Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Qaum Mayoos Hoti Jarahi Hai

Qaum Mayoos Hoti Jarahi Hai

اِس قوم نے اپنے اچھے دنوں اور سہانے خوابوں کی تعبیر کے لیے خان صاحب آپکی تقریروں اور بیانوں پر اعتبار کرکے2018ء میں جو ووٹ دیا تھا، اُس ووٹ کاتقدس پامال ہوتا جارہا ہے۔ کاسہ لیسی اور دریوزہ گری کے دنوں سے باہر نکلنے کے لیے آپ کے خودی اور خوداری پر مبنی جو دلفریب اور دلنشیں بیانات سنے تھے وہ صرف بیانات ہی رہے حقیقت کا روپ نہ دھار سکے بلکہ آپ توپہلے والوں سے بھی زیادہ بے اعتبار اورکمزور نکلے۔ بہت جلد ہمت ہار کے ساری دنیا سے ادھار اور امداد مانگنے کھڑے ہوگئے۔ حالات بدلنے کے لیے یہ سودنوں کا ٹارگٹ عوام نے آپ کو نہیں دیا تھا۔ آپ نے خود ہی اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اپنے لیے مقرر کیاتھا۔ ہمیں تو پتا تھا کہ آپ سودنوں میں کچھ بھی نہیں کرسکیں گے صرف حکومتی اسرار و رموز ہی سمجھ پائیں گے۔ جب یہ سودن پورے ہونے لگے تو پھرآپ نے چھ مہینے اور ایک سال کا ٹائم مانگا۔ ہم جانتے تھے کہ کوئی بھی اتنا جلدی تبدیلی نہیں لاسکتا ہے۔ مگر آپ اپنے آپ پر کچھ زیادہ ہی خود اعتماد کربیٹھے تھے۔

22سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد بھی آپ کویہ پتا نہیں چل سکا کہ حکومت کس طرح چلائی جاتی ہے۔ آپ اِسے حلوہ اوربہت آسان سا کرکٹ کا میچ سمجھ بیٹھے تھے۔ اپنے اوپر حد سے زیادہ خود اعتمادی اوراحساس برتری کا جو نتیجہ نکلا کرتا ہے وہی آپ کے ساتھ ہوا۔ آپ کو اپنی حکومتی ٹیم پر اندھا اعتماد تھا یہ جانتے بوجھتے کہ اُن میں سے کسی کو بھی ماضی میں حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ آپ نے اپنے ارد گر د جتنے سیاسی نابالغ افراد جمع کررکھے تھے اُنہیں ابھی تک وزارتوں اور سرکاری محکموں کی فائلیں ہی دیکھنا نہیں آتی تھیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ جس دن خان اقتدار میں آجائے گا دوسرے دن سے آسمانوں سے من وسلویٰ برسنے لگے گا۔ 200ملین ڈالرز جو باہر کی بینکوں میں رکھے ہوئے ہیں وہ خان فوراً واپس اپنے ملک میں لے آئے گا۔ اُس میں سے ایک سوملین ڈالر آئی ایم ایف کے منہ پرمارے گا اوردوسرے سو ملین ڈالر سے قوم کی قسمت بدلے گا۔ تمام چوروں کی فائلیں کھولے گا اورکہے گا اِن پیسوں کا حساب دو۔ اگر نہیں دے سکتے تو پھر پھانسی پہ چڑھو۔ جب ایسے ایسے لاابالی اورغیر ذمے دار لوگ آپ کی بے مغز کابینہ کا حصہ بنیں گے تو پھر نتیجہ تو ایسا ہی ہونا تھا۔

قوم جسے آپ کی جماعت میں سب سے قابل اورسمجھ دارآدمی تصور کیاکرتی تھی اُسے تو آپ نے صرف چھ مہینوں میں ہی وزارت سے الگ کردیا۔ آپ کہاکرتے تھے میں کسی سے ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔ چھوٹی سے کابینہ بناؤں گا۔ خود کو اقتدارمیں رکھنے کے لیے کبھی کسی سے سمجھوتہ نہیں کروں گا۔ ایسا تو سبھی کرتے ہیں۔ یہ تو بہت آسان ہواکرتا ہے کہ اقتدار بچانے کے لیے دوسروں کاشامل کروں اور اُن کی باتیں مانتا رہوں۔ ایسا اقتدار میں کبھی نہیں لوں گا۔ قول و فعل میں اتنابڑاتضاد شاید ہی کسی نے ہمارے یہاں پہلے دیکھا ہو۔ آپ نے شروع شروع میں اپنی پارٹی میں پاک صاف اورنیک سیرت لوگ بھرتی کیے، مگر جب انتخابی معرکوں میں مسلسل ناکامی سے دوچار ہونا پڑا تو پھر آپ کوالیکشن جیتنے کی سائنس کاخیال آیا اور2018ء کے انتخابات میں بہت سارے پارٹی ٹکٹ اُن پرانے آزمودہ لوگوں کودینا شروع کردیے جنھیں الیکشن جیت جانے کی سائنس آیاکرتی تھی۔ یعنی وہی چوہدری اوروڈیرے جن کے خلاف آپ نے یہ جدوجہد کی تھی آج آپکی پارٹی کا حصہ بن گئے۔

الیکشن جیت جانے کے بعد اِن لوگوں نے اب اپنا حصہ مانگنا شروع کیا تو آپ پھنستے ہی چلے گئے اوراب یہ حال ہے کہ پارٹی کا ایک بھی مخلص اوروفادار کارکن آپ کی کابینہ میں دکھائی نہیں دے رہا۔ سب کے سب یاتو چور اورڈاکو جماعتوں کے پرانے کرتا دھرتا ہیں یاپھرباہر سے ادھار لے لیے گئے ہیں۔ اُن میں سے بیشترالیکشن جیت کربھی نہیں آئے۔ وزیروں، مشیروں اورمعاونین کے فوج ظفر موج حاصل کرلینے کے بعد بھی نتائج وہی صفر کے صفر ہیں۔ کوئی بھی قابل ذکر کامیابی ایسی نہیں ہے کہ جس پر فخر کیاجاسکے۔ ہرطرف ناکامی اورمایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ملکی افق پرگھٹاٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ کہیں سے اُمید کے کوئی کرن ہمیں مایوسیوں کے اندھیروں سے نکالنے کے لیے دکھائی نہیں دے رہی۔

اب آپ کو اقتدار سنبھالے تقریبادوسال کا عرصہ بیت جانے کو ہے۔ اتنے عرصہ میں تو پچھلے حکمرانوں نے کامیابیوں اورکامرانیوں کے جھنڈے گاڑناشروع کردیے تھے۔ آپ توابھی تک کوئی پالیسی ہی نہیں بناسکے۔ ملک بھی میں کوئی منصوبہ یاپروجیکٹ ایسا نہیں جسے ہم بہت بڑا پروجیکٹ قرا ردے سکیں۔ بلکہ پہلے سے چلنے والے پروجیکٹس بھی بند پڑے ہیں۔ سی پیک منصوبے پر بھی کوئی کام ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ شاہراہیں اور موٹرویز تو پہلے ہی آپ کوسخت ناپسندیدہ تھیں۔ میٹروبس اوراورنج ٹرین جیسے منصوبے توآپ کو فضول اورپیسوں کازیاں معلوم ہواکرتا تھا، لیکن کم ازکم خود اپنے ہی بنائے گئے پشاورمیٹرو بس منصوبے ہی کو وقت پر مکمل کردیتے۔

جن اسکولوں اوراسپتالوں کی باتیں آپ کیاکرتے تھے کہ قوم کو موٹرویز سے زیادہ اِن کی ضرورت ہے۔ وہ بھی دکھائی نہیں دے رہے۔ ملک بھرمیں ساراکام اورسارابزنس ٹھپ ہوتاجارہا ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں تو کیا دیتے بلکہ ایک کروڑ سے زیادہ نئے بیروزگار کردیے آپ نے۔ ایسے میں پچاس لاکھ گھر بنانے کاوعدہ یاددلانا بھی ہمیں کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ آپ جب شوکت خانم یانمل یونیورسٹی کے لیے قوم سے چندہ مانگا کرتے تھے تو ہمیں یہ معلوم تھا کہ آپ کے پاس کوئی خزانہ تو نہیں ہے کہ یہ کام کرسکیں مگر اب تو آپ سارے ملک اورسارے خزانے کے مالک ومختار بن چکے ہیں لیکن افسوس سے کہناپڑتاہے کہ کشکول ہے کہ ہاتھوں سے چھوٹتا ہی نہیں۔ پہلے تو یہ چھوٹا سے ہوا کرتاتھامگر اب اِس کاسائز بہت بڑا ہوچکا ہے۔

اقتدار سنبھالتے ہی آپ نے اپنے عوام سے مدد کی درخواست کردی۔ بیرون ملک بیٹھے پاکستانی جوآپ پراندھا اعتبار کیاکرتے تھے آپ نے اُن سے بھی ڈالز ز مانگنا شروع کردیے۔ پھرسابق چیف جسٹس کے ساتھ ملکر دیامر بھاشا ڈیم بنانے کے لیے بناکچھ سوچے سمجھے میدان میں کود پڑے۔ لوگوں نے سمجھایابھی کہ اتنے بڑے پروجیکٹ چندوں پرنہیں بناکرتے ہیں، لیکن آپ نے اپنا پہلاسال اِسی خوش فہمی میں گزاردیا۔ بینکوں کے باہر لگے بینرز اورATMمشینوں میں ان ڈیموں کا اشتہار آج بھی ہمارا منہ چڑارہاہوتاہے۔

پہلا سال تو جیسے تیسے مانگ تانگ کے بیت ہی گیا، مگردوسرے سال میں توقوم کوکچھ ڈیلیور کرناچاہیے تھا۔ قوم کب تک پرسنلٹی کے حسین مغالطے پرزندگی گذارتی رہے گی۔ 2020ء کے پانچ ماہ بھی گذرجانے کو ہیں جسے آپ نے ترقی اورخوشحالی کاسال قرار دیاتھا، مگراِس سال میں کورونا کی وباء نے آپ کوایک اورفنڈ قائم کرنے کا موقعہ عنایت فرمادیا۔ ساری دنیامیں حکومتیں اپنے لوگوں کی مدد کرنے کے لیے اپنے خزانے کھول رہی ہے اورہم ہیں کہ ایسے میں بھی قوم سے چندہ مانگ رہے ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ اگلا سال کشمیرفنڈز کے کیے مختص کردیا جائے اوراُس سے اگلاسال کسی اورقدرتی آفت کے لیے فنڈز بنانے کا موقعہ فراہم کردے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے وزیراعظم نے مانگنے کے علاوہ ابھی تک کوئی کام کیاہی نہیں۔ شوکت خانم کی تعمیرسے لیکر آج تک یہی ایک کام بڑی تندہی اورجانفشانی سے کیاجاتارہاہے۔

قوم دیتے دیتے اب تھک چکی ہے۔ شاید اِسی لیے وزیراعظم کو اب خاطرخواہ ریسپانس نہیں مل رہا۔ بیرون ملک پاکستانی بھی تنگ آچکے ہیں۔ اُن کے بھی تمام خواب ریزہ ریزہ ہوچکے ہیں اور وہ یہ کہنے پرمجبور ہیں کہ خان سے بہتر توپہلے والے حکمراں ہی تھے کہ اُن کے زمانے میں ہمارا کشکول کچھ چھوٹا ہی تھا۔ ملک میں کچھ ترقیاتی کام بھی ہورہے تھے مگر اب تونہ کوئی ترقیاتی کام ہورہا ہے اورنہ کوئی خوشحالی دکھائی دے رہی ہے، لیکن قرضے ہیں کہ مسلسل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔