جس دیس میں اچھے اور برے کی کوئی تمیز ہی نہ ہو، لائق اورنالائق کاکوئی فر ق ہی نہ ہو۔ عدل و انصاف کے کوئی مستند اوریکساں پیمانے ہی نہ ہوں۔ جہاں جھوٹ او ر مکروفریب اورحق بات اور سچ میں کوئی فرق نہ ہو وہاں حالات کبھی نہیں سدھر سکتے۔ ہماری قوم جوستر سالوں سے یہی دہائی دیتی آئی ہو کہ یہ ملک ہمیشہ سے غیروں کا محتاج اورغلام بناہوا ہے کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوپایا ہو۔
جہاں مقامی گماشتوں کی کارگزاری کی وجہ سے زوال وانحطاط کاتاریک دور کبھی ختم ہی نہ ہوپائے۔ جہاں ایک بحران کے ٹلنے سے پہلے خود اپنے ہاتھوں سے دوسرابحران کھڑا کردیا جائے اور جہاں کسی بھی روشن خیال اور ترقی پسند حکمراں کو کام کرنے ہی نہیں دیاجائے وہاں کبھی بھی خوشحالی نہیں آسکتی۔ یہی اِس ملک کا سانحہ بھی ہے اور المیہ بھی۔ ستر سالوں سے یہی ہوتا آیاہے۔ جس جس نے اِس ملک وقوم کے لیے کوئی کام کرنا چاہااُسے اول توراستے سے ہٹادیاگیا اورمزید بس چلاتونشان عبرت بھی بنا دیا گیا اور جس جس نے نالائقی اور نااہلی کے ریکارڈ قائم کیے وہی سب سے زیادہ عزیز اور معتبر سمجھے گئے۔
محمد خان جونیجو کا بھی یہی قصور تھا، اُسے وزارت عظمیٰ کے منصب پہ فائز ہونے سے پہلے بہت کم لوگ جانا اورپہچانا کرتے تھے، وہ انتہائی نیک، سادہ اور شریف النفس شخص تھے۔ کرپشن اورمالی بدعنوانی سے ناواقف اوروضع داری کابہترین نمونہ تھے، لیکن جب وہ بھی نہ چل سکے تو پھرمیاں نوازشریف کیسے چل سکتا تھا۔ جونیجونے تو صرف ایک چھوٹی سے بغاوت اورسرتابی کی تھی اورجنیوامعاہدہ میں اپنی طرف سے ایک چھوٹی سی تجویز پیش کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
پھرکیاہوا چائنا کے دورے سے واپسی پرفوراً اپنے گھر بجھوا دیے گئے، انھوں نے وہ تجویز اِس ملک اورقوم کے مفاد میں پیش کی تھی۔ لیکن وطن سے زیادہ غیر ملکی آقاؤں کے حکم حق میں فیصلہ کرنے والوں نے انھیں اُس دن کے بعد ایک دن بھی برداشت نہیں کیا۔ مگر افسوس کہ پھر کیاہواوہ خود بھی قائم ودائم نہیں رہ سکے۔ جن کے حکم پر انھوں نے محترم جونیجو صاحب کوزبردستی محروم اقتدار کیاتھا، ان ہی قوتوں نے صرف تین ماہ بعد اُن کاکام بھی تمام کردیا۔ دیکھنے اورسمجھنے والوں کے لیے اِس میں بھی بہت سے سبق ہیں۔ یہ سلسلہ اُس کے بعد بھی چلتا رہا اور ہنوز چل رہاہے۔
میاں نواز شریف کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ و ہ جب جب برسراقتدار آئے انھوں نے تعمیر وترقی کے اپنے وژن کو آگے بڑھایا۔ اُن کایہی انداز اور اسلوب طاقت واختیار کی حامل قوتوں کو شاید نہیں بھایا۔ 2017ء میں میاں صاحب اپنی کارکردگی کی وجہ سے ناقابل شکست تصورکیے جانے لگے تھے۔
تمام تجزئیے اور سروے یہی عندیہ دینے لگے تھے کہ جس طرح انھوں نے اپنے آخری چار سالوں میں ملک سے دہشت گردی اورخود کش حملوں کاخاتمہ کرڈالاہے، کراچی میں 25سالوں سے رائج انارکی اورلاقانونیت کی بیخ کنی کی ہے، ملک بھر سے لوڈ شیڈنگ کاخاتمہ کرڈالاہے، توانائی اور گیس کے بحران کوبھی بڑی حد تک ختم کرڈالا ہے، سارے ملک میں ایک نیا انفرااسٹرکچر بچھاڈالا ہے، ہر طرف سڑکیں، شاہراہیں اورموٹرویز بناڈالی ہیں، تین شہروں میں میٹروبس سروس کااجراکرڈالا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اورنج ٹرین جیسے خواب کو تعبیر کی شکل دے ڈالی ہے اور سب سے بڑھ کر سی پیک جیسے عظیم منصوبے پر تیزی سے کام شروع کرڈالاہے۔
اب کوئی طاقت انھیں اگلا الیکشن جیتنے سے روک نہیں پائے گی، اُن کی یہی خوبی اُن کے لیے مصیبت بن گئی۔ اورپھر ایسا گورکھ دھندہ ترتیب دیاگیا کہ چند ماہ میں سارا نقشہ ہی بدل گیا۔ پانامااسکینڈل میں 480 افراد کے نام تھے، لیکن ان میں سے ایک ایسے شخص کو نشانہ گیاجس کانام بھی پاناما پیپزز میں شامل نہیں تھا۔ جن کے نام تھے، ان میں سے ابھی تک کسی ایک کا کیس بھی نہیں کھولا گیالیکن نواز شریف کو عبرت کانشان بنادیاگیا، یہ یقینا ہماری سیاسی تاریخ کے سیاہ بابوں میں ایک افسوسناک اضافہ ہی کہلائے گا۔
میاں نواز شریف قید وبند سے ڈرے نہیں۔ اگر وہ جیل سے ڈرتے تو کبھی لندن سے اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر واپس نہیں آتے۔ مگر یہاں آنے کے بعد بھی انھیں بے عزت اوربے توقیرکرنے کاسلسلہ نہیں تھم پایا جس نے انھیں مایوس اورنااُمید کردیا۔ قید تنہائی نے اُن کے دل ودماغ کوایسا مجروح کردیاکہ وہ اندر ہی اندرسے غم زدہ اوردل برداشتہ ہوکر بیمار پڑنے لگے۔
جس شخص نے خلوص دل سے اِس ملک کی کوئی خدمت کرنا چاہی ہواُس کے ساتھ ایسانامناسب رویہ دیکھ کر ہر شخص اِس ملک کی حالت پر کف افسوس نہ ملے توکیاکرے۔ میاں صاحب کے ساتھ ساتھ اُن کی بیٹی، داماد، بھائی، بھتیجوں، دوستوں اورساتھیوں کو بھی کئی کئی ماہ تک پابند سلاسل رکھا گیا۔ شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، حنیف عباسی، خواجہ سعدرفیق، خواجہ سلمان رفیق، راناثناء اللہ، احسن اقبال سمیت کئی اور سیاستدانوں اور بیوروکریٹس جیل گئے۔ ایسے میں میاں صاحب نے یہاں سے نکل جانے کا جو فیصلہ کیاوہ شاید ایک بہتر اورمناسب راستہ تھا، وہ اگر قید میں رہ کرسب کچھ برداشت بھی کرلیتے تو کوئی بعید نہ تھاکہ سزا پوری ہونے کے بعدانھیں کسی اورمقدمہ میں اگلے دس برسوں کے لیے پھر پس زندان کردیاجاتا۔
وہ اب لندن میں کم ازکم کھلی ہواؤں میں سانسیں تولے رہے ہیں۔ ڈپریشن اورٹینشن کی فضاسے باہر تو نکلے ہیں۔ میڈیکل سائنس کے مطابق ہماری بہت سے بیماریاں ڈپریشن اورٹینشن ہی کے سبب پیداہوتی ہیں۔ آج وہ پہلے سے زیادہ صحت مند دکھائی دے رہے ہیں تواِس میں شاید اِسی فیکٹر کاعمل دخل ہو۔ وہ آج لندن میں بیٹھے یہ سوچتے ضرور ہونگے کہ ملک کوقوم کے خدمت کا انھیں کیاصلہ دیاگیا۔ جس نے اِس ملک کوایٹمی قوت بنانا چاہا اُسے تختہ دار پرلٹکادیاگیااورجس نے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا، اُسے بدنام ورسوا کیا گیا۔
یہاں پرویزمشرف جیسے لوگوں سے کسی کوپوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ تمہارے پاس اتنی ساری دولت اورجائیداد کہاں سے آئی؟ جو چینی اورآٹے کا بحران پیدا کرکے قوم کی جیبوں پر اربوں روپے کاڈاکہ ڈال دے، اسے خاموشی سے بیرون ملک روانہ کردیاجائے۔ جہاں عدل وانصاف کے پیمانے ایسے ہوں وہاں کوئی کیوں اپناسر پھرسے پھنسائے۔ میاں نوازشریف اگرواپس نہیں آرہے تویہی اُن کے حق میں بہتر ہے۔ قوم کاغم کھانے کے بجائے اُس کی حالت سنوارنے کا فیصلہ خود قوم پر چھوڑدیاجائے، وہ اگر مزید ستر برس اِسی طرح گذارناچاہتی ہے توپھراُس کی مرضی۔