Friday, 27 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Iran Ke Naye Sadar Ki Mumkina Kharja Policy

Iran Ke Naye Sadar Ki Mumkina Kharja Policy

ایران میں گزشتہ جمعہ کو ہونے والے تیرہویں صدارتی انتخابات میں ابراہیم رئیسی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے، سرکاری حتمی نتائج کے اعلان سے قبل ہی ان کے حریفوں نے شکست تسلیم کرتے ہوئے ہا ر مان لی ہے۔ انتخابات کی دوڑ میں شامل دیگر تین امیدواروں نے ابراہیم رئیسی کو اس جیت کے لئے مبارکباد پیش کی ہے، جس کی بہت توقع کی جارہی تھی کیونکہ بڑے سیاسی قد و کاٹھ رکھنے والے امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے سے روک دیا گیا تھا۔

انتخابات میں حصہ لینے والے واحد اصلاح پسند امیدوار، مرکزی بینک کے سابق گورنر عبد الناصرہمتی سمیت دیگر دو امیدواروں، محسن رضا زئی اور امیرحسین قاضی زادہ ہاشمی نے ابراہیم رئیسی کو مبارکباد پیش کی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ابراہیم رئیسی 60 برس کے ہیں اور وہ اپنے کرئیر میں زیادہ وقت پراسیکوٹر کے طور پر فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔ 2017ء کے صدارتی انتخابات میں وہ صدر حسن روحانی سے بڑے مارجن سے ہار گئے تھے تاہم انھیں 2019 میں عدلیہ کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ نئے منتخب ہونے والے ابراہیم رئیسی اپنے آپ کو بدعنوانی کے خاتمے اور معاشی مسائل کے حل کے لیے بہترین انتخاب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ نئے منتخب ہونے والے ابراہیم رئیسی نے اگست میں موجودہ ایرانی صدر حسن روحانی سے اقتدار اس وقت سنبھالنا ہے جب ایران بڑی طاقتوں کے ساتھ کیے ہوئے اپنے ایٹمی معاہدے کو بحال کرنا چاہتا ہے اور امریکہ کی طرف سے سزا کے طور پرعائد شدہ پابندیوں سے خود کو آزاد کرنا چاہتا ہے کیونکہ ان پابندیوں نے ایران میں معاشی بحران کو تیز کردیا ہے۔ ابراہیم رئیسی جو اس وقت ایرانی عدلیہ کے سربراہ ہیں، کو 81 سالہ روحانی پیشوا اور سپریم لیڈر، آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریب سمجھا جاتا ہے، جو کہ ایران میں حتمی سیاسی طاقت کے حامل ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ایران کے صدارتی انتخابات میں منتخب ہونے والے ابراہیم رئیسی کو فتح پر مبارک دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے اور علاقائی امن، ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرنے کے خواہاں ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ نئے منتخب ہونے والے صدر، جو قدامت پسند شمار ہوتے ہیں، کے دور میں ایران کی خارجہ پالیسی میں کس حد تک تبدیلی آئیگی؟

موجودہ صدر روحانی کے دور میں ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015ء کا معاہدہ تھا، جس کے تحت ایران پابندیوں سے نجات کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر راضی ہوگیا تھا۔ لیکن ایران کی زیادہ خوشحالی کی اعلیٰ امیدوں پر 2018ء میں اس وقت پانی پھر گیا جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے سے دستبردار ہوگئے اور ایران کے خلاف "زیادہ سے زیادہ دباؤ" کی مہم چلائی۔ اگرچہ ایران نے ہمیشہ ایٹمی ہتھیار کے حصول کی تردید کی ہے مگر ٹرمپ نے الزام لگایا کہ ایران اب بھی عراق، لبنان، شام اور یمن میں پراکسی گروپوں کے ذریعے بم بنانے اور مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

ایران کا الٹرا قدامت پسند کیمپ جو امریکہ کے لیے شدید پریشانی کا سبب ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران میں امریکہ کو "عظیم شیطان" یا "عالمی تکبر" کا نام دیا ہوا ہے۔ نے معاہدے کے ناکام ہونے پر صدر روحانی کو تنقید کانشانہ بنایا ہوا ہے۔ نئے منتخب شدہ صدر کا تعلق بھی قدامت پسند گروپ سے ہے۔

اس کے باوجود، ایران کی سینئر سیاسی شخصیات بشمول رئیسی کے مابین وسیع اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ملک کے ایٹمی معاہدے کو بچانے کے مقصد سے ویانا میں جاری مذاکرات میں امریکی پابندیوں کا خاتمے کا حصول یقینی بنانا ہوگا۔ یقینا ایران خارجہ امور کے محاذ پر اس وقت ایک پیچیدہ صورتحال سے گزر رہا ہے اورایسے وقت میں ایک قدامت پسند رہنما کا صدر منتخب ہونا، جس پر یورپی یونین نے 2011ء اور امریکہ نے 2019ء سے پابندیاں لگائی ہوئی ہیں، ویانا مذاکرات کو کس حد تک متاثر کر سکتا ہے؟ اس پر فی الحال تبصرہ قبل از وقت ہوگا۔ اگرچہ امریکہ نے 2002ء میں ریاست گجرات میں ہونے والے فسادات کے بعد، جس میں 2000 سے زیادہ مسلمان جاں بحق ہوئے تھے، نریندر مودی سے دوری اختیار کرلی تھی اورامریکی عہدیداروں نے مسٹر مودی سے ملاقات سے انکار کردیا جبکہ 2005ء میں، انسانی حقوق کے گروپوں کے اس قتل عام کو روکنے کے لئے ضروری اقدامات نہ کرنے کا الزام عائد کرنے کے بعد، امریکہ نے ان کو ویزا دینے سے انکار کردیا تھا۔ تاہم نریندر مودی کی بھارتی الیکشن میں کامیابی کے بعد امریکہ نے ویزا پابندی اٹھا لی تھی۔

اس لیے ابراہیم رئیسی کے صدر منتخب ہونے کے بعد یورپی یونین اور امریکہ ان پر لگائی گئی پابندیاں ہٹاسکتے ہیں تاہم امریکہ، ایران ایٹمی معاہدے پر کسی بھی قسم کی غیر معمولی لچک کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ جہاں تک ایران کے پاکستان کے ساتھ معاملات کا تعلق ہے، اس میں محض اشخاص کی تبدیلی بہت زیادہ متاثر نہیں کرتی کیونکہ دونوں برادر ممالک کے مابین ریاستی سطح پر مضبوط تعلقات ہیں جو کہ عالمی سیاست میں ہونیوالی نئی صف بندی کے تناظر میں مزید مضبوط ہوتے دکھائی دیتے نظر آتے ہیں۔ البتہ ایرانی نظام حکومت میں صدر صنعتی پالیسی سے لیکر خارجہ پالیسی سمیت اہم شعبوں کی سمت کے تعین میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔