خانصاحب اگر اپنی توجہ صرف ایک کام پر مرکوز رکھتے تو شاید وہ اتنی جلد عوام کی نظروں سے نہیں گر جاتے۔ وہ اپنے مخالفوں کو زیر کرنے یا نیچا دکھانے کی بجائے عوام کو ریلیف دینے اور سہولتیں فراہم کرنے کی کوششیں کرتے تو یقینا یہ اُن کے حق میں بہتر ہوتا لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ خانصاحب نے اپنے تمام سابقہ بیانوں اور تقریروں کے برعکس ہر وہ کام کیا ہے جن کی ماضی میں وہ سختی سے مذمت اور مخالفت کیا کرتے تھے۔
غیر ممالک سے بڑے بڑے قرضوں سمیت عوام پر مہنگائی اورگرانی کے پہاڑ توڑنے سے لے کر وہ سارے کام کیے ہیں جو ایک خوشحال مستقبل کی بجائے قوم کو بھیانک اور خوفناک اندھیروںکی جانب دھکیل رہے ہیں۔ جن لوگوں سے پیسہ نکلوانے کی باتیں کیا کرتے تھے وہ تو بڑے آرام اور سکون سے سرکاری مہمان خانوں میں اپنی زندگی کے باقی دن گزار رہے ہیںجب کہ خانصاحب کے نام نہاد انقلابی معاشی اقدامات نے ہمارے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا کے رکھ دی ہے۔
کاروبار حکومت چلانے کے لیے خانصاحب نے آمدنی کا سارا بوجھ عوام کے کاندھوں پر منتقل کردیا ہے۔ وہ دو چار سال میں حالات کے بہتر ہوجانے کی آس و اُمید دِلا کے عوام سے قربانی دینے کا تقاضا کر رہے ہیں جب کہ حالات و واقعات اورزمینی حقائق اِس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ آیندہ آنیوالے حالات معاشی و اقتصادی طور پر اور بھی گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم کو احساس نہیں کہ قوم اُنکے طرز حکومت سے کتنی پریشان ہے۔ ہر طرف مہنگائی اور ٹیکسوں کا طوفان ہے جو روز بروزگھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ دوسروں کے دور حکومت میں روپے کی معمولی قدرکم ہونے پر زبردست واویلا مچانیوالوں نے اپنے دورکے پہلے ہی سال میں روپے کی قدر میں پچاس فیصد کمی کر دی ہے۔ ہمارے لیے یہ بات باعث حیرانی ہے کہ انھیں اپنے اِس فعل پرکوئی پشیمانی یا ندامت بھی نہیں ہے۔
میاں نوازشریف کے دور میں بجلی اور گیس کی قیمتوں پر اعتراض کرنیوالوں نے آج اپنے دور میں دو سو فیصد اضافہ کر دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ جواز پیش کرتے ہوئے انھیں کوئی عار بھی محسوس نہیں ہوتی کہ سابقہ حکومت نے مصنوعی طور پر اِن دونوں چیزوں کی قیمتوں کو کم رکھا ہواتھا حالانکہ اُنکے سب سے لائق اورفائق ماہر معیشت اسد عمر سابقہ نواز دور میں یہ کہتے ہوئے تھکتے نہیں تھے کہ ساری دنیا میں بجلی اورگیس کی قیمتیں کم ہوتی جا رہی ہیں اورہمارے یہاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ اپنی اِن تقریروں کو آج الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر دوبارہ چلتے ہوئے دیکھ کر بھی انھیں کوئی احساس ندامت نہیں ہوتا۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر محض 6 ارب ڈالرکا قرضہ لینے والوں نے آج قوم پر نئے اور پرانے اضافی ٹیکسوں کا بے تحاشہ بوجھ ڈال دیا ہے۔ نتیجتاًفیکٹریاں اورکارخانے بند ہوتے جا رہے ہیں، لوگ بڑی تعداد میں بیروزگار ہوتے جا رہے ہیں، ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے، ہرطرف ہڑتالیں اور احتجاج ہو رہے ہیں مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ حکومتی اقدامات سے غربت توکیا کم ہوتی بلکہ تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ ملک بھر میں تمام ترقیاتی کاموں پر روک لگا دیا گیا ہے۔ تعمیروترقی کوکوئی نیا منصوبہ زیر غور نہیں ہے۔ سی پیک پر جاری تمام پروجیکٹس اب سست رفتاری کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ نئے آبی ذخائرکے لیے قائم کیا جانے والے ڈیم فنڈ بھی آہستہ آہستہ اپنی اہمیت و افادیت کھوتا جا رہا ہے۔
اِسکی ابتدا کرنیوالاملک و ملت کاخیرخواہ شخص بھی اب مکمل طور پر غائب اور لاپتہ ہوچکا ہے۔ اِس ملک میں ایسے شعبدہ باز پہلے بھی بہت سے آتے رہے جنھیں قوم اپنا رہبر اور مسیحا سمجھ کر بے قوف بنتی رہی۔ یہ تو اچھا ہوا کہ بابا رحمتے کا پول بہت جلد کھل گیا ورنہ ہوسکتا تھا قوم انھیں بھی صرف اِسی ایک کام کی بدولت حق حکمرانی عطا کر دیتی جس طرح کرکٹ کا ایک ورلڈ کپ جیت جانے پر خان صاحب کو عطا کرچکی ہے۔
دوست ممالک سے تین تین ارب ڈالر لے کر خان صاحب فوری طور پر اپنی حکومت کے لیے کچھ ریلیف حاصل کر کے دیوالیہ ہونے کے خطرات سے باہر تو نکل آئے ہیں لیکن آنیوالے چند مہینوں میں ایسا لگتا ہے یہ خطرہ ایک بار پھر بڑی شدت کے ساتھ ہمارے سروں پہ منڈلانے لگے گا۔ دنیا میں اب شاید ہی ہمارا کوئی ایسا دوست ملک بچا ہے جو ہمیں اب اپنا پیٹ کاٹ کے کچھ امداد اور قرضہ دے سکے۔ سب کی اپنی اپنی مالی مشکلات اور مجبوریاں ہیں۔ دوسری جانب سمندر سے تیل نکلنے اور کیکڑا ون سے جڑی تمام اُمیدیں اورتوقعات ریزہ ریزہ ہوچکی ہیں۔ قدرت کی طرف سے کسی معجزے اور کرشمے کی بھی تمام اُمیدیں اب نا اُمیدیوں میں بدلتی جا رہی ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے ایک بار پھرکم ہونے لگے ہیں۔
قرضوں کے مدد سے وقتی طور پر انھیں جو سہارا ملا تھا وہ بھی اب ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسی خوفناک صورتحال میں حاصل شدہ قرضوں کی ادائیگی سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ یہ باقی رہ گیا ہے کہ حکومت اب دوست ممالک سے قرضوں کی معافی یا اُنکی ادائیگی میں کچھ ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اِس مقصد کے لیے ہو سکتا ہے آنیوالے دنوں میں قوم اپنے حکمرانوں کو اِس مشن پر عمل پیرا ہوتا دیکھ سکتی ہے۔ اسمارٹ وزیر اعظم کی حکومت کو ایک سال ہونے والا ہے۔ اِس پورے ایک سال میں قوم نے ترقی و خوشحالی کی جانب شاید ہی کوئی قدم بڑھایا ہو بلکہ وہ تواتر اور تیزی کے ساتھ تنزلی اور ابتری کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم صاحب نے قوم کو اِس سارے عرصے میں صرف یہی سمجھایا ہے کہ سابقہ حکمراں چور اور ڈاکو تھے۔ اِسکے علاوہ کوئی اور کام بڑی تندہی اور جانفشانی کے ساتھ حکومت کے کسی وزیر اور مشیر نے نہیں کیا۔ ساری کابینہ ہمیشہ صرف اِسی ایک ایجنڈے پرغور کرتی رہی ہے کہ کس طرح سابقہ حکمرانوں کو چور اور ڈاکو ثابت کیا جاسکے۔
وزیر اعظم کبھی این آر او نہ دینے اور کبھی کسی کو بھی ریلیف نہ دینے کی باتیں کرتے ہیں تو کبھی پیسہ دینے کی صورت میں جیل سے رہائی کے اشارے بھی دیا کرتے ہیں۔ دوسری جانب اُنکے وزراء یہ تاثر پیدا کرنے کی بھرپورکوششیں بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ میاں نواز شریف اور زرداری صاحب تو پیسہ واپس کرنے پر رضا مند ہیں لیکن کپتان راضی نہیں ہو رہا۔ وہ انھیں سزا دینے پر سختی کے ساتھ مصراور ڈٹا ہوا ہے۔ حکومت کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اُس کا اصل کام کیا ہے۔ وہ نیب اورعدلیہ کی ذمے داریاں خود سنبھالنے کا بھی سوچ رہی ہوتی ہے تو دوسری جانب اِس سارے جھمیلے سے خود کو الگ تھلگ رکھنا بھی چاہتی ہے۔ ایک طرف وہ یہ کہتے ہوئی نہیں تھکتی کہ احتساب کا یہ سارا عمل اُس کا اختراع کردہ نہیں ہے۔ یہ مقدمات تو سابقہ ادوار میں قائم کیے گئے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ سابقہ حکمرانوں کی دی جانیوالی سزاؤں کا کریڈٹ بھی اپنے نام کرنے کی کوششیں کرتی رہتی ہے۔ حکومت سے اپنا کام تو سنبھالا نہیں جا رہا اوروہ بلاوجہ دیگرکاموں میں الجھتی جا رہی ہے۔
عوام کو ریلیف دینے کی بجائے اُن پرگرانی اورمہنگائی کے پہاڑ توڑے جا رہی ہے تو دوسری جانب کاروبار اور بزنس پر بھی قدغن لگاتی جا رہی ہے۔ عوام انتہائی سخت اضطراب اور عذاب میں مبتلاہیں اور یہ سوچنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں کہ اِن سے اچھے تو سابقہ حکمراں ہی تھے جنکے دور میں وہ دو وقت کی روٹی تو کھا سکتے تھے۔ خانصاحب کی حکومت نے تو اُن سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے۔ ایسے احتساب کا کیا فائدہ جو عوام کو ریلیف دینے کی بجائے اُن پر اور بھی مشکلیں نازل کرتا رہے۔ حکومت اپنے اصل کام پر فوری توجہ دے۔ عدالتوں کا کام عدالتوں پر چھوڑ کر خود اپنے عوام کی حالت بہتر بنانے پر مکمل توجہ دے، ورنہ وہ دن دور نہیں جب عوام کے صبرکا پیمانہ لبریز ہو جائے گا اور حکومت کو پھر کہیں بھی جائے پناہ نہیں مل پائے گی۔