کورونا کی وبا نے پوری دنیا کی معمول کی زندگی کو اُتھل پُتھل کر دیا۔ مارچ کے مہینے سے ہمارے ملک میں بھی اس کے اثرات کے سبب لاک ڈاؤن لگانا پڑا۔
اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، دفاتر، تجارت گاہیں سب ہی لپیٹ میں آ گئے کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے تاجروں کا پِتّا پانی ہو گیا۔ چند دن تو یہ لاک ڈاؤن چلا مگر پھر ہر طرف سے ہائے ہائے کی آوازیں آنے لگیں۔ عمران خان پہلے ہی دن سے کہہ رہے تھے کہ ہم مکمل اور طویل لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ہمارے غریب غربا اگر بیماری سے بچ گئے تو بھوک سے مر جائیں گے۔
یوں دھیرے دھیرے کچھ شرائط اور آداب کے ساتھ مختلف کاروبار کھولے جانے لگے۔ بچوں کی تعلیم کا بڑا نقصان ہو گیا تھا۔ سرکاری اسکولوں کے لیے ایک فارمولا مرتب کیا گیا اور اس کے تحت انھیں اگلے درجوں میں ترقی دے دی گئی اور متوقع طور پر اگلا سیشن اگست سے رکھا گیا۔
پرائیویٹ اسکولوں نے اپنا نظام اپنے طور پر چلایا یہ اسکول وہ ہیں جس میں طبقۂ اعلیٰ کے بچے تعلیم پاتے ہیں۔ ان کی فیسیں بھی ان کے طبقے کے مطابق ہوتی ہیں۔ وہ اپنے اساتذہ کو تنخواہ بھی اچھی دیتے ہیں اتنے عرصے تک اسکول بند رکھنے سے ان کی کمر بھی جواب دے گئی۔
اگر وہ بھی سرکاری اسکولوں کی طرح ترقی دینے کا طریقہ اختیار کرتے تو ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ وہ اپنے اساتذہ کو یا تو اپنے پاس سے تنخواہ دیتے یا اساتذہ کو فارغ کر دیتے۔ ہر دو صورتوں میں تباہی نظر آ رہی تھی چنانچہ انھوں نے ایک طریقہ اختیار کیا کہ طلبا کی آن لائن کلاسیں جاری کی جائیں، یوں ان سے فیس وصول ہوتی رہے گی۔ اساتذہ میں بھی بے چینی پیدا نہ ہو گی کہ ان کو تنخواہ مل رہی ہے۔
اب ایک انتہائی پس ماندہ اور حالات کے مارے ملک میں ترقی یافتہ ممالک جیسے آن لائن کلاسز شروع کر دی گئیں اور فی الوقت جاری ہیں۔ آن لائن کلاسز کے ساتھ ساتھ مسائل کا ایک جمِ غفیر بھی چل رہا ہے جس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی۔
یہ درست ہے کہ یہ اسکول طبقۂ اعلیٰ کے بچوں کے ہیں مگر ان کے بھی ذیلی طبقات ہیں مالدار، کم مالدار، مجبور مال دار، زیادہ مال دار اور ہر ذیلی طبقہ اپنے مسائل رکھتا ہے۔ مثلاً انھی گھرانوں میں وہ گھرانے بھی ہیں جن کو کوئی لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر میسر نہیں وہ یہ کلاسیں کیسے جاری رکھیں، وہ چلیے اسمارٹ فون سے کام چلا لیں گے اگر چل سکے۔
پھر کسی شخص کے ایک سے زیادہ بچے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں وہ کتنے لیپ ٹاپ خریدنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بچے بھی اس نوع کی کمپیوٹرائزڈ تعلیم کے عادی نہیں رہے ہیں اس لیے یہ کلاسیں بچوں سے زیادہ ان کے والدین کے لیے ہیں۔ بے چارے والدین لیپ ٹاپ پر بیٹھے بچوں کا ہوم ورک اتارتے رہتے ہیں۔
کچھ والدین وہ بھی تو ہوتے ہیں جن کے پاس وافر دولت موجود ہے مگر وہ علم سے بے بہرہ ہیں۔ وہ ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کرتے رہتے ہیں جو والدین کا رول ادا کر سکیں۔ یعنی بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کا ہوم ورک اتار سکیں۔
پرائیویٹ اسکولوں کے ارباب حل و عقد کو اچھی طرح معلوم تھا کہ کراچی میں بجلی فراہم کرنے والا ادارہ انتہائی باصلاحیت ہے اور اس کی کارکردگی یہ ہے کہ کراچی میں مختلف علاقوں میں 6 سے 12 گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے۔ چنانچہ ان آن لائن کلاسوں کے دوران بھی بجلی غائب ہو جاتی ہے اور ایک علاقے کے والدین دوسرے علاقے کے والدین سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ کیا فلاں وقت آپ کے یہاں بجلی تھی۔ اگر تھی تو ہمیں ہوم ورک لکھوا دیں۔
اسکولوں میں بچوں کو ہوم ورک دیا جاتا ہے اور وہ گرتے پڑتے کر کے لاتے ہیں ٹیوٹر کی مدد لیتے ہیں لیکن جب سے آن لائن ہوم ورک والدین کے سر آ ن پڑا ہے ہوم ورک کے معنی سمجھ میں آگئے ہیں۔
بظاہر پرائیویٹ اسکولوں نے بچوں کو بنا تدریس ترقی دینے کی تن آسانی سے بچا لیا ہے مگر بچوں اور ان کے والدین کو جس اذیت میں مبتلا کر دیا ہے وہ دیدنی ہے۔ گھر میں چاہے کھانا نہ پکے ہوم ورک کا شغل جاری ہے۔ اس سے طلبا کے علم میں اضافہ ہوتا ہے یا نہیں اسکولوں کی آمدنی میں اضافہ نہیں تو کم از کم آمدنی برقرار رہتی ہے۔ ان پر اساتذہ کو ملازمت سے نکالنے کا الزام بھی نہیں آیا ورنہ وہ انھیں کبھی کا فارغ کر چکے ہوتے۔ آن لائن کلاس کی برکات سے سیکڑوں اساتذہ کے پیٹ پل رہے ہیں کیا یہ نیکی پرائیویٹ اسکولوں کے نام پر نہیں لکھی جائے گی۔