لفظ کی حرمت اور ابلاغ، گزشتہ سے پیوستہ?? فارسی کا شاعر بیدل کہتا ہے کہ ؎
مدعی درگزر از دعویٰ طرزِ بیدل
سحر مشکل کہ بہ کیفیتِ اعجاز رسد
کہ اے دعویٰ کرنے والے یہ دعویٰ کرنے کاخیال چھوڑ کہ تو بیدل جیسی شاعری کر لے گا۔ تو بہت بڑا بھی شاعر ہوگا تو ایسا کلام کہہ دے گا جس کے بارے میں لوگ کہیں گے کہ کیاکلام ہے، گویاجادو کردیا ہے?? ٹھیک ہے تو ایسا کرلے گا، تو ایسا کلام کہہ لے گا لیکن میرا کلام تو معجزہ ہے، جادو نہیں ہے اورمعجزہ، جادو کو شکست دے دیتاہے۔ جیسے حضرت موسیٰ ؑ اورجادوگروں کے درمیان معرکے میں ہوا کہ معجزے نے جادو کو شکست دی۔ غورکیجیے کہ معجزے میں اور جادو میں کیافرق ہوتا ہے؟ جادو جوہے وہ عارضی ہے اورمعجزہ دائمی ہوتا ہے۔ معجزہ عاجز کردینے سے ہے کہ وہ مدمقابل کوعاجز کردیتا ہے، بے بس کردیتا ہے، وہ معجزے کے سامنے کچھ نہیں کرسکتا۔ جیسے ابوجہل نے مٹھی میں کنکرپکڑ کر کہا کہ جب یہ کنکریاں کلمہ پڑھ دیں گی تومانوں گا۔ کنکریوں نے کلمہ پڑھ دیا لیکن اسے پھربھی ایمان نصیب نہیں ہوا۔ اس کامطلب کیا ہے کہ جو معجزے کاطالب ہوتا ہے، جوسچائی کوسمجھنے کے لیے معجزے کا مطالبہ کرتاہے وہ حق کا طالب نہیں ہوتا۔ جو سچائی کا طالب ہوتا ہے اسے جب سچائی نظرآجاتی ہے وہ مان لیتا ہے جیسے ان جادوگروں نے مانا۔ حقیقت واضح ہوجانے کے بعدانھوں نے کوئی بحث نہیں کی، حقیقت کے سامنے سرتسلیم خم کردیا۔
انھوں نے فرق کو سمجھ لیا، یہ فرقان تھااوروہ صاحبانِ فن تھے، چنانچہ فوراً مان گئے بلکہ انھوں نے باطل کے سامنے خم ٹھونک کر کہاکہ ہم نے جو دلائل دیکھ لیے ہیں ان پر اور جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اس پر ہم تمھیں ہرگز ترجیح نہیں دیں گے۔ تو نے جوحکم دینا ہے دے دے إِنَّمَا تَقْضِیْ ہَذِہِ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا تمھارا حکم تو بس اسی دنیا تک ہی موثر/ validرہے گا، ہم تو اس سے آگے کی دنیا دیکھ رہے ہیں۔ لَن نُّؤْثِرَکَ عَلَی مَا جَاء نَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاض۔
ادھریہ عالم ہے کہ کنکریاں مٹھی میں جاکر خداکی تسبیح کرنے لگتی ہیں اور انکار کرنے والے پھربھی نہیں مانتے۔ بیہقی نے "دلائل النبوۃ" میں روایت کیاہے کہ مٹھی میں جانے کے بعد سات کنکریوں سے آنے والی آوازایسے تھی جیسے شہدکی مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہو۔ اس سے معجزے کے طالب اورسچائی کے طالب کافرق واضح ہوگیا۔ معجزے کا طالب سچائی کا طالب نہیں ہوتا۔ عام زندگی میں تواصول کارفرما ہے کہ لیس للانسان الاماسعیٰ آپ جتنی کوشش کریں گے اتنا پھل پالیں گے۔ تو صحافت نے قوم کو بنایا۔ آج صحافت کیا کررہی ہے۔ آپ دیکھیے، مجھے اس بات سے بڑا دکھ ہوتا ہے، میں خود، جیسا کہ احباب نے اپنی تقریروں میں ابھی بتایا کہ اس شعبے میں ایک عرصے سے ہوں۔ میں اسّی کی دہائی سے لکھ رہاہوں۔ اور میں نے کئی اخباروں میں لکھاہے۔ نوائے وقت سے میں نے
باقاعدہ کالم نگاری کا آغازکیا تھااردوکے اکثربڑے اخباروں میں لکھاہے۔ آج کل بھی میں ایک اخبار میں ہفتہ وارکالم لکھتا ہوں اور میں نے انٹرنیشنل پریس میں بھی لکھا ہے۔ مشرق وسطیٰ کا جو اخبارایک سو پینتیس سال سے نکل رہا ہے ایجپشین گزٹThe Egyptian Gazette اس میں A Pakistani's Notebook کے نام سے ریگولر کالم لکھتا رہا ہوں۔ اپنے کالم کے لیے یہ نام اس لیے اختیارکیا کہ جوبھی لکھوں گا پاکستان کا نام تو سب سے اوپر آئے گااور بحمدللہ ایساہی ہوا۔ پاکستان اور اہل پاکستان کے موقف کو عالمی میڈیا کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی میں نے اس میدان صحافت کے قارئین کو پاکستان کے جواز اور جدوجہدسے آگاہ کیالیکن دُکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور اس کی تاریخ سے متعلق دو اور دو چار کی طرح واضح باتیں دھندلائی جارہی ہیں۔ اگر آپ تاریخ کامطالعہ کریں۔ آپ سرسید احمدخان سے شروع کردیں اورقائداعظم محمدعلی جناح تک آجائیں کوئی ابہام کوئی Ambiguity آپ کونظر نہیں آئے گی ہماری تاریخ بالکل واضح ہے۔ قائداعظم توبرطانیہ سے پڑھ کر آئے تھے۔ علامہ اقبال بھی وہاں سے پڑھ کے آئے تھے لیکن اس تعلیم سے انھوں نے کیا حاصل کیا تھا وہ جو انھوں نے خودہی بتادیا ہے کہ ؎
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی
اور یہ بھی بتادیاکہ
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
مثلِ کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی
اب بھی درختِ طور سے آتی ہے بانگ لاتخف
حضرت موسیٰؑ جب ڈررہے تھے تو اللہ نے کہا کہ اس سانپ کو اٹھالو تو وہ گھبرائے کہ سانپ کواٹھاؤ ں گا تو یہ تو بڑی خطرناک بات ہے تو اللہ نے کہا لَا تَخَفْ إِنَّکَ أَنتَ الْأَعْلَی ڈرونہیں تم ہی غالب آجاؤ گے۔ ایکIndividual تھے اور ادھر پوری فوج تھی، فرعون کی سلطنت تھی، طاقت تھی، اقتدار تھا، خدا نے ایک Individual سے کہاجاؤ غالب اور کامیاب تم ہی رہو گے اور وہ ایک فرد بالآخرغالب آگیا۔ فرعون اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ، اپنی فوجوں کے ساتھ، اپنے تمام سازو سامان کے ساتھ غرق ہوگیا اور یہ فائزالمرام آگے نکل گئے تو ہرانقلاب کی بنیاد ایک فردایک Individual ہوتا ہے۔ ہر تبدیلی کی بنیادایک فرد، ایکIndividual ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام انقلابات کی تاریخ آپ پڑھ لیں۔ جدید ترین انقلابات سے شروع کردیں قدیم ترین انقلابات تک چلے جائیں، ہرانقلاب کے پیچھے ایک شخص ملے گا۔ جدید لوگ انقلاب ِفرانس سے واقف ہیں۔ اس کے پیچھے ایک شخص ہے???? روسو۔ آپ انقلاب روس سے واقف ہیں اس کے پیچھے ایک شخص ہے???? کارل مارکس، آپ انقلابِ ایران سے واقف ہیں اس کے پیچھے ایک شخص ہے???? آیت اللہ خمینی ??تو تمام انقلابات کے پیچھے ایک شخص ہوتا ہے۔ میں نے پہلے عرض کیا کہ جس نے اپنے آپ کو دریافت کرلیا، جس نے اپنی قوتوں سے آشنائی پیدا کرلی وہ غالب آجاتاہے۔ إِنَّکَ أَنتَ الْأَعْلَی۔ تو تم ہی غالب رہو گے۔ بشرطیکہ ڈرنے والے نہ ہو۔ لاتخف بھی کہا ہے??
مثل کلیم ہو اگر معر کہ آزما کوئی
اب بھی درخت ِطور سے آتی ہے بانگِ لاتخف
ڈرو نہیں، ڈرنے کی کوئی بات نہیں اورجب انسان ڈرتا ہے تو پھر وہ ان طاقتوں کے سامنے جھکتا ہے جو اس قابل نہیں ہیں کہ ان کے سامنے جھکاجائے۔ حضرت ابراہیم ؑنے کہاتھا ناکہ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ۔ او بیوقوفو! اپنے ہاتھوں سے بناتے ہو اور پھر انھی کے آگے جھکتے ہو، اپنی ہی تراشی ہوئی چیزوں کو پوجتے ہو??؟ کیسی عجیب بات ہے! تو خوف جوہے وہ جھکاتا ہے۔ اس خوف کو اپنے اندرسے نکال کے باہر پھینکو۔
ایک استاد اور شاگرد نہر کے کنارے کنارے جارہے تھے، رات ہوگئی تو شاگرد تھوڑی دیر بعد کہتا ہے کہ استاد جی ڈر لگ رہا ہے، اندھیرا ہے، جنگل ہے، ویرانی ہے، ساتھ نہر بہہ رہی ہے تو استاد کہتا ہے، ڈرنے کی کوئی بات نہیں، چلوچلو چلتے رہو??تیزترک گام زن منزل مادورنیست??تھوڑا فاصلہ گزرتا ہے، پھر کہتا ہے استاد جی ڈر لگ رہا ہے تو وہ پھر اسے تسلی دیتاہے?? شاگردکہتاہے بڑااندھیرا ہے، تاریکی ہے، جنگل ہے، ادھر سے کچھ نہ آجائے، اُدھر سے کچھ نہ نکل آئے، کوئی حادثہ نہ ہوجائے، میرا تو دل ڈررہا ہے۔ اب استاد رُک کر اس سے پوچھتا ہے کہ تمھاری جیب میں کچھ ہے??؟ تو وہ کہتا ہے جی ہاں میرے پاس فلاں فلاں مال ہے۔ استاد کہتا ہے ادھر لاؤ تو وہ جتنا سرمایہ اس کے پاس تھا استاداس سے لے لیتا ہے اور لے کر نہر میں پھینک دیتا ہے، کہتا ہے?? "اب چلو"، ??پھر تھوڑی دیر بعد پوچھتا ہے کہ اب تو ڈرنہیں لگ رہا ??؟ شاگردکہتاہے نہیں اب تو کوئی ڈر نہیں لگ رہا ??رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعادیتاہوں رہزن کو ??اب کس بات کا ڈر ہے۔ جناب ڈر تو اندر ہوتا ہے، باہر کوئی نہیں ہوتا تو اس نے اندر سے جب ڈر کو نکال کے نہر میں پھینکا تو پھر کہا ٹھیک ہے اب کوئی ڈر نہیں، خوف نہیں، چلتے رہیں ??تو اِس ڈر کو اندر سے نکال دیں کہ اگرمیں اخبار کو ایسا نہیں بناؤں گا، خبر ایسی نہیں بناؤں گا جیسی کہ قارئین چاہتے ہیں تو اخبار کیسے فروخت ہوگا؟ یہ ڈر ہے نا، Rating کا، مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے چینل کی Rating ڈاؤن ہوجائے گی۔ یہ ڈر ہے۔ تو اس ڈراور اس خوف کونکال کے اگر دریا میں پھینک دیں گے تو پھر آپ طاقتور ہو جائیں گے۔
اہلِ قوت شوزِ وردِِ یا قوی
تا سوارِ اُشتر خاکی شوی
محنت اور دیانت کے ساتھ اپناکام کرتے رہو، دنیااس کی قدرخودپہچان لے گی۔ قوت والے پر بھروسہ رکھو، اس پر اعتمادکروگے تو اس مٹی کے پتلے پرسوار ہوجاؤگے یعنی وجودپر، ابھی تو یہ وجودتجھ پر سوار ہے۔ (جاری ہے)