جیسے جیسے وقت آگے بڑھتاجارہاہے دنیابھی تیزی سے بدلتی جارہی ہے۔ روس اورامریکاکی کشمکش جوکبھی زمانے سے چلتی آرہی تھی اب تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ سویت یونین کاشیرازہ بکھر جانے کے بعد عالمی سطح پر صرف ایک سپر پاور رہ گئی تھی جو اپنے علاوہ کسی اورکاوجود اِس مقام اور سطح پر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کررہی تھی۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اُسے پنجہ آزمائی کے لیے کوئی نہ کوئی دشمن بھی چاہیے تھا۔
ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ غرور وتکبر، رعونت اور فرعونیت کے لیے کوئی موسیٰ موجود نہ ہو، یہ اللہ تعالیٰ کانظام ہے، ہر ایک کامتضاد ضرور پیدا ہوتاہے۔ برائی کے ساتھ اچھائی اور بدی کے مقابلے کے لیے نیکی کاہوناایک قانون فطرت ہے۔ سویت یونین اگر اپنی سا لمیت برقرار نہ رکھ سکا تو اُس کی جگہ چین نے لے لی اورترقی کرکے وہ امریکاکے مد مقابل عالمی منظر نامہ پرنمودار ہوگیا۔ اس طرح عرصہ درازسے چلنے والی کولڈ وار روس اورامریکاکے بجائے اب چین اورامریکاکے مابین لڑی جانے لگی، مگر اِس میں بھی جارحانہ کردار پہلے کی طرح امریکاکاہی دکھائی دیتا ہے۔
امریکا کا مزاج ہی ایساہے کہ وہ اپنے سواکسی اورکوبرداشت ہی نہیں کرسکتا۔ عالمی چودھراہٹ کا غرور اُس کے دل ودماغ میں اِس طرح سرائیت کرچکاہے کہ وہ اِس سے باہر نکلنے کوہرگزتیار نہیں ہے۔ فرانس، جرمنی اور چاپان تو مجبوری اور مصلحت کے تحت یہ سب کچھ برداشت کرتے رہے ہیں اور کبھی بھی اسے روکنے کی جرأت و ہمت بھی نہیں کرتے مگر چین دنیاکے نقشہ پر ظہور پذیر ہونے والاایک ایسا ملک ہے جو کسی کے مرہون منت کبھی بھی نہیں رہا۔ اُس نے آج تک جو بھی ترقی کی ہے صرف اورصرف اپنے بل بوتے پر۔ اِس لیے اُس کے اندرخودداری اورخوداعتمادی بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
وہ اپنے اوپرکسی کی چودھراہٹ قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ بلاوجہ اور خامخواہ کسی سے محاذآرائی بھی نہیں چاہتا لیکن وہ کسی کویہ اجازت بھی نہیں دے سکتاکہ کوئی اُسے بلاوجہ تنگ کرے۔
وہ کسی بھی جارحیت کامقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتاہے۔ وہ خاموشی کے ساتھ اپناکام کیے جارہاہے اور ساری دنیا کی اورصنعتی اور معاشی مجبوری بھی بنتاجارہاہے۔ امریکابہادر کو اُس کی یہی اداایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اپنے مقابلہ پر کسی اور طاقتور ملک کے ہونے کا ایک انجانہ خوف اُسکے سروں پر مسلط ہوچکاہے۔
لہٰذاوہ اُسے بھی سویت یونین کی طرح نیست ونابود کرنے کی فکر میں سرگرداں ہے۔ اوباما کی صدارت تک تو امریکا سویت یونین، عراق اور افغانستان سے لڑائی میں الجھاہواتھا، مگر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں جیسے ہی اُسے اِن جھمیلوں سے چھٹکارا ملا وہ اپنے اگلے پیداہونے والے خطرات سے نمٹنے کی سوچنے لگا۔ اُسے احساس ہوگیاکہ وہ اگر دوسروں کے معاملات میں الجھارہاتو کہیں ایسانہ ہوکہ کوئی اور ملک اُسکے سپرپاور ہونے کو چیلنج کردے۔
چین کی تیزی کے ساتھ ترقی اور خوشحالی نے اُسے پریشان کرکے رکھ دیا۔ اُسے اپنے خلاف تیزی سے بڑھتے خطرات نظر آنے لگے۔ اُس نے جب یہ دیکھاکہ چین کے ہاتھ پاؤں اب اپنی سرحدوں سے نکل کرآس پاس کے ملکوں تک پہنچنے لگے ہیں اور سی پیک اورون روڈ اورون بیلٹ جیسے منصوبوں سے وہ ساری دنیاکی تجارت کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کی سوچ رہاہے توفیصلہ کیاگیاکہ اُسے اِس کام سے کسی طرح روکاجائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور اقتدار کے چار سال اِسی سوچ وفکر میں لگادیے کہ کسی طرح چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کوروکا جائے۔
اُس کے نزدیک مشرقِ وسطی یاافغانستان اب کوئی بڑامسئلہ نہ رہا تھا۔ اب اگر کوئی بڑامسئلہ ہے تووہ چین اوراُس کے آس پاس ملکوں کی خود انحصاری اورخود مختاری تھا۔ مشرق وسطیٰ میں تو حالات اُس کے مکمل قابو میں پہلے سے تھے ہی لیکن حالیہ دنوں میں تو وہ مزید اُس کے اور اُس کے لے پالک اسرائیل کے حق میں بہتر ہوچکے ہیں۔ کچھ سال پہلے تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ اسرائیل سے عرب ملکوں کے تعلقات سازگار اور دوستانہ ہوجائیں گے۔ وہ اپنے ملکوں کی سرحدیں اورشاہراہیں اسرائیلیوں کی آمدو استقبال کے لیے اِس طرح کھول دیں گے کہ جیسے اُن سے اچھااُن کاکوئی دوست ہی نہ ہو۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ دنیااچانک یوں تبدیل ہوجائے گی۔
دنیاکبھی بہت سست رفتار سے بڑھ رہی تھی۔ بیسویں صدی کی آمد سے پہلے ہوائی جہاز بھی ایجاد نہیں ہواتھا۔ مگر بیسویں صدی میں لڑی جانے والی دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیانے بہت تیزی کے ساتھ کروٹ بدلی ہے اورایسی ایسی ایجادات سامنے آئیں جس نے ساری دنیاکانقشہ ہی بدل کررکھ دیا ہے۔ اکیسویں صدی نے اوربھی حیران کن کرشمات دکھائے ہیں۔ ہم جہاں کمپیوٹر اور موبائل ٹیکنالوجی سے مستفید ہورہے ہیں وہاں جنگوں اورلڑائیوں کی ٹیکنالوجی بھی اب بدل چکی ہے۔ بڑے بڑے دشمن جو کبھی باہم دست وگریباں تھے اب آپس میں دوست بن چکے ہیں اورپرانے دوست ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔
اسلحہ اورہتھیاروں سے لڑی جانے والی جنگیں اب ایک دوسرے کاپا نی روکنے اورمعاشی پابندیوں جیسے فارمولے سے لڑی جارہی ہیں۔ کوئی ہمارا سی پیک ختم کرنے کے درپے ہے توکوئی کسی پر معاشی پابندیاں لگانے پرمصرہے۔ قرضوں اور امداد کو بھی اِنہی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیاجانے لگا ہے۔
قوموں کی بیچ خلوص ومحبت مصلحتوں اور مجبوریوں کے تابع ہوکررہ گیاہے۔ یہاں کوئی کسی کادوست اور بھائی نہیں ہے۔ سب کی اپنی اپنی ترجیحات اورمفادات ہیں۔ ایسے میں ہمیں بہت احتیاط کے ساتھ قدم بڑھانے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنی معاشی حالت کو بہتراور مستحکم بناناہوگا۔ کاسہ لیسی، دریوزہ گری اور دوسروں کی غلامی سے چھٹکاراحاصل کرناہوگا۔ تیزی سے بدلتے حالات کو سامنے رکھ کر اپنی خود مختاری اورآزادی کاتحفظ کرناہوگا۔ ادھار اورمانگے تانگے کی زندگی کو خیرباد کہناہوگا۔ تبھی جاکے ہم قوموں کی برادری میں ایک باعزت مقام کے ساتھ اپناوجود برقرار کھ سکتے ہیں۔