ہماری ستر بہتر سالہ تاریخ میں ملکی حالات اگر سب سے زیادہ خراب رہے ہیں، تو وہ 1971ء کے اواخر میں تھے، جب ہمارا وطن عزیز بین الاقوامی سازش کے تحت دولخت کردیا گیا اور اِسے دولخت کرنے والا بھی کوئی اور نہیں ہمارا ازلی دشمن بھارت تھا۔
ہمارے لیے یہ لمحات انتہائی ذلت آمیز اور افسوس ناک تھے جب ہمارے ایک جرنیل نے بھارتی فوج کے مشرقی پاکستان میں لڑنے والے گروہ کے سربراہ جنرل اروڑا کے سامنے باقاعدہ ایک تقریب میں ہتھیار ڈالے۔ ہماری اُس وقت کی حکومت اور اُس کے سربراہ جنرل یحییٰ کے بیانوں کے مطابق اُس واقعہ سے ایک دن پہلے تک ہم اِس شکست کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔
ہمیں جنرل یحییٰ کی وہ تاریخی تقریر آج بھی یاد ہے جس میں انھوں نے 15دسمبر کی شام کو اپنے خون کے آخری قطرے تک جنگ لڑنے کا اعادہ کیا تھا، مگر نجانے پھر دوسرے دن صبح اچانک یہ جنگ ہار گئے۔ وطن عزیزکے دولخت ہو جانے کے اصل اسباب و محرکات ابھی تک قوم کو نہیں بتائے گئے۔ قوم کی اتنی بڑی تذلیل کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کا کمیشن تو ضرور قائم کیاگیا لیکن اُس کی رپورٹ آج تک قوم کے سامنے نہیں لائی گئی۔
دسمبر1971ء کی شام کو بچے کچے پاکستان کی باگ دوڑ ذوالفقار علی بھٹوکے حصے میں آئی جنہوں نے ایک غم زدہ اور مایوس قوم کو پھر سے ایک نئے ولولے اور جذبے کے ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ ہماری قوم اُس وقت مکمل طور پر ڈی مورالائزڈ ہو چکی تھی۔ ہر محب وطن شخص کا دل اُس وقت خون کے آنسو رو رہا تھا۔ قوم کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ باقی دنیا کے سامنے کس منہ سے کھڑی ہوسکے، لیکن بھٹو صاحب نے ایک انقلابی رہنما کے طور پر قوم کو نہ صرف حوصلہ اور دلاسہ دیا بلکہ فوری طور پر بڑے بڑے فیصلے کرکے اِس ملک و قوم کو روشن مستقبل کی ایک کرن دکھائی۔ 1972ء کے ملکی حالات 2018ء کے اُن حالات کی نسبت بہت ابتر اور شکستہ تھے جو ہمارے موجودہ حکمراں جناب عمران خان کے حصے میں آئے۔
اس وقت کے حالات اور آج کے حالات کا ویسے توکوئی موازنہ ہی نہیں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے حالات کی خستہ حالی کا اتنا رونا نہیں رویا تھا جتنا ہمارے موجودہ حکمراں روتے رہے ہیں۔ 2018ء میں ورثہ میں ملنے والے حالات 1972ء میں بھٹو صاحب کو ملنے والے حالات سے بہت بہتر تھے۔
خان صاحب کو بقول انھیں صرف ملکی خزانہ خالی ملا تھا، جب کہ بھٹو صاحب کو تو ٹوٹا ہوا پاکستان ملا تھا۔ ایسا پاکستان جو ایک سالہ خانہ جنگی کا شکار رہنے کے بعد اپنے ازلی دشمن بھارت کے ہاتھوں شکست ِ فاش سے دوچار ہوا تھا۔ ملک معاشی طور پر تباہ ہوچکا تھا۔ قوم مایوسیوں اور نا اُمیدیوں کے اندھیروں میں غرق تھی۔ لوگوں کے سامنے کوئی راہ اور منزل متعین نہیں تھی۔ غم اور صدمے سے دوچار سارے پاکستانی دنیا کے سامنے منہ چھپاتے پھر رہے تھے۔
ایسے میں بھٹو صاحب نے ایک جرأت مندانہ موقف اور طرز عمل اختیار کرتے ہوئے بہت ہی مختصر عرصے میں قوم کو پھر سے ترقی وخوشحالی کی راہ پرگامزن کر دیا۔ صرف ایک ڈیڑھ سال میں اپنے نظریہ اور منشور کے مطابق عمل کرتے ہوئے بہت سارے انقلابی اقدامات کر ڈالے اور آئین و دستور سے محروم اِس قوم کو ایک ایسا آئین بنا کے دیدیا جو اللہ کے فضل وکرم سے آج بھی رائج اور قائم ہے۔ سارے اسلامی ممالک کو اپنے یہاں بلاکر اور اسلامی کانفرنس کا انعقاد کرکے خود کو اُن کا لیڈر ثابت بھی کردیا۔
تیسری دنیا کے غریب اور نادار ملکوں کو عزت و وقار سے رہنے کے اُصول اورطریقے بتائے اورسکھائے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی سامراجی اور استعماری قوتیں اُن کے اِس انداز اور اسٹائل سے خوفزدہ ہونے لگیں، وہ غریب اور نادار قوموں کے لیڈرکے طور پر ابھرکر سامنے آنے لگے تھے۔
اُن کی شخصیت بہت سی خصوصیات سے مالامال تھی۔ ہماری ستر سالہ تاریخ میں اُن جیسا کوئی دوسرا لیڈر آج تک پیدا نہیں ہوا۔ انتہائی کٹھن اور مشکل حالات کے باوجود انھوں نے ملک کو ایٹمی قوت بنانے کا نہ صرف تہیہ کیا بلکہ فوری طور پر اُس اہم مشن پرکام بھی شروع کر دیا۔ پاکستان اسٹیل ملز سمیت بہت سے ادارے قائم کیے اور ثابت کر دیا کہ وہ واقعی ایک عظیم لیڈر ہیں۔ ملک ٹوٹ جانے کے بعد اتنے سارے انقلابی اقدامات کوئی چھوٹا موٹا لیڈر ہرگز نہیں کرسکتا تھا۔ یہ بھٹو صاحب کی ولولہ انگیز قیادت ہی تھی کہ مایوس اور نا اُمید قوم ایک بار پھر دنیا کی دوسری قوموں کے ساتھ عزت و وقارکے ساتھ زندگی گزارنے لگی۔ انھوں نے دولخت ہو جانے والے ملک کو پھر سے مضبوط اور مستحکم کیا اور اُسے نئے پاکستان کا نام دیا تھا تو وہ یہ کہنے میں یقینا حق بجانب بھی تھے۔
شومئی قسمت سے عمران خان کو بھٹو والے حالات نہیں ملے ہیں۔ انھیں صرف ایک معاشی بحران کا سامنا ہے لیکن انھوں نے سال بھر اِسی رونے دھونے میں گزار دیا۔ تعمیر و ترقی کے نئے منصوبے توکجا انھوں نے پہلے سے جاری منصوبوں کو بھی روک دیا۔ اِس وقت ملک میں کوئی نیا منصوبہ ترتیب اور تجویز نہیں کیا جا رہا۔ گوادر پورٹ پر بھی کام تاخیرکا شکار ہو گیا ہے۔ سی پیک منصوبوں میں وہ سرگرمی اور تیزی بھی دکھائی نہیں دے رہی جو میاں نوازشریف کے دور میں دکھائی دے رہی تھی۔ لاہور کی اورنج ٹرین کا منصوبہ بھی دانستہ وغیر دانستہ سست روی کا شکار کر دیا گیا ہے۔ پشاور میٹرو بس سروس کا اپنا منصوبہ بھی ابھی تک مکمل نہیں ہو پایا ہے۔ پی آئی اے اور اسٹیل ملزکے معاملات بھی سرد خانے کی نذر ہوچکے ہیں۔
بجلی بنانے اور توانائی کے کسی نئے منصوبے کی کوئی بنیاد نہیں رکھی جا رہی۔ لگتا ہے حکومت کی ساری توجہ صرف اور صرف اپوزیشن کو دیوار سے لگانے پر مرکوز ہے۔ احتساب کے نام پر صرف اپوزیشن کے ارکان کا حساب کتاب ہو رہا ہے۔ انھیں جھوٹے سچے مقدموں میں الجھائے رکھنے پرکام ہو رہا ہے۔ حکومت اِسی ایک کام پر مسحور اور شادمان نظر آرہی ہے کہ اُس نے نیب کی مدد سے تمام بولنے اور تنقید کرنے والے ارکان اسمبلی کو قید میں ڈال رکھا ہے۔
وہ چاہتی ہے کہ پارلیمنٹ میں کوئی اُسے چیلنج نہ کرسکے۔ اِس کے علاوہ اُس کے پیش نظرکوئی کام نہیں ہے۔ وہ اِسے تبدیلی اور نئے پاکستان کا نام دے رہے ہیں۔ ایسا نیا پاکستان جس میں احتساب کے نام پر 90دنوں کے لیے کسی بھی شخص کو نیب گرفتار اور نظر بند کرسکتی ہے خواہ اُس نے کوئی جرم کیا ہو یا نہیں۔ جب کہ وہی ملزم اگر اپنی موجودہ سیاسی پارٹی سے کنارہ کش ہوکر حکمراں ٹولے میں شامل ہو جائے تو وہ فوراً ہی صادق اور امین ہونے کی عظمتوں اور رفعتوں کو چھونے لگے گا۔
حکومت احتساب کرنے میں واقعی اگر سنجیدہ ہوتی تو سب سے پہلے اُن لوگوں کو پکڑتی جو اربوں روپے کے قرضے لے کر خود کو کنگال اور قلاش ظاہر کرکے معاف کروائے بیٹھے ہیں اور جن کا پتہ لگانا بھی کوئی مشکل نہیں ہے، اسٹیٹ بینک کے پاس اُن سب کے نام اور تمام تفصیلات موجود ہیں۔ بس یہ کام کرنے کے لیے نیک نیتی اور غیر جانبداری درکار ہے جو شاید ابھی تک خان صاحب کے اندر پیدا نہیں ہو پائی ہے۔ اِن قرض خواہوں میں بہت سے لوگ آج حکمراں پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خان ان لوگوں پر ہاتھ ڈالنے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ انھیں پکڑا نہ جاسکے۔
زرداری یا نوازشریف پرکرپشن ثابت کرنے میں تو انھیں بے تحاشہ مشکلات کا سامنا ہے لیکن قرضے معاف کروانے والے تو اُن کی نظروں کے سامنے گھوم پھر رہے ہیں اور جن کی تفصیلات اور سارے ثبوت ہماری قومی بینک کے پاس بھی موجود ہیں اور جن کی صحت وصداقت سے کوئی انکار بھی نہیں کرسکتا، لیکن کیا وجہ ہے کہ خان صاحب کی توجہ اِس جانب جاتی ہی نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ خان صاحب کو پتہ نہیں ہے۔ وہ سب کچھ جانتے بوجھتے اِس طرف توجہ سے اگر نظریں چرا رہے ہیں تو ہم بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ وہ بے لاگ اور بلا امتیاز احتساب کے معاملے میں کتنے مخلص اور سنجیدہ ہیں۔