پی ٹی آئی کی حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے کوئی کام بھی سوچ سمجھ کر اور باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے نہیں کیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی طور پر نابلد لوگوں کو اسلام آباد میں لاکر بٹھا دیا گیا ہے جنھیں اس سے پہلے حکومت کرنے کا کوئی تجربہ بھی نہیں تھا اور جنھیں شاید اس طرح برسر اقتدار آنے کی کوئی توقع اور اُمید بھی نہ تھی۔
خود وزیراعظم صاحب جوش خطابت میں یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ ہمیں پتا نہیں تھا کہ حکومت کرنے میں کتنی دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے، ہماری تو تیاری ہی نہ تھی۔ اچھا ہوا ہمیں 2013 میں حکومت نہیں ملی۔ شروع شروع میں تو پہ در پہ غلطیاں اورکوتاہیاں کی گئیں۔ معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لیے صرف بیان بازی سے کام لیا گیا اورعوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ سابقہ حکومت کی غلط کاریوں کی وجہ سے ہمیں معاشی بحران کا سامنا ہے۔ پہلے قرض اور امداد نہ لینے کے اپنے وعدے اور دعوے کو نبھانے کی خاطر کسی ملک کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے گریزکیا گیا۔
پھر سعودی عرب، یو اے ای اور برادر دوست ملک چین کی بھرپور امداد کے باوجود آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے اور ملک کو بے تحاشا مشکلوں میں پھنسا گئے۔ پچھلی حکومت کو الزام دیتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچا کہ مسلم لیگ نون کی حکومت ختم ہونے کے بعد دو ماہ کے لیے ایک عارضی نگراں حکومت بھی برسر اقتدار آئی تھی جس نے ورثہ میں ملنے والی معیشت کی تباہی کی ایسی خوفناک تصویر کشی نہیں کی تھی جیسی ہماری یہ حکومت اب تک کررہی ہے۔
تین سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے، حکومت سے اپنے مالی معاملات اب تک سدھر نہیں رہے۔ ایک وزیر خزانہ کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا اور اب چوتھا بھی لگا دیاگیا ہے، لیکن حالات ہیں کہ ابتر ہی ہوتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی، ڈالر اور مالی خسارہ سبھی کچھ بے قابو ہوتا جا رہا ہے۔ مافیا، مافیا کا نام سنتے سنتے لوگوں کے کام پک چکے ہیں۔ چینی، آٹے اور ادویات کے بحرانوں کا ذمے دار مافیاز کو ٹہرا دیا گیا لیکن وزیراعظم یہ بتانے سے قطعاً گریزاں ہیں کہ ڈالر کی اونچی اڑان کس مافیا کی وجہ سے ہے۔
یہ پیٹرول اور گیس کے نرخ کونسا مافیا بڑھا رہا ہے۔ قوم کو یوٹیلیٹی اسٹورکی شکل میں راشن کارڈ والے زمانے میں دھکیل دیا گیا ہے۔ راشن کارڈ والے زمانے میں کم از کم ہر خاندان کو ہر ماہ ایک مخصوص مقدار میں آٹا، چینی، گھی اور چاول تو مل جایا کرتے تھے، لیکن یوٹیلٹی اسٹور میں تو کوئی چیز ہی دستیاب نہیں ہے۔ چینی کے بحران کا پتا لگانے کے لیے جو تحقیقات کی گئیں تھیں اُس کا انجام کیا ہوااور کتنے لوگوں کو سزائیں دی گئیں کسی کو پتا نہیں۔ خاموشی اس بات کی غماز ہے کہ یہ بحران کسی مافیا کا نہیں بلکہ خود حکومت کا پیداکردہ تھا۔
شوکت ترین مشیر خزانہ کا منصب سنبھالنے سے پہلے ایسے ایسے بیانات دے رہے تھے جیسے اُن کے مشوروں پر عمل کرنے سے ملک اس معاشی بحران سے نکل کر ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ ڈالر مہنگا ہونے کو وہ حکومت کی نالائقی اور نااہلی تصور کیا کرتے تھے اور وزارت مل جانے کے بعد فرماتے ہیں کہ 170کا ڈالر ہونا ہمارا ہدف اور ٹارگٹ ہی تھا۔ مہنگائی کے بارے میں بھی وہ ارشاد فرماتے ہیں یہ مہنگائی تو کچھ بھی نہیں ہے جو باقی دنیا میں ہے۔ امیر ملکوں سے موازنہ کرتے ہوئے وہ یہ نہیں بتاتے کہ وہاں فی کس آمدنی کیا ہے اور ہمارے یہاں کیا ہے۔
بجلی اور گیس کے نرخ ہر دو تین ماہ بعد چپ چاپ بڑھا دیے جاتے ہیں۔ کہنے کو حکومت یہ کہتی ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا ہے، لیکن اندرون خانہ وہ اُس کی ہر شرط پوری کرتی جارہی ہے۔
سالانہ بجٹ پیش کرتے ہوئے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ہم نے عوام کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ٹیکس فری بجٹ پیش کیا ہے، لیکن دوسرے ہی ماہ سے ہر چیز مہنگی کرکے قوم کے ساتھ بدترین مذاق بھی کیا جاتاہے۔ ایل این جی کے سودے بروقت نہ کرکے حکومت نے مہنگی ایل این جی خرید کر سارا ملبہ اور اضافی بوجھ عوام کے سروں پر ڈال دیا ہے۔ اس مہنگی ایل این جی خریدنے کا خمیازہ ہماری قوم اب مہنگی بجلی اور مہنگی گیس کی صورت میں اگلے کئی سالوں تک بھگتتی رہے گی۔ حکومت کا کوئی ترجمان یہ بتانے سے انکاری ہے کہ اس نااہلی اور نالائقی کے پیچھے کون سا مافیا کار فرما ہے۔ کیا یہ بھی سابقہ حکومت کی کار گذاری ہے یا پھر چینی اور آٹے والے مافیاز کی۔
معاملہ ای وی ایم کاہو یا پھر چیئرمین نیب کے انتخاب کا۔ ہر معاملہ میں حکومت اور اُس کے وزیر محاذ آرائی پر اتر آتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سربراہ کے خلاف ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مخالفانہ مہم چلائی جارہی ہے، تاکہ اگر فنڈ ریزنگ کا کوئی فیصلہ حکمرانوں کے خلاف آئے تو قوم کو یہ باور کیا جاسکے کہ ہم تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ الیکشن کمشنر بدنیت اور جانبدار ہے، وہ مسلم لیگ نون کا دوست اور ہمارا مخالف ہے۔
اسی طرح چیئرمین نیب کو یہ حکومت ہٹانا بھی چاہتی ہے لیکن دوسرا چیئرمین منتخب کرنے کے لیے قائد حزب اختلاف سے مشورے کی لازمی آئینی پابندی سے بچنے کے لیے وہ ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے موجودہ چیئرمین کی مدت ملازمت بڑھانے کی تجویز پر بھی غورو فکر کر رہی ہے، لیکن شاید اُسے پتا نہیں ہے کہ دونوں صورتوں میں آئین و قانون سے متصادم فیصلہ ہر صورت میں چیلنج ہوگا اور پھر معاملہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر منحصر ہوگا جس کے بعد یقینا حکومت کو ایک بار پھر سبکی اُٹھانا پڑے گی۔
قائد حزب اختلاف سے مشورہ نہ کرنے کی جو توجیح ہمارے وزراء پیش کررہے ہیں وہ شاید اس لیے بھی مدلل اور با وزن نہیں ہے کہ قائد حزب اختلاف کے خلاف بنائے جانے والے سارے مقدمے موجودہ حکومت اور اُس کے زیر اثر نیب کے بنائے ہوئے ہیں جو ابھی تک عدل و انصاف کی چھلنیوں سے گذارے بھی نہیں گئے ہیں اور ایسے مقدمات تو کسی کے خلاف بھی بنائے جاسکتے ہیں۔ آج کے وزیراعظم ہوسکتا ہے کل نئی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہوں گے اور اُن کے خلاف بھی نئی حکومت مقدمات بناکر انھیں اس آئینی استحقاق سے محروم کرسکتی ہے۔ اس لیے ایسا کام کرنے سے پہلے مستقبل کے امکانات پر بھی غورکر لیا جائے تو بہتر ہے۔
حکومت ناسمجھی اور بلاوجہ کی دشمنی میں اپنی طاقت اور توانائی مسلسل ضایع کررہی ہے۔ کبھی اپوزیشن کے خلاف اور کبھی الیکشن کمشنر کے خلاف۔ اُسے عوام کی بہتری اور خوشحالی کے لیے جو کام کرنے ہیں اُس پر اُس کی کوئی توجہ نہیں ہے۔