روم کے پاکستانی سفارت خانے سے نکلے تو ہماری منزل روم یونی ورسٹی تھی۔ روم یونی ورسٹی دنیاکی قدیم ترین یونی ورسٹیوں میں سے ہے۔ ۱۳۰۳ء میں قائم ہوئی، طالب علموں کی تعدادکے اعتبارسے یورپ کی سب سے بڑی یونی ورسٹی کہلاتی ہے۔ بہت سے نوبل انعام یافتگان، یورپین پارلیمنٹ کے سربراہان، سائنسدان، مذہبی اسکالرزیہاں سے فارغ التحصیل ہونے والوں میں شامل ہیں۔ یونی ورسٹی رینکنگ میں یہ اٹلی میں پہلے نمبرپرآتی ہے۔
روم یونی ورسٹی کے لیے روانہ ہونے سے پہلے یہاں کی استاذہ ماریا ماروموٹا سے میرارابطہ ہوگیاتھا۔ ماریا نہایت خلیق خاتون ہیں۔ انہوں نے ہمارے ڈرائیورکو اتنی اچھی طرح یونی ورسٹی کیمپس کا راستہ سمجھایاکہ وہ بغیر کسی دِقت کے بہ سہولت یونی ورسٹی کے دروازے تک پہنچ گیا۔ یہاں پہنچ کر میں نے انہیں فون کیاتوانہوں نے بڑی جوشیلی مسرت سے کہابس بس آپ یہیں ٹھہریں میں آپ کے استقبال کے لیے آرہی ہوں۔
ماریابی بی نے ہمیں جہاں رکنے کو کہاتھاہم نے اپنے قدموں کو وہیں روک دیا۔ یہ دیکھ کر قدرے تعجب ہواکہ یہاں کہیں بھی روم یونی ورسٹی کے الفاظ درج نہیں تھے بلکہ ہر جگہ عمودی اندازمیں قرمزی بینرز پر لکھاہوا Sapienza کا لفظ لٹک رہاتھا۔ معلوم ہواکہ یورپ کی اس بلندمرتبہ دانش گاہ کو۱۶۵۰ء میں اس کا موجودہ نام SAPIENZA UNIVERSITY DI ROMA ملا، اطالوی زبان کے اس لفظ کامطلب ہے دانش۔ گویا جب آپ اس دانش گاہ کاذکرمقصودہوتو فقط Sapienza کہہ دینابھی کافی ہے۔
چندہی لمحے میں تقریباً بھاگتی ہوئی ماریا ماروموٹا ہمارے استقبال کے لیے یونی ورسٹی کے صدر دروازے پر پہنچ گئیں۔ ان کی پھولی ہوئی سانس ان کے جوش وخروش کے اظہارکے لیے کافی تھی۔ وہ ہم سے باربار پوچھ رہی تھیں آپ کوکوئی دِقت تو نہیں ہوئی؟ راستہ آسانی سے مل گیا؟ راستے میں ٹریفک نے تو پریشان نہیں کیا ?؟ ہمارے ڈرائیورصاحب روم کی سڑکوں کے رمزشناس تھے وہ ہمیں ایسے راستوں سے لائے تھے کہ جن میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی۔
میں روم کی سڑکوں، چہارراہوں اور اشاروں سے گزرتے ہوئے سوچتا رہا کہ یہیں کوئی چوراہا ہو گا جس پر اشفاق احمدکاچالان ہوا ہو گا جس کے بعد انہیں عدالت میں پیش ہونا پڑا اور انہوں نے بتایا تھا کہ جب وہ عدالت میں گئے تو ایک آواز بلند ہوئی? "ٹیچر ان کورٹ"? اور جج سمیت سب احتراماً کھڑے ہو گئے۔ یہاں روم یونی ورسٹی کی ایک خاتون استاد جس سے ہماری پہلی ملاقات ہو رہی تھی صرف یہ جان کر کہ پاکستان سے ایک ٹیچر یہاں آ رہا ہے اتنے احترام اور جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہی تھی جیسے دو پرانے دوست مدتوں کے بعد مل رہے ہوں۔ انہوں نے ہمیں دور ہی سے پہچان کر ہاتھ ہلانا شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے نہایت تپاک سے ہمیں خوش آمدید کہا۔
ڈرائیور صاحب تو ہمیں ان کے سپرد کر کے واپس اپنی گاڑی میں جا بیٹھے اور ہنستی مسکراتی اطالوی پروفیسر ماریا ماروموٹا ہمیں ساتھ لیے یونی ورسٹی کے بارے میں باتیں کرتی ہوئی اپنی فیکلٹی کی جانب چل دیں۔ یورپ میں یونی ورسٹیاں عام طور سے زیادہ وسیع عمارتوں میں نہیں ہوتیں۔ مختلف فیکلٹیاں مختلف عمارتوں میں یہاں وہاں پھیلی ہوتی ہیں لیکن روم یونی ورسٹی کا سب سے بڑا کیمپس، ایک سو دس ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے، ہمیں اپنا پنجاب یونی ورسٹی کا نیوکیمپس یاد آیا جو سولہ سو ایکڑ سے بھی زائد رقبے پر پھیلا ہوا ہے تاہم، ہم ان کے ساتھ تیز تیز چلتے ہوئے ان کی فیکلٹی کی جانب جا رہے تھے اور وہ راستے میں آنے والے مختلف شعبوں سے ہمیں آگاہ کر رہی تھیں۔
مجھے محسوس ہوا کہ کچھ تو ان کی طبیعت میں تیزی ہے اور کچھ انہیں اپنی فیکلٹی کے سینئر اساتذہ کی اس میٹنگ میں پہنچنے کی جلدی ہے جس کا اہتمام انہوں نے خاص طور سے ہمارے استقبال کے لیے کیا ہے اور جس کی سربراہی ان کی ڈین صاحبہ کرنے والی ہیں۔ بہت جلد ہم ان کی فیکلٹی تک پہنچ گئے، جہاں اٹالین انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز کی سربراہ Prof Alessandra Bezzi کی سربراہی میں فیکلٹی کے سینئر اساتذہ ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ میزبان فیکلٹی کے علاوہ بعض دوسری فیکلٹیوں کے اساتذہ بھی تشریف لے آئے تھے۔ تعارف کے مرحلے طے ہوئے اور جلد ہی میٹنگ کا آغاز ہو گیا۔
پروفیسر الیسیندرابیزی نے اپنی یونی ورسٹی اور خاص طورسے فیکلٹی کے بارے میں بتایا۔ ان کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ روم یونی ورسٹی اٹلی کی سب سے بڑی یونی ورسٹی ہے۔ جس کا ذریعہ تعلیم انگریزی ہے۔ یونی ورسٹی میں گیارہ فیکلٹیاں ہیں جن میں ۶۵ شعبے سرگرم عمل ہیں ایک لاکھ چالیس ہزار طلبا و طالبات، آٹھ ہزار اساتذہ و منتظمین کی نگرانی میں تعلیم و تعلم کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ یونی ورسٹی ۲۰۱۶ء کی ورلڈ یونی ورسٹی رینکنگ کے مطابق دنیا میں ۹۰ ویں درجے پر اور اٹلی میں پہلے درجے پر آئی۔
اب میری باری تھی میں نے اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنی یونی ورسٹی اور وطن کا تعارف کرایا اور روم یونی ورسٹی کے ساتھ پاکستان اور اردو کے قدیم روابط کا ذکر کیا (خطاب کی تفصیل آئندہ)۔ راقم کے خطاب کے بعد راقم کی کتاب Humanity Beyond Creed اور حذیفہ کی کتابA Pyramid of Reminiscenceska کا اٹلی میں اجرا کیا گیا۔ ڈین آف فیکلٹی اور اٹالین انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز کی سربراہ پروفیسر الیسیندرابیزی نے ان کتابوں کا اجرا کیا۔
جیسا کہ ذکر ہوا اس میٹنگ میں دوسرے شعبوں کے اساتذہ بھی شریک تھے۔ میٹنگ کے بعد مجھے فیکلٹی کے کمرہ ہائے جماعت میں لے جایا گیا۔ ایک کمرے میں فارسی کی کلاس ہو رہی تھی۔ اطالیہ کا حسنِ مجسم، محو تدریس تھا۔ میں یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ? دریک شاخ چون پیدا شد این گلہای گوناگون?۔ میں نے فارسی کی کلاس سے فارسی میں گفتگو کی۔ خاتون استاد جو خود بہت متاثر کن شخصیت کی مالک تھیں، میری فارسی گفتگو سے بہت متاثر ہوئیں اور انہوں نے عمدہ فارسی میں میرے سوالوں کے جواب دیے۔ ان کے ہونٹوں سے فارسی، شربت ِقند و گلاب کی طرح بہہ رہی تھی مجھے حافظ کی یاد آئی ؎
آنکہ درطرزغزل نکتہ بہ حافظ آموخت
یارِ شیرین سخنِ نادرِ گفتارِ من است
طالب علموں میں اطالوی طلبا کے ساتھ ایرانی طلبا بھی تھے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ایرانی طالب علم، جن کی اپنی زبان فارسی ہے، وہ اطالیا آ کر اہل اطالیا سے فارسی پڑھ رہے ہیں ?؟ میرے اس استفسار پر بتایا گیا کہ یہ فارسی ادبیات کے طالب علم ہیں اور ان کے خانوادے سیاسی وجوہ سے قیام ایران ترک کر چکے ہیں۔ فیکلٹی کی سربراہ اور دوسرے اساتذہ جو مجھے کمرہ جماعت دکھانے کے لیے لے گئے تھے ہماری فارسی گفتگوسے خوب متاثر و محظوظ ہوئے۔
آخر میں ڈین صاحبہ نے اپنی یونی ورسٹی کی جانب سے مجھے تحفہ پیش کیا۔ یونی ورسٹی کے سرکاری رنگ اور شعار کے حامل قرمزی تھیلے میں بند ایک نہایت خوب صورت فولڈر جس میں بڑے سلیقے سے شائع اور نصب کیا گیا لیٹر پیڈ تھا اس کے ساتھ ایک خوب صورت قلم۔ اس قلم کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ اس سے جس طرح کاغذ پر لکھا جا سکتا ہے اسی طرح کمپیوٹرکی سکرین پر بھی لکھ سکتے ہیں۔
پاکستان آنے کے بعد میں نے لیپ ٹاپ کی الیٹ بک خریدی تو اس معجز رقم قلم کی یہ خصوصیت سچ ثابت ہو گئی۔ اب میں اس رومی ثم اطالوی قلم سے بہ یک وقت کاغذ اور لیپ ٹاپ اسکرین دونو پر لکھ سکتاہوں۔ ایک ایسی یو ایس بی بھی تحفہ دی گئی جو موبائل اور لیپ ٹاپ دونوں میں استعمال کی جا سکتی ہے اور جس کے ذریعے موبائل کا ڈیٹا براہ راست لیپ ٹاپ میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔