Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Pakistan America Qareebi Taluqaat Ki Bahali

Pakistan America Qareebi Taluqaat Ki Bahali

پاک امریکہ باہمی تعلقات کی تاریخ کا مطالعہ دونوں ملکوں کے دوطرفہ تعلقات میں آنے والے کئی اتار چڑھاؤ کو ظاہر کرتا ہے۔ عالمی سیاست کے ماہرین نے پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کی اس نوعیت کی بنیاد پر مختلف تشریحات کی ہیں۔ اسے عام طور پر ایک ناکام شادی کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ دانشوروں نے چینی اور جاپانی کہاوتیں استعمال کرتے ہوئے، اسے ایک ایسے جوڑے سے تشبیح دی ہے جو ایک ہی گھر میں اکٹھے رہنے کے باوجود مختلف خواب دیکھتے ہیں۔ شجاع نواز اپنی کتاب"دی بیٹل فار پاکستان: دی بِٹر یو ایس فرینڈ شپ اینڈ ٹف نیبرہڈ"میں پاک امریکہ تعلقات کو ایک حقیقی عدم استحکام کا شکار قرار دیتے ہیں جو اب اپنے خاتمے (بریک اپ) کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ فریقین کی خاطر اسکو بچایا جائے۔

امریکہ اور پاکستان کے درمیان قریبی تعلقات اس وقت شروع ہوئے جب پاکستان نے 1954 اور 1955 میں امریکہ کے زیر اہتمام دفاعی معاہدوں SEATO اور CENTO میں باضابطہ طور پر شمولیت اختیار کی تاہم 1962 کی چین بھارت جنگ کے بعد برطانیہ اور امریکہ کی طرف سے بھارت کو دی جانے والی فوجی امداد اور 1965 کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر امریکہ اور برطانیہ کا پاکستان اور بھارت کے ساتھ برابری کے سلوک پر پاکستان کو سخت مایوسی ہوئی۔ جب سابق سوویت یونین نے 1979 میں افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان امریکہ کا قریبی اتحادی بن گیا جبکہ امریکہ اس وقت سویت یونین سے ویت نام کی جنگ میں اپنی شکست کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ افغانستان سے سوویت افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان افغانستان میں خانہ جنگی کے نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تنہا رہ گیا۔ نائن الیون کے تناظر میں، پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا شراکت دار بن گیا اور صدر جنرل مشرف امریکی صدر بش کے نام نہاد "لنگوٹیے یار" بن گئے۔ اب، پاکستان افغانستان میں امریکہ کے پیدا کردہ مسائل سے اکیلے نمٹنے کی کہانی کو دہرانا نہیں چاہتا اور افغانستان میں پائیدار امن چاہتا ہے۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان موجودہ دو طرفہ تعلقات کو اب ایک ایسی صورت حال کا سامنا ہے جسے جمود سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور باہمی تعلقات بائیڈن انتظامیہ کے بلا جواز مطالبات کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں، پاکستان اور امریکہ کے درمیان ٹرانزیکشنل تعلقات رہے۔ بائیڈن کے 46 ویں امریکی صدر کے طور پر اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی امریکہ اور پاکستان کے باہمی تعلقات کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں ہونے لگیں۔

پاکستان کے دو اہم عہدیدار قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اور ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے گزشتہ ہفتے امریکہ کا دورہ کیا ہے اور اپنے ہم منصبوں سے افغانستان سمیت باہمی دلچسپی کے دیگر امور پر ملاقاتیں کی ہیں۔ امریکہ اور پاکستان ایک قریبی تعلقات کی تعمیر نو میں کامیاب کیوں نہیں ہو رہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جائزہ علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کی موجودہ حرکیات کی بنیاد پر لینے کی ضرورت ہے۔

امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان اور چین فیکٹر پاکستان اور امریکہ کے درمیان قریبی تعلقات کی تعمیر نو میں دو اہم رکاوٹیں ہیں۔ پاکستان امریکیوں کے ذہن میں خطے کے ایک مثبت کھلاڑی کے طور پر ابھرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ اپنے پڑوس میں ایک دوستانہ افغانستان بھی چاہتا ہے۔ سرد جنگ کے دور سمیت کرزئی حکومت کا افغانستان بھارت کے قریب تھا۔ ہندوستان ہمیشہ سے ہمسایہ کے ہمسایہ کی ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کے لیے بے چین رہا ہے۔ تاہم پاکستان افغانستان کے جامع اور اتفاق رائے پر مبنی سیاسی تصفیے پر یقین رکھتا ہے، جسکا پاکستانی قیادت نے مختلف مواقع پر اپنے ہم منصبوں کے ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی فورم پر بات چیت کرتے ہوئے واضح طور پر اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی امریکہ کو اڈے فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ کی وجہ سے امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات تبدیل ہوتی دکھائی دیتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ کو پاکستان کے کسی بھی اڈے اور افغانستان کے اندر کسی بھی قسم کی کارروائی کے لیے اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت دینے کے امکان کو واضح طور پر مسترد کردیا ہے۔ وزیر اعظم نے پچھلے مہینے ایچ بی او پر ایک انٹرویو میں پاکستان کے نقطہ نظر کا اظہار کیا اور اس بات کو دہرایا کہ "بالکل نہیں۔ کوئی بھی راستہ نہیں ہے کہ ہم کسی بھی اڈے یا پاکستانی علاقے سے افغانستان میں کسی بھی قسم کی کارروائی کی اجازت دیں۔ بالکل نہیں ." افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد اشرف غنی کے کردار کو قبول کرنے کیلئے طالبان کو آمادہ کرنے کیلئے پاکستان پر دباؤ ڈالنا افغان قبائلی معاشرے کے زمینی حقائق کے تناظر میں بلاجواز مطالبہ ہے حالانکہ پاکستان نے طالبان کو دوحہ مزاکرات میں شرکت کے لیے آمادہ کیا تھا۔ گزشتہ تین دہائیوں سے افغانستان کی صورت حال الجھی ہوئی ہے۔ افغان معاشرے کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی ڈھانچے اور سیاسی اور نسلی تقسیم کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کے مسئلے کا آسان اور پرامن طریقے سے حل ہونا ایک آئیڈل سوچ ہوسکتی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق چین فیکٹر امریکہ اور پاکستان کے درمیان قریبی دوطرفہ تعلقات کے قیام میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ یقینی طور پر، پاکستان امریکہ کے ساتھ ٹرانزیکشنل تعلقات پر چین کے ساتھ اپنیگہری اور آزمائی ہوئی، دوستی کو قربان نہیں کرسکتا۔ تاہم، پاکستان کو "امریکہ اور چین کی باہمی عداوت" میں الجھنے سے بچنے کے لیے انتہائی محتاط انداز اپنانے کی ضرورت ہے۔ سیکورٹی پر مبنی کسی بھی قسم کی گروہی سیاست سے پاکستان کو بچنے کی ضرورت ہے بلکہ اسے اقتصادی بلاک میں شامل ہونے کو ترجیح دینی چاہیے۔