ڈھائی سال ہوگئے یہ سنتے سنتے کہ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ چاہے میری حکومت رہے یانہ رہے لیکن میں کسی کو این آراو نہیں دونگا، چوروں اور ڈاکوؤں کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا، ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا، مہنگائی کی ذمے دارمافیاکو نہیں چھوڑوں گا۔
جنوری سے اب تک تقریباً دس ماہ ہوچکے ہیں ہمارے حکمران آٹے اور چینی کے بحرانوں پر سات دفعہ یہ کہہ چکے ہیں کہ اب میں سخت ایکشن لینے والا ہوں، میراایسے لوگوں کے خلاف سخت ری ایکشن ہوگا۔ وہ اِس سے پہلے دوسال تک اپنی اپوزیشن کو بھی ڈراتے رہے ہیں لیکن ہم سب نے دیکھاکہ اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ چند لوگوں کو جیل میں ڈال کروہ بظاہراپنے آپ کو مطمئن تو کرلیتے ہیں لیکن کسی ایک چور سے بھی وہ لوٹاہواپیسہ وصول نہیں کرپائے۔ ہاں البتہ عوام سے ٹیکسوں اورمہنگائی کی مد میں ضرور وصول کرلیاہے۔ جس عوام نے اُنہیں تبدیلی لانے کی غرض سے منتخب کروایاتھاوہ اُنہی سے اپنے خزانے کے شارٹ فالز پورے کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
اِن دو برسوں میں ہمارے غریب لوگوں نے ایک ایک لمحہ اِس انتظار میں گزار لیاکہ اب شاید حالات بہتر ہوجائیں گے، مگر حالات بہترتو کیا ہوتے دن بدن خراب سے خراب تر ہی ہوتے چلے جارہے ہیں۔ عوام کی قربانیوں سے اگر ملک کی معیشت میں سدھارآرہاہوتاتوہمارے لوگ صبر کرتے ہوئے اِسے برداشت کرلیتے، لیکن اب عوام کا صبر کاپیمانہ بھی لبریزہوتاجارہاہے۔
حکومت نے برسراقتدارآتے ہی سب سے پہلے عوام میں یہ تاثر دیناشروع کیاکہ سابقہ حکومت نے معیشت کابیڑا غرق کردیااور ہماری معیشت آئی سی یومیں جاپہنچی ہے، ہم ڈیفالٹ کرنے والے تھے، مجبوراًہمیں دوست ممالک سے امداد کی درخواست کرنی پڑرہی ہے۔
ہمارے پاس دو ہی راستے تھے ہم یاتوآئی ایم ایف کی طرف چلے جاتے یاپھر دوست ملکوں سے امداد اور قرضے لے کر فارن ایکسچینج کے ذخائر میں اضافہ کرتے لہذاہم نے دوسرا راستہ اپنایا۔ لیکن حکومت نے ایک طرف تو دس سے بارہ ارب ڈالرز کے نئے قرضے لے لیے اورپھر دوسری طرف آئی ایم ایف بھی جاپہنچی۔ ہماری کمزوری اورمجبوریاں دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف نے بھی ہمیں چار سال کے لیے اپنے شکنجہ میں جکڑلینے کا پروگرام بنالیااور ہم پر ایسی ایسی کڑی شرطیں لگادیں کہ جس کاخمیازہ ہمارے لوگ اب بھگت رہے ہیں۔
سب سے پہلے ڈالر کو مہنگا کرکے یہ کہاگیاکہ اِس طرح ہم اپنی ایکسپورٹ بڑھائیں گے۔ پچھلی حکومت نے مصنوعی طریقے سے ڈالرکو قابو میں رکھاہواتھا۔ وہ کیا عجیب حکومت تھی جس نے چار پانچ سال تک ڈالر کو مصنوعی طریقے سے قابو میں بھی رکھااور ترقی وخوشحالی کے بڑے بڑے پروجیکٹ بھی لگائے، اگر کسی طرح موجودہ حکمرانوں کی اِس بات کو تسلیم بھی کرلیاجائے تو شاہد خاقان عباسی کی حکومت ختم ہونے کے بعدآئین ودستورکے مطابق تین ماہ کے لیے جو ایک عبوری سیٹ اپ بھی تشکیل دیاگیاتھا کیاوجہ ہے کہ اُس نے معیشت کی زبوں حالی کاایسا رونا نہیں رویاتھاجس طرح خان حکومت نے برسراقتدار آتے ہی شروع کردیاتھا۔
سوال یہ ہے کہ سابقہ حکومت نے معیشت کی تباہی کے باوجود کس طرح ملکی ترقی کی شرح نمود یعنی GDPمیں اضافہ بھی کیا، آئی ایم ایف سے چھٹکارا بھی حاصل کیااور موٹرویزسمیت انفرااسٹرکچر کے کئی بڑے منصوبے بھی مکمل کیے۔ اُس نے نہ صرف بجلی کے بحران پرکسی حد تک قابو پایابلکہ گیس اورتوانائی کے مسئلے بھی حل کیے۔ 2013ء میں وہ جب برسراقتدار آئے تو ہم سب جانتے ہیں کہ ملک بھر میں دہشت گردی کا کیسا راج تھا۔
اُس حکومت نے نہ صرف بم دھماکوں اور خود کش حملوں سے اِس قوم کی جان چھڑائی بلکہ کراچی شہر میں قتل وغارت گر ی اور بدامنی سے بھی بخوبی نمٹا۔ اُس سے پہلے یہ تصور کرنا بھی محال تھاکہ کراچی کے لوگوں کو اِس مصیبت سے کبھی چھٹکارا مل سکتا ہے۔ بات دراصل ہوتی ہے ارادوں اور نیتوں کی۔ جب ارادہ اور نیت ہی نہ ہوتوپھرکامیاب عملی صورت کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔ آج کورونا کی وجہ سے معاشی مشکلات کابہانہ تلاش کرنے والوں کو اگر 2013 والی صورت حال کاسامنا ہوتا تو نجانے وہ کیا کہتے پھرتے۔
مہنگائی کے حوالے سے حکومت کامؤقف ہے کہ یہ سب ایک مافیا کاکیا دھراہے۔ ذخیرہ اندوزاِس مہنگائی کے ذمے دار ہیں۔ سمجھ نہیں آتاکہ بجلی اورگیس کے نرخ کس مافیا نے بڑھائے ہیں، ڈالرکس نے مہنگا کیاہے، یوٹیلیٹی اسٹور کس کے قبضے میں ہیں، وہاں کیوں مہنگائی ہے۔
اول تو وہاں کھانے پینے کی ضروری اجناس دستیاب ہی نہیں ہیں اور اگر کچھ چیزیں مل بھی رہی ہیں تواُن کے دام بھی پہلے سے بہت زیادہ ہیں۔ چینی اور آٹے کے بحرانوں پر جو تحقیقات کی گئیں اورجس کاکریڈٹ ہمارے وزراء روزانہ لیتے رہے ہیں اُس کا کیابنا۔ آج تک کون سا مجرم پکڑاگیا۔ چینی ایکسپورٹ کرکے اُس کی قلت پیداکرنے والوں کو کیا سزا دی گئی۔ گندم کی پیداوارمیں گذشتہ بیس سالوں سے ہمارا ملک خودکفیل تھا۔ آج وہ بھی ہمیں امپورٹ کرنی پڑرہی ہے۔ اِن سب باتوں کا ذمے دار ہم سابقہ حکمرانوں کو کیسے قرار دے سکتے ہیں۔
مہنگائی کا پتالگانے کاکام اب ٹائیگر فورس کے حوالے کردیاگیا ہے۔ کیاملکی مسائل اس طرح حل کیے جاتے ہیں۔ آج کیاہوا ہے کہ ہماری معیشت بنگلہ دیش سے بھی گئی گذری ہوچکی ہے۔ ہمارا روپیہ ذلیل وخوار ہورہا ہے۔ وہ پچیس تیس سال سے خانہ جنگی اور دہشت گردی کاشکار ہونے والے ملک افغانستان سے بھی سستا ہوچکا ہے۔ خداراخوف کیجیے، ہم اپنی قوم کو کس طرف لے جا رہے ہیں۔ کب تک طفل تسلیوں اور جھوٹے وعدوں سے کام چلتا رہے گا۔ ہرسال یہ کہاجاتا ہے کہ مشکلات کادور گذر چکااب قوم خوشحالی کی خبریں سنیں گی۔
پھر کوئی نیا بہانہ تراش لیاجاتا ہے۔ 2020 سارا اِسی انتظار میں گذر گیا کہ حالات اب اچھے ہوئے کہ تب ہوئے۔ بات اگر یہیں تک رک جاتی تو بھی اچھا تھالیکن 2020 تو قوم پرعذاب بن کرنازل ہوا ہے۔ ایک طرف مہنگائی اور گرانی نے سابقہ سارے ریکارڈ توڑ دیے تو دوسری طرف سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ سالانہ بجٹ میں ہمارے یہاں ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ حکومت کم ازکم تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ ضرور کیاکرتی تھی، لیکن یہ پہلا سال ہے کہ حکومت نے ایک پیسے کااضافہ بھی نہیں کیا اوراُلٹا مہنگائی دگنی اور تگنی کرڈالی۔ قوم آج انتہائی مشکلات سے دوچار ہے۔ وہ غربت اور مفلسی سے تنگ آکر اب سڑکوں پر نکلنے پر مجبوردکھائی دیتی ہے۔
اپوزیشن کی تحریک میں وہ اگر شامل ہورہی ہے تو اُس کی بھی وجہ یہی ہے۔ غربت سے مارے لوگ اب جائیں توکہاں جائیں۔ وہ یاتو خودکشی کرلیں یا پھر حکمرانوں کومجبور کردیں کہ وہ اُن کے ریلیف کا سامان پیداکرے۔ اگر حالات جلد ٹھیک نہ ہوئے تو یاد رکھاجائے کہ عوام کے سیلاب کے آگے مضبوط سے مضبوط حکومت بھی ٹھہر نہیں سکتی۔ جس سونامی کی دھمکیاں ہمارے خان صاحب سابقہ حکمرانوں کو دیا کرتے تھے وہ سونامی آج بھی موجود ہے۔