نہیں ہے، وہ سب کے سامنے بے نقاب اورعیاں ہے۔ ہمیں یہاں قابلیت سے زیادہ نااہلی اورغیر ذمے داری نظر آتی ہے، کسی بھی وزیر کو اپنی وزارت کی فکر نہیں، وہ صبح وشام صرف سابقہ حکمرانوں کو لتاڑنے کی فکر میں سرگرداں رہتاہے۔ اُن سے جب اُس کی اپنی وزارت کے بارے میں پوچھاجائے تو وہ سابقہ حکومتوں کی خرابیاں اور برائیاں گنوانے میں لگ جاتا ہے۔
ریلوے کا جو حال ان تین سالوں میں ہو چکا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ہے۔ یہ کچھ حال قومی ائیر لائن کابھی ہے، وہ 2018 میں جہاں کھڑی تھی آج بھی وہیں کھڑی ہے بلکہ اُس کامالی خسارہ مزید بڑھ چکاہے۔ اسٹیل ملز کا معاملہ بھی یہ حکومت حل نہیں کرپائی ہے۔ سمجھ نہیں آرہاکہ اِسے ہم اُس کی نااہلی سمجھیں یا پھر اعلیٰ کارکردگی۔ سابقہ حکمرانوں نے اگر کچھ کرپشن کی تھی توکچھ کام بھی کرکے دکھائے تھے۔ اُن کے دور میں معیشت کی یہ حالت ہرگز نہیں تھی۔
عوام آج سے بہتر زندگی گذار رہے تھے۔ انھوں نے بقول نیازی صاحب کہ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پرروکے رکھاتھا۔ اول تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی حکومت پانچ سال تک ڈالر کو بڑھنے سے روکے رکھے اورعوام کو سستی اشیاء بھی فراہم کرتی رہے۔ پاکستان کے ستر سالوں میں غیر ملکی قرضہ اگر 30 ہزار ارب ڈالر تک پہنچ گیاتھاتواب صرف اِن تین سالوں میں یہ بڑھکر 44ہزارڈالر ہوچکا ہے، جب کہ کوئی بڑا پروجیکٹ بھی ابھی تک شروع نہیں کیاجاسکا۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جس کو کم کرنے کاکریڈٹ یہ حکومت اب تک لیتی رہی ہے وہ ایک بار پھر بڑھنے لگاہے۔ کورونا کی وجہ سے ہماری امپورٹ کچھ کم ہوئی تھیں جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ میں کمی دیکھی گئی تھی۔ اس میں حکومت کی کوششوں کاکوئی عمل دخل نہ تھا۔
ایک طرف حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ِاس بار گندم اورگنے کی بمپر پیداوارہوئی ہے تو دوسری طرف دولاکھ ٹن چینی اورچار لاکھ ٹن گندم بھی امپورٹ کررہی ہے۔ خود اُن کے وزیرخوراک وزراعت پریشان ہیں کہ یہ بمپر فصل کہاں غائب ہوگئی۔ اِسے ہم کارکردگی کے کس زمرے میں گردانیں گے۔
حکومت عوام کو صحت کارڈ اوراحساس پروگرام کا کریڈٹ بھی اپنے کھاتے میں ڈالتی رہتی ہے۔ یہ احساس پروگرام اِس حکومت کاجاری کردہ ہرگز نہیں ہے۔ قوم اسے پہلے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام سے جانتی اورپہچانتی رہی ہے۔
خان صاحب کے دور میں صرف اس کانام تبدیل کیاگیاہے۔ رہ گیا صحت کارڈ تواُس کی افادیت تو عوام ہی بتاسکتے ہیں کہ اس کارڈ سے انھیں کس اسپتال میں مفت علاج نصیب ہواہے۔ ہمیں شاید کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے گاجس نے اِس کارڈ پراپنا کوئی بڑا آپریشن کروایا ہو، یہ کارڈ بھی اُن دس ارب درختوں کی مانند ہے جنھیں ثابت کرنا کسی کے بس میں نہیں۔
اس حکومت نے اپنی کم عقلی اور نااہلی کی وجہ سے اِس ملک کاکتنابڑانقصان کرڈالا ہے یہ شاید ابھی تک کھل کرعوام کے سامنے ہی نہیں آیاہے۔ ایل این جی اسکینڈل اربوں ڈالر نقصان کاوہ اسکینڈل ہے جسے اگر کھل کرعوام کے سامنے رکھاجائے توموجودہ حکمرانوں کے اقتدار میں رہنے کا جواز ہی خطرہ میں پڑجائے گا۔
جب دنیا میں سستی ایل این جی مل رہی تھی تویہ حکومت اُسے خریدنے سے اس لیے گریزاں تھی کہ شاید آیندہ مہینوں میں مزید سستی ہوجائے گی، لیکن اب وہ مجبوراً چار گنا زیادہ مہنگی ایل این جی خرید رہی ہے۔ یہ مہنگی ایل این جی سے جب بجلی پیدا کی جائے گی تو اُس کی قیمت بھی چار گنا زیادہ ہی ہوگی اورقوم کو اِس نااہلی کا خمیازہ اپنی جیبوں سے بھرنا پڑے گا۔
موجودہ حکومت کی نااہلی اورسابقہ حکومتوں کی مبینہ کرپشن کا اگر موازنہ کیاجائے تو جتنانقصان حالیہ نااہلی سے اس ملک وقوم کو پہنچا ہے سابقہ ادوار کی کرپشن سے ہرگزنہیں پہنچا تھا۔ نیم حکیم خطرہ جاں کی مانند نئے نئے حکمراں بننے والے ہمارے نیک اورایماندار وزیراعظم نے اپنے اردگرد سارے وہ افراد جمع کرڈالے ہیں جنھیں پہلے وہ خود چور اورڈاکو کہاکرتے تھے۔ ایمانداری اورنیک نیتی کاتقاضہ تویہ تھا کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کواپنے ساتھ ملاتے ہی نہ جنھیں وہ بد نیت اوربے ایمان تصور کرتے رہے ہیں۔ انسان اپنے دوستوں سے پہچاناجاتاہے۔
خان صاحب ابھی تک غلط لوگوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ خود خان صاحب کا وژن اور وجدان ابھی اُن بلندیوں تک نہیں پہنچا ہے جہاں سے ہماری قوم کچھ فائدہ اور افادہ حاصل کر پائے۔ مرغی چوزوں اوربھینسوں اورکٹوں سے شروع ہونے والا وژن ابھی تک سیاحت اورٹورزم کے ایسے پروجیکٹس کی پبلسٹی میں الجھا ہوا ہے جنھیں شروع کرنے سے وہ خود بھی ابھی تک ہچکچاتے رہے ہیں۔ یہ سارے پروجیکٹس صرف ہواؤں میں بنائے گئے ہیں جو پانچ سال پورے ہونے پر شاید ہی کسی کونظر آسکیں۔