ابھی سال دو سال پہلے کی بات ہے جب ہمارے وزیر اعظم اپنے دور اقتدار میں پہلی بار امریکا کے سرکاری دورے پر گئے تھے۔ وہاں اپنے استقبال اور ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے اتنے شاد ہوئے کہ واپسی پر بیان دے ڈالا کہ مجھے ایسا احساس ہو رہا ہے کہ جیسے میں کوئی ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں، مگر افسوس کہ اُن کی یہ خوشی اور خوش گمانی زیادہ دیر نہ چل سکی اور اب وہ وہاں کے نئے صدرکے ٹیلیفون کے انتظار میں بلاوجہ مضطرب اور پریشان ہوئے جا رہے ہیں۔
اِس سے پہلے اُنہیں بھارت کے صدر نریندر مودی سے بھی یہ شکوہ کیا تھا کہ وہ اُن کے ٹیلیفون کا جواب نہیں دے رہا۔ وزیراعظم عمران دراصل پہلی پہلی بار کسی ملک کے سربراہ بنے ہیں اُنہیں دوسرے ممالک سے کچھ زیادہ ہی آس و اُمید تھی کہ وہ اُنہیں دل و جان سے قبول کریں گے اور اُن سے محبت اور دوستی کے روابط استوارکرنے میں فخر محسوس کرتے ہوئے اُن کے راہ میں خوب نظریں بچھائیں گے۔
اُنہیں یہ معلوم نہ تھا کہ چاہے امریکا ہو یا یورپ کا کوئی اور ملک یا عرب دنیا کا کوئی اسلامی ملک سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور وہ ہم جیسے غلام اور محتاج ملک کے ساتھ اُسی وقت تعلقات استوار کرتے ہیں جب اُن کی کوئی ضرورت اور مجبوری اُنہیں اس بات پر مجبورکرتی ہے کہ وہ ہم سے اچھے تعلقات اور مراسم پیداکریں۔ ورنہ اُن کا ہم سے بے اعتناء اور دور رہنا ہی اُن کے لیے راحت جاں ہوتا ہے۔ ہم نے بھی تو حد کردی ہے کہ ہمارا کوئی وزیراعظم بھی ایسا نہیں ہوا ہے جس نے اِن تعلقات کی آڑ میں اپنے مالی تقاضے اُن کے سامنے نہ رکھے ہوں۔
ہم لاکھ دعویٰ کریں کہ ہم ایک خود دار اور خود مختار قوم ہیں لیکن دنیا اچھی طرح جان گئی ہے کہ ہم ہمیشہ کشکول اور کاسہ گدائی لے کر گھومتے رہتے ہیں۔ جہاں کسی سربراہ مملکت نے ہم سے اچھی طرح بات کر لی ہم نے فوراً اُس سے قرضہ حسنہ مانگ لیا۔ شروع شروع میں وزیراعظم عمران خان جب سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے تو وہاں کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دوستانہ رویہ کا فائدہ اُٹھا کر چھ ارب ڈالر مانگ لیے اور یہ رقم مل جانے پر اتنے خوش و خرم ہوئے کہ فوراً ہی اِسے اپنی کامیابی سمجھ کر فخریہ انداز میں قوم کے گوش گذار بھی کردی۔
حالانکہ جس وزیراعظم نے پہلے اپنی قوم سے یہ کہا ہو کہ میں خودکشی کرلوں گا لیکن کسی سے امداد اور قرض نہیں مانگوں گا اُسے کم از کم اپنی اِس بات کا پاس رکھتے ہوئے سعودی عرب سے مل جانے والے اِس قرض کو شرمندگی اور ندامت کے ساتھ قبول کرنا چاہیے تھا۔ پرانے حکمرانوں کے قرض لینے پر اعتراض کرنے والی موجودہ حکومت نے دوسرے ملکوں سے قرض لینے میں خود سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ یہ تو اب آنے والی حکومت ہی بتائے گی کہ موجودہ دور میں جتنے قرض لیے گئے پاکستان کی ستر سالا تاریخ میں کبھی نہیں لیے گئے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کی کامیابی کو امریکا کی خوشنودی سے جوڑ دیا ہے۔ امریکا ہم سے ناراض اورخفا ہو تو ہماری خارجہ پالیسی ناکام و نامراد کہلاتی ہے اوراگر اتفاق سے امریکاکی اپنی مجبوریاں ہم سے دوستی اور محبت کا رشتہ قائم کرنا چاہیں تو ہم اِسے اپنی خارجہ پالیسی کی زبردست کامیابی شمار کرنے لگتے ہیں۔ نوازشریف کی حکومت کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اُن کی کوئی خارجہ پالیسی ہی نہ تھی بلکہ چار سال تک اُنہیں کوئی وزیر خارجہ بھی نہ مل سکا۔ حالانکہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں خارجہ پالیسی کے اُصول اور نکات کا تعین کرنا کن قوتوں کے پاس ہے۔
اُن کی مرضی و منشاء کے خلاف کوئی سول اور جمہوری حکمراں بیرونی دنیا سے دوستانہ تعلقات کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پھر وزیر خارجہ کا ہونا اور نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ میاں نواز شریف نے جب اپنے دوسرے دور اقتدار میں بل کلنٹن کی مرضی کے خلاف نیوکلیئر ٹیسٹ کر ڈالے تو اُسی وقت اُن کا پروانہ لکھ دیا جا چکا تھا۔ 12اکتوبر 1999 کا سارا واقعہ دراصل ایک طے شدہ کارروائی تھی۔
میاں صاحب اگر پرویز مشرف کو اُن کے سری لنکا کے دورے کے دوران فارغ نہ بھی کرتے تو بھی واپسی پر میاں صاحب کی حکومت کا تختہ گول کر دیا جانا تھا۔ میاں نوازشریف کو سزا دینے کا فیصلہ تحریر کیا جا چکا تھا۔ اپنے تیسرے دور اقتدار میں بھی میاں صاحب نے وہی غلطی دہرائی اور چین کے ساتھ اپنے معاملات استوارکرنے لگے۔ سی پیک کا منصوبہ دنیا میں کس ملک کو سب سے زیادہ ناگوار ہے یہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں مگر اس کے باوجود میاں صاحب اُس منصوبے پر تیزی کے ساتھ کام کرنے لگے لہٰذااُن کا ایک بار پھر اپنے عہدے سے فارغ کیا جانا لازمی تو بنتا تھا۔
جس خارجہ پالیسی کے گن ہماری یہ حکومت چند مہینے پہلے تک بڑے زور وشور کے ساتھ گنگنا رہی تھی وہ پالیسی آج کس مقام پر کھڑی ہے خود وزیر خارجہ یہ بتانے سے گریزاں ہے۔ کیا ہم اپنی اِس خارجہ پالیسی کو کامیاب وکامران قرار دے سکتے ہیں جس میں جوبائیڈن ہماری کئی مرتبہ کی استدعاکے باوجود ایک ٹیلیفون کرنے کے روادار نہیں ہیں اور تو اور یو این او کے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی ہمیں دعوت نامہ تک نہیں بھیجا گیا جب کہ افغان وفد کو خصوصی طور مدعو کیا گیا۔
ہم سمجھ رہے تھے کہ افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد وہاں نئی حکومت کے قیام میں دنیا کو ہماری ضرورت محسوس ہوگی مگر ہماری یہ ساری خوش فہمی دھری کی دھری رہ گئی اور ہم اب ایک انتہائی سفارتی تنہائی کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ہم کس طرح اپنی اہمیت اور حیثیت اجاگر کریں کہ افغانستان میں ایک مضبوط اورپائیدار حکومت کے قیام میں دنیا کو ہماری مدد کی یقینا ضرورت ہے۔ فی الحال ہمیں الگ تھلگ کر دیا گیا ہے۔
موجودہ حکومت کے ہنی مون کے دن اب ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ یہ ہنی مون پیریڈ باقی تمام سابقہ حکومتوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی عرصہ پر محیط تھا لیکن بہر حال اب یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہمیں اپنی حیثیت منوانے کے لیے پہلے اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ہم اپنے مخصوص جغرافیائی محل وقوع کا ذکر ہم بہت کرچکے۔ معاشی و اقتصادی طور پر جب تک ہم اپنے آپ کو مضبوط نہیں کرتے دنیا ہماری بات پر توجہ نہیں دے گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بھارت کا جغرافیہ کوئی اتنا اہم بھی نہیں ہے جتنا ہمارا ہے لیکن دنیا پھر بھی اُسے ہم سے زیادہ اہمیت دیتی ہے۔
عالمی طاقتوں کے علاوہ ہمارے اسلامی دوست ممالک بھی ہمارے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمیں اب ایک مستقل پالیسی اختیارکرنا ہوگی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم کبھی چین اور روس کے ساتھ دوستی کوششیں بھی کرتے رہیں لیکن امریکی صدر کے ایک فون کے انتظار میں بے چین اور پریشان بھی دکھائی دیں۔ کوئی اگر ہمیں نظر اندازکر رہا ہے تو ہمیں بھی اُس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ بہت دیر ہوچکی ہمیں اب ایک خود دار اور خود مختار قوم کے طور پر اپنی شناخت بنانا ہوگی۔