اِسے ہماری اِس سر زمین کی خصوصیت کہیے یا بد قسمتی کہ یہاں آج تک کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا جسے ہم اُس کی اعلیٰ وارفع صفتوں اور صلاحیتوں کی وجہ سے عوامی پذیرائی اور قبولیت کے اُن درجات تک پہنچا دیں جسے دنیا کی زبان میں لیڈرکہا جاتا ہے۔ بلکہ یہاں ایسے کسی شخص کو برداشت ہی نہیں کیا جاتا جو اپنی کارکردگی اور صلاحیت کی بنیاد پر مقبولیت کی اُن عظمتوں کو چھونے لگے جہاں سے پھر اُسے زمین بوس کرنا ناممکن ہو جائے۔
اِس سے قبل کہ حالات نشاندہی کرنے لگیں کہ وہ اب نا قابل شکست بن کر بلندیوں پر اُڑنے لگے اُس کے پر قینچ کر دیے جاتے ہیں۔ ہمارے لوگ مہاتیر محمد اور طیب اردگان کے گن تو صبح وشام گاتے ہیں لیکن کبھی اِس بات پر غور نہیں کرتے کہ وہ کس طرح اِس مقام تک پہنچے۔ اِن دونوں شخصیات نے بلاشبہ اپنے ملک کو پستی اور غلامی کے اندھیروں سے نکال کر خوشحالی کی راہ پر ڈالا ہے لیکن اُنہیں قوم نے دوچار سال تفویض نہیں کیے بلکہ دس دس سال اور بیس بیس سال عنایت فرمائے ہیں۔ اُنہیں کھل کر اپنی پالیسیوں پر عمل درآمد کا موقع دیا۔
اقتدار ملتے ہی وہ اپنی کامیابی وکامرانی کے جوہر نہیں دکھانے لگے تھے بلکہ رفتہ رفتہ وہ اِس مقام تک پہنچے۔ مہاتیر محمد پہلی بار 1981 میں وزیراعظم منتخب ہوئے اور اِس عہدے پر 2003ء تک فائز رہے۔ گویا 22 سال تک اُنہیں متواترکام کرنے کا موقعہ دیا گیا۔ اِسی طرح ترکی کے طیب اردگان وزیراعظم کی حیثیت میں 2003 میں برسراقتدار آئے اور 2014 تک مسلسل اِس عہدے پر قائم رہے۔ 2014 کے بعد اُنہوں نے خود کے لیے وزیراعظم کی بجائے صدر مملکت کا عہدہ پسند فرمایا کیونکہ اب ترکی کے آئین میں صدرکے اختیارات وزیر اعظم سے زیادہ وسیع ہوچکے تھے۔
وہ اپنی پسند کے اِس عہدے پر ابھی تک برسراقتدار ہیں۔ اِس طرح 2003 سے لے کر 2019 تک اُنہیں 16سال بیت چکے ہیں اور وہ اپنے ویژن کے مطابق اِس مقام پر پہنچ گئے جہاں اُن کی حفاظت وحمایت کے لیے عوام ٹینکوں اور بکتر بندگاڑیوں کے آگے لیٹ جاتے ہیں۔ طیب اردگان نے اپنی قوم کو قرضوں سے نجات دلانے میں دس بارہ سال لگائے۔ ہمارے یہاں بھی یہ ممکن ہوسکتا تھا اگر سیاسی استحکام کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جاتے، مگر ہمارے یہاں قابض قوتیں کسی کو اتنا مقبول ہونے ہی نہیں دیتیں کہ وہ عوام الناس میں اِس قدر عزیز ہو جائے کہ پھر کوئی اُنکی طرف نگاہ بھی نہ کرے اور وہ عضو معطل بن کر رہ جائیں۔
میاں نواز شریف کے آخری دور حکومت میں ہم نے آئی ایم ایف کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ ملک ترقی وخوشحالی کی راہ پر ڈال دیاگیا تھا۔ سی پیک کے منصوبے پر کام شروع ہو چکا تھا۔ کراچی شہر کا امن جو ایک ڈراؤنا خواب بن چکا تھا ایک بار پھر بحال ہو چکا تھا۔ اسٹاک مارکیٹ دنیا کی ابھرتی ہوئی مارکیٹ کا درجہ حاصل کرنے لگی تھی کہ اچانک سبھی کچھ روند ڈالا گیا۔ پاناما اسکینڈل کو بہانہ بناکر میاں صاحب کی ساری کامیابیوں پر یکسر پانی پھیر دیا گیا۔
معیشت کی گاڑی کو اُلٹا گیر لگا دیا گیا۔ قومی ترقی وخوشحالی کے تمام منصوبے روک دیے گئے ہیں۔ اب کسی بڑے پروجیکٹ پر کوئی کام نہیں ہو رہا۔ ملک کو ایک بار پھر آئی ایم ایف کے شکنجے میں کس دیا گیا ہے۔ عالمی قوتیں جنھیں ہمارا سی پیک منصوبہ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا آج اُنہی کی ایما ء پر اُس پر ساری پیشرفت سست روی کا شکار کر دی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے اسے غیر ضروری اور ضرر رساں قرار دے دیاجائے گا۔
میاں نواز شریف کو بحیثیت وزیراعظم تین بار اِس قوم نے منتخب کیا لیکن افسوس کے تینوں بار اُنہیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی۔ اُنہیں جب جب موقعہ ملا اُنہوں ملک وقوم کی خدمت کرنے میں کوئی کسر اُٹھا رکھ نہ چھوڑی۔ پہلی بار وزیراعظم بنے تو ملک کے اندر موٹر ویز بنانے کا اپنا منصوبہ متعارف کروایا۔
شروع شروع میں سب نے اِس منصوبے کی مخالفت کی اور اِسے غیر ضروری عیاشی قرار دے کر مسترد کر دیا۔ لیکن وہ سب آج ایسی موٹرویز پر مبنی ایک بڑے منصوبے یعنی پاک چائنا کوریڈور کے زبردست حامی اور معترف بن چکے ہیں۔ میاں صاحب کو دوسری بار جب موقعہ ملا تو اُنہوں نے ملک کو دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کا درجہ دلانے میں تمام دباؤ اور دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایسا دلیرانہ فیصلہ کیا جس کے ثمرات سے ہم سب لوگ آج مستفید ہو رہے ہیں۔
بھارت ہم سے پانچ گنا بڑا ہوتے ہوئے بھی ہم پر اِسی ایک فیصلے کی بدولت حملہ کرتے ہوئے خوفزدہ ہے۔ میاں صاحب کو معلوم تھا کہ عالمی قوتوں کی نافرمانی کرکے وہ اپنے عہدے پر قائم نہیں رہیں گے لیکن اُنہوں نے ملک و قوم کی خاطر یہ کر دکھایا۔ تیسری بار جب وہ وزیراعظم بنے تو ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ملک کا اُس وقت کیاحال تھا۔ دہشتگردی کا عفریت دس سال سے اِس قوم پر سوار تھا اورکوئی شہر اورگاؤں اُس کی کارروائیوں سے محفوظ نہ تھا۔ ساتھ ہی ساتھ بجلی اور توانائی کے بحران نے بھی لوگوں کا جینا دوبھرکر دیا تھا۔
میاں صاحب نے اُن دونوں مسائل سے قوم کو نجات دلائی اور ملک کی معیشت کی بہتری کے لیے بھی بڑے بڑے فیصلے کیے۔ وہ چاہتے تو موجودہ حکمرانوں کی طرح سارا کیا دھرا اپنے پیش روؤں پر ڈال کر روپیٹ کر اپنا وقت پورا کرتے اور لوگوں سے ہمدردیاں وصول کرتے۔ لیکن نہیں اُنہوں نے ہر مشکل کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور رونے دھونے کی بجائے خود کو صحیح معنوں میں ایک حکمراں کے طور پرپیش کیا۔ اُنہیں اگر موقعہ ملتا تو وہ بھی اِس ملک کو ملائیشیا اور ترکی کی طرح مضبوط اور مستحکم بنا دیتے۔ اپنی اہلیت و قابلیت کی بنیاد پر2017 سے پہلے یہ تاثر عام ہونے لگا تھا کہ اگلا الیکشن بھی میاں نواز شریف باآسانی جیت لیں گے۔
بد قسمتی سے اُن کی یہی قابلیت اور مقبولیت خود اُن اپنے لیے وبال جاں بن گئی اور اِس ملک کی اصل مقتدر قوتوں نے اُنہیں ہر حال میں تخت وتاج سے محروم کرکے نشان عبرت بنانے کا فیصلہ کر ڈالا۔ وہ آج کوٹ لکھپت جیل میں خاموشی کے ساتھ حالات کے بدل جانے کا انتظارکر رہے ہیں۔
ہوسکتا ہے آنے والے دنوں میں وہ اپنے نا کردہ گناہوں کی سزا کاٹ کر قومی سیاست کا ایک بار پھر حصہ بن جائیں لیکن اُن کے یوں اچانک چلے جانے سے اور ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام پیدا ہوجانے سے اِس بد قسمت قوم کاجو نقصان ہوچکا ہے وہ شاید اگلے دس برسوں میں بھی پورا نہ ہوسکے۔ ہمارا المیہ ہی یہی ہے کہ ہم یہاں کسی کو لیڈر بننے ہی نہیں دیتے۔ پھر روتے بھی ہیں اور شکوہ بھی کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں کیوں کوئی مہاتیر محمد اور طیب اردگان پیدا نہیں ہوتا۔