گزشتہ ہفتے تاجکستان کے شہر دوشنبے میں منعقد ہو نے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے 20 ویں سربراہی اجلاس میں افغان طالبان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ امریکی پسپائی اور طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد مزید جامع حکومت کو اقتدار سونپیں اور مغرب کو بالعموم اور امریکہ کو خاص طور پر یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ گزشتہ ماہ ملک میں اپنی 20 سالہ موجودگی کو ختم کرنے کے بعد افغانستان میں انسانی تباہی کی بحران سے بچنے میں مدد کریں۔
علاقائی تعاون، افغانستان میں جاری بحران کو ختم کرنے کے لیے وقت کا اہم تقاضا ہے۔ اس لحاظ سے، ایس سی او کو افغانستان میں زیادہ فعال طور پر مصروف رہنے کی ضرورت ہے۔ اوریہ ایس سی او کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ علاقائی تعاون کے اپنے خواب کو تعبیر دے اور افغانستان میں استحکام لانے میں فعال کردار ادا کرے جو پورے مغربی ایشیا اور وسطی ایشیا کے لیے فائدہ مند ہے۔
شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) نیو یارک اور واشنگٹن پر 9/11 کے حملوں سے چند ہفتوں پہلے قائم کی گئی تھی، یوریشیا کے وسیع خطے میں سلامتی کو یقینی بنانے اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے کثیرالجہتی ایسوسی ایشن کے طور پر تجارت، نیز ثقافتی اور انسانی ہمدردی میں تعاون اِس کے بنیادی مقاصد ہیں۔ اس کے بانی رہنما مشرق کی دو بڑی طاقتیں ہیں یعنی روس اور چین۔ اس کے دیگر ابتدائی ارکان ازبکستان، تاجکستان، کرغیزستان اور قازقستان، افغانستان کے شمال اور شمال مشرق میں تھے۔ 8-9 جون 2017 کو قازقستان کے شہر آستانہ میں ایس سی او کے رکن ممالک کے تاریخی سربراہی اجلاس کے موقع پر، پاکستان اور بھارت کو مکمل رکنیت دی گئی جبکہ ایران کو 17 ستمبر 2021 کو مکمل رکنیت دی گئی ہے۔ افغانستان، بیلاروس اور منگولیا مبصر ہیں۔
ایس سی او کے متعدد ڈائیلاگ پارٹنرز ہیں۔ ان میں پڑوسی آرمینیا اور آذربائیجان اور مغرب کی جانب ایک قدم مزید آگے ترکی بھی ڈائیلاگ پارٹنرز میں شامل ہے۔ برصغیر سے نیپال اور سری لنکا اور جنوب مشرقی ایشیا سے کمبوڈیا بھی مکالمے کے شراکت دار ہیں۔ مزید یہ کہ سعودی عرب، قطر اور مصر کو بھی گزشتہ جمعہ کی میٹنگ میں ڈائیلاگ پارٹنر کا درجہ دیا گیا ہے۔ البتہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکمانستان، جسکی افغانستان کے ساتھ 800 کلومیٹر اور ایران کے ساتھ 1، 150 کلومیٹر سرحد ہے، ایس سی او کا رکن نہیں ہے کیونکہ ترکمانستان نے کسی بھی قسم کے دفاعی اِتحاد میں غیر شمولیت کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ستون بنایا ہوا ہے۔ البتہ شنگھائی تعاون کی تنظیم میں ترکمانستان کی عدم شمولیت سے علاقائی رابطے میں ایک چھوٹا سا خلا پیدا ضرور پیدا ہوتا ہے۔
ایس سی او سے پہلے ایک "شنگھائی فائیو" نام کی تنظیم وجود رکھتی تھی جس میں روس، چین، قازقستان، کرغیزستان اور تاجکستان شامل تھے۔ تین سابق سوویت ریاستیں چین کے ساتھ ایک طویل سرحد مشترک رکھتی ہیں۔ شنگھائی فائیو کا مقصد اس سرحد کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے وسطی ایشیا میں امریکی مداخلت کو روکنے کے لیے چین روس مشترکہ دلچسپی کو بڑھانا تھا۔ ماسکو اور بیجنگ بھی افغانستان میں امریکی فوجی موجودگی اور وسطی ایشیا پر اس کے ممکنہ اثرات سے نا خوش تھے۔ اب افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا سے ماسکو اور بیجنگ دونوں خوش ہیں۔ ایس سی او افغانستان کے مسئلے میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟ کیا ایس سی او افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مشترکہ علاقائی نقطہ نظر اختیار کر سکے گا؟ اگرچہ بظاہر یہ دلکش لگتا ہے کہ ایس سی او افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کر سکتی ہے لیکن اس کے باوجود چیلنجز اور پریشانیاں ہیں جن کا سامنا ایس سی او کر سکتی ہے۔ ایس سی او کے وسطی ایشیائی اراکین کے آپس میں جھگڑے ہیں اور انہوں نے اپنے مشترکہ علاقائی سلامتی کے چیلنجوں کے لیے اجتماعی انداز اپنانے کے لیے جدوجہد کی ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ طالبان کے متعلق ان کے مختلف مؤقف ہیں۔
ترکمانستان، جو ایس سی او کا حصہ نہیں ہے، طالبان کو اپنے غیر جانبداری کے اصولوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کافی حد تک لچکدار رہا ہے۔ بعض روسی تجزیہ کار ترکمانستان کو خطے میں طالبان کے ممکنہ خطرات کے خلاف دفاع میں ممکنہ کمزور ربط کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ازبکستان طالبان کے ساتھ محتاط تعلقات کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ لیکن تاجکستان، افغان تاجکوں کے ساتھ اپنی رشتہ داری اور سرحد پار وادی پنجشیر سے براہ راست روابط کے پیش نظر، طالبان کے دور میں کابل کے ارتقاء پر سخت تنقید کرتا رہا ہے۔ ایران، جو فارسی بولنے والے تاجکوں کے ساتھ نسلی اور لسانی روابط رکھتا ہے، اقلیتوں کے بارے میں طالبان کی پالیسیوں کے بارے میں یکساں طور پر پریشان دکھائی دیتا ہے۔
ماسکو اور بیجنگ کی طرح تہران بھی امریکہ کی افغانستان سے پسپائی سے خوش ہوا ہے اور طالبان کے ساتھ مثبت تعلقات کے لیے پرامید دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ اِن امیدوں کو ضائع نہیں کیا گیا مگر اِن امیدوں کا تکمیل تک پہنچنا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ بھارت اور پاکستان کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ طالبان کے متعلق دونوں ملکوں کا نکتہ نظر ایک دوسرے سے مکمل برعکس ہے۔
مذکورہ بالا اِختلافی نکات کو دیکھتے ہوئے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ایس سی او افغان بحران کا علاقائی حل، تلاش کر لے البتہ روس کے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ خصوصی تعلق، چین کی ابھرتی ہوئی عالمی اقتصادی اور سیاسی طاقت، اور پاکستان کی چین کے ساتھ روایتی گہری دوستی جبکہ روس کے ساتھ پاکستان کے بڑھتی ہوئی قربتوں کے تناظر میں شنگھائی تعاون کی تنظیم سے افغانستان کے سیاسی اور معاشی استحکام میں ایک قابلِ قدر کردا رکی توقع کی جا سکتی ہے۔