Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Tamam Nakamion Ka Sehra Oppostion Ke Sar

Tamam Nakamion Ka Sehra Oppostion Ke Sar

خان صاحب اور اُن کے ذہین ترین اور اہل ترین وزراء کا پہلے دن سے یہ وتیرہ رہا ہے کہ اپنی تمام تر ناکامیوں اور نا اہلیوں کا سہرا اپوزیشن یا سابقہ حکومت کے سر دھر دیں۔ انھیں شروع ہی سے یہ سبق پڑھایا اور سکھایا گیا ہے کہ اپنی ہر غلطی اورکوتاہی کو ہرگز قبول نہیں کرنا ہے اور اُس کی ساری ذمے داری اپوزیشن کے کھاتے میں ڈال دینی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ناکامی تو ناکامی کوئی کامیابی بھی موجودہ حکومت کے نامہ اعمال میں ابھی تک درج نہیں ہو پائی ہے۔ ابھی تازہ ترین واقعہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے موقعہ پر دیکھا گیا جب انھیں اپنی تین سالہ مدت پوری ہونے پر اُس میں مزید توسیع کے لیے ایک روایتی نوٹیفیکیشن جاری کرنا تھا تو ہماری یہ ہونہار حکومت یہ سادہ سا کام بھی صحیح طریقہ سے انجام نہیں دے پائی اور نہ صرف خود اپنے لیے بلکہ ساری قوم کے لیے عالمی سطح پر شرمندگی اور بے عزتی کا باعث بنی۔

اُس پر طرہ یہ کہ اپنی یہ نا اہلی بھی خان صاحب نے اپوزیشن کے کاندھوں پر ڈالتے ہوئے اُسے مافیا کی ایک اور ناکامی قرار دے دیا۔ اُن کے بقول چیف جسٹس کی جانب سے اُٹھائے گئے اعتراضات گویا اپوزیشن کی ایک سازش تھی جسے انھوں نے بڑی ہوشیاری اور خوش اسلوبی سے نا کام بنا دیا۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اپوزیشن نے اِس موقع پر خاموش رہتے ہوئے، اُس روایتی طریقہ کار کو بھی نہیں اپنایا جو ایسے موقعوں کو "موقعہ غنیمت" جان کر ہمیشہ کیا جاتا ہے۔ اُن کی جگہ آج اگر خان صاحب خود اپوزیشن میں ہوتے تو وہ دھمال چوکڑی مچاتے کہ حکومت شاید مستعفی ہونے پر مجبور ہو جاتی۔

خان صاحب کو حکومت سنبھالے سوا سال گزر چکا ہے، لیکن ابھی تک اُن کے اکاؤنٹ میں سوائے کرتار پور راہداری کھولنے کے کوئی دوسرا بڑا کارنامہ لکھا نہیں جا سکا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جن نا سازگار حالات کا حوالہ دے کر چیف آف آرمی کی ایکسٹینشن کو جواز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے کرتار پور راہداری کا کھولنا از خود اُن کی نفی کرتا دکھائی دیتا ہے۔

لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر سرحدوں پر حالات اگر اِس قدر خراب اور تشویش ناک ہیں تو ایسے میں بھلا اُسی ازلی دشمن کے ساتھ جڑی سرحدوں پر ایک نیا راستہ کیوں کھولا جا رہا ہے۔ ہم نے ابھی دو ماہ پہلے ہی مودی حکومت کی کشمیر میں کی گئی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے جب بظاہر اُس کے ساتھ تمام تعلقات منقطع کر لیے تھے اور تجارت سمیت اپنی سر زمین اور فضائی حدود پر سے اُس کے جہازوں کی آمد و رفت بھی بند کر دی تھی۔

نہ صرف واہگہ بوڈر سیل کر دی تھی بلکہ اُس کے ذریعے گزرنے والی سمجھوتہ ایکسپریس سروس بھی بند کر دی اور تو اور اُس کے سفیر کو بھی ملک چھوڑنے کا حکم نامہ پکڑا دیا تھا تو ایسے میں یہ کرتار پورکھولنے کو ہم کیسے ایک احتیاطی تدبیر اور جنگی حکمت عملی قرار دے پائیں گے۔ ہم ایک طرف حالات کو انتہائی تشویشناک کہہ کر اپنے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں اگلے تین سال کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف کرتار پور راہداری کے ذریعے سکھ براداری سمیت ہر ہندوستانی شہری کو بڑی آسان شرائط پر اپنے یہاں داخل ہونے کی اجازت بھی فراہم کر رہے ہیں۔

تین سالہ توسیع سے تو یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ جیسے ہمارے حکمرانوں کی نظر میں بھارت اور پاکستان کے بیچ موجودہ کشیدگی اگلے تین سال اِسی طرح برقرار رہے گی۔ حکومت نے ایک سادہ سے نوٹیفیکیشن کے اجراء کو جس طرح ایک بہت بڑا پیچیدہ سنگین مسئلہ بنا دیا اور بعد ازاں اُسے اپنی اپوزیشن کی ایک سازش قرار دیا، اُس سے اُس کی قدر و منزلت اور عوام کی نظروں میں اس کی قدر و قامت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ غالبا باعث ہزیمت ہی بنا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اب انتہائی تدبر اور سوچ و بچار کے ساتھ فیصلے کیا کرے۔ اپنی معاشی ٹیم اور قانونی ٹیم کی ناکامیوں کے بعد اُس کی کرکٹ ٹیم بھی بری طرح شکست و ریخت سے دوچار ہے۔

نواز شریف کے دور میں وہ کرکٹ ٹیم کی کسی ایک شکست پر بہت بڑے لیکچر اور بھاشن دیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جس ملک کا وزیر اعظم اُس کی کرکٹ ٹیم کا پیٹرن انچیف بن جائے وہ ٹیم ہمیشہ ناکام ہی ہوا کرتی ہے۔ اب وہی ساری کہانی خود اُن پر صادق آرہی ہے۔ خان صاحب جب سے وزیر اعظم اور پیڑن انچیف بنے ہیں ہماری کرکٹ ٹیم بیرون ملک کوئی بھی ٹورنامنٹ جیت نہیں پائی ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو یقینا بے جا نہیں ہو گا کہ رفتہ رفتہ اُس کے سارے اعزاز اب اُس سے چھینے جانے لگے ہیں۔ ٹی ٹونٹی ایک ایسا ٹورنامنٹ تھا جس کے چیمپئن ہونے کا اعزاز ابھی تک ہمارے پاس تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی اب ہم سے چھینا جانے والا ہے۔

خان صاحب کی سب سے بڑی مجبوری یا کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنی غلطی کبھی تسلیم نہیں کرتے۔ اُن کی معاشی ٹیم ابھی تک کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہے لیکن وہ ہیں کہ ڈٹے ہوئے ہیں کہ نہیں بہت اچھی ٹیم ہے۔ اسد عمر کو جسے وہ اپنے لوگوں میں بہت قابل اور ذہین ماہر معیشت گردانا کرتے تھے، بری طرح ناکام ہوئے۔ خان صاحب نے انھیں ہٹا کر حفیظ شیخ کو لگا دیا لیکن اسد عمرکی نا کامی کو اپنی شکست نہیں مانی اور انھیں دوسری وزارت عنایت فرما دی۔

یہی حال باقی سارے وزراء کا ہے۔ کوئی ایک وزیر بھی ایسا نہیں جو اپنے کام میں ماہر یا سنجیدہ ہو۔ اُن سب سے ایک کام بڑی تندہی اور جانفشانی سے ہو رہا ہے وہ صرف اور صرف اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنانا۔ خود خان صاحب بھی یہی کرتے رہے ہیں۔ شاید اِسی لیے وہ اپنے وزراء سے بھی ایسی ہی توقع رکھتے ہیں، جو وزیر اپوزیشن کو سب سے زیادہ ہدف تنقید بنائے خان صاحب کی نظروں میں وہی سب سے قابل احترام اور معتبر سمجھا جاتا ہے۔ خان صاحب ایسے وزیر کو سب سے زیادہ مخلص اور وفا دار بھی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب اِسی ایک کام میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہوتے ہیں۔

ہمارے وزیر اعظم صاحب نے ابھی پچھلے دنوں اپنی عدلیہ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے طاقتور اور کمزور لوگوں کے لیے دو مختلف پیمان عدل و انصاف رکھنے کا طعنہ دیا تھا جس کا ہمارے چیف جسٹس نے فوراً ہی جواب دے کر سارا حساب کتاب برابر کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج چیف آف آرمی کی مدت ملازمت کے نوٹیفیکیشن پر اتنی بڑی ہزیمت اُٹھانے کے بعد بھی عدلیہ کی تعریف و توصیف کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ خود اپنے دہرے معیار کا یہ عالم ہے کہ طاقتور اور کمزورکے لیے الگ الگ قانون پر اعتراض توکرتے ہیں لیکن دوسرے ہی لمحہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ رکوانے کے لیے ایک درخواست لے کر اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ جاتے ہیں۔

یہاں انھیں اُن کمزور لوگوں کا خیال ہرگز نہیں آیا جن کے مسلسل پیش نہ ہونے پر عدلیہ یا تو وارنٹ گرفتاری جاری کرتی رہی ہے یا یک طرفہ فیصلے سناتی رہی ہے۔ پرویز مشرف کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ اُن کے مقدمات کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت اگر اُن کے خلاف کوئی فیصلہ سنا بھی دیتی تو اُس پر عمل درآمد ممکن نہ تھا کیونکہ موصوف ابھی تک مفرور ہیں اور شاید ہمیشہ ہی مفرور رہیں گے۔ لیکن حکومت نے یہ استدعا کر کے دراصل کچھ با اثر طاقتور حلقوں میں اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی مخلص اور وفادار ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔

اِس کے علاوہ کوئی دوسری وجہ دکھائی نہیں دیتی کہ جو شخص اپنے سابقہ بیانوں میں پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی اتنی زبردست حمایت اور وکالت کیا کرتا اور آج اچانک اقتدار مل جانے کے بعد کیسے انھیں بچانے کی فکر میں سرگرداں دکھائی دینے لگا ہے۔ اِسے ہم طاقتور اور کمزور کے لیے دہرا معیار قرار نہ دیں تو اور کیا سمجھیں یا پھر اِسے سیاسی ڈپلومیسی اور چاپلوسی قرار دیں۔