اللہ رب العزت نے وقت کی قسم کھا کر اس کی طاقت کو واضح فرما دیا ہے اور وقت سدا ایک سا نہیں رہتا لیکن پی ٹی آئی کو اس کا ادراک نہیں ہوا اور جب احساس ہوا تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس لیے صدارتی ریفرنس دائر کر کے سپریم کورٹ سے رائے مانگی گئی کہ انتخابات خفیہ ہو سکتے ہیں یا اوپن بیلٹ سے؟ تائید غیبی کی امید رکھی گئی اور پھر وہی ہوا جو ہونا تھا سب جانتے تھے کہ سپریم کورٹ کی رائے آئین سے متصادم نہیں ہو سکتی۔ آخری سماعت پر ریمارکس نے متوقع فیصلے کا اشارہ بھی دے دیا جب کہا گیا کہ اوپن یا خفیہ فیصلہ پارلیمنٹ کا، ہم پارلیمان کا متبادل نہیں، ان کا اختیار نہیں لیں گے۔ جب آئین کہتا ہے ووٹنگ خفیہ تو بات ختم۔ اور پھر سپریم کورٹ کی رائے نے بات ختم کردی۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی رائے کا احترام کرتے ہوئے کمیٹی بنا دی جو چار ہفتوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے سفارشات مرتب کر کے الیکشن کمیشن کو پیش کرے گی لیکن وقت کی کمی کے باعث تین مارچ کے سینٹ انتخابات پرانے قاعدے کے تحت ہی ہوں گے۔
پی ٹی آئی کی سینٹ کی ٹکٹوں پر تنقید کی گئی۔ بلوچستان میں عبدالقادر کو سینٹ کا ٹکٹ جاری کیا۔ پارٹی میں تنقید پر ٹکٹ واپس لے کر ظہور آغا کو دیا گیا۔ عبدالقادر بلوچستان عوامی پارٹی سے ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پی ٹی آئی نے اپنے امیدوار ظہور آغا کو سینٹ کے انتخابات سے دستبردار کروا لیا جبکہ سردار یار محمد رند کے بیٹے نے سینٹ کا ٹکٹ نہ ملنے پر جنرل نشست پر بطور آزاد امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے۔ سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے چار روز تک مسلسل ملاقاتوں کے بعد پی ٹی آئی رہنما سردار یار محمد رند کو اپنے بیٹے کو اتحادی جماعت کے حق میں دستبردار کرانے پررضامند کرلیا ہے۔ کسی سے نہ ملنے والے حفیظ شیخ بھی اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ یہاں اقتدار کے لیے سب سے ملنا پڑتا ہے۔
یہی غلطی سندھ میں دہرائی گئی جہاں پارٹی ممبران نے فیصل واوڈا اور سیف اللہ ابڑو کو ٹکٹ دینے کی مخالفت کی لیکن کپتان کی نہیں سنتا کی دھن میں سب کو نظر انداز کرتے ہوئے فیصل واوڈا کی دہری شہریت کے سبب قومی اسمبلی کی نشست کو خطرہ ہونے کے باعث سینٹ کی ٹکٹ دی گئی۔ سیف اللہ ابڑو پر 35 کروڑ میں سینٹ ٹکٹ خریدنے کا الزام بھی تحریک انصاف کے ممبر کا ہی ہے۔ اختلافات سامنے آنے پر خرم شیر زمان نے اپنے اراکین کے اغوا کا الزام لگایا اور جب تینوں ناراض اراکین نے کھل کر پارٹی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے پارٹی امیدواروں کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا تو سندھ اسمبلی میں ہنگامہ اور تشدد نے جگہ پائی۔ کل تک چھانگا مانگا پر تنقید کرنے والی پی ٹی آئی نے دودن سے کراچی میں اپنے اور اتحادی اراکین کو محصور کر رکھا ہے۔ روٹھے ہو تم تم کو کیسے منائوں پیا، کے مصداق وزیراعظم جن سے تمام وفاقی و صوبائی اراکین کو شکوہ ہے کہ وہ کسی سے ملاقات نہیں کرتے، نہ صرف ملاقاتیں کرتے رہے ہیں بلکہ گلے دور کرنے کے وعدے بھی کر رہے ہیں۔ یہ کوششیں کتنی بار آور ہوں گی آج ہونے والے سینٹ انتخابات کے نتائج واضح کر دیں گے لیکن سیانے کہتے ہیں ویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکراں۔
کسی کو این آر او نہیں دوں گا کا نعرہ لگانے والے کپتان نے پنجاب میں کامیابی کے بعد بلوچستان میں 6 اور خیبرپختونخوا میں 4 نشستوں کی پی ڈی ایم کو پیشکش کی جو قبول نہیں کی گئی کیونکہ پیپلزپارٹی کو امید ہے کہ اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار ہے اور بقول اس کے حکومت کے برے دن قریب ہیں۔ نوشہرہ میں وزیر دفاع پرویز خٹک کے خاندان کے 5 پانچ افراد کو صوبائی و قومی نشستیں دینے کے باوجود ایک اور فرد کو پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کا نتیجہ شکست کی صورت میں دیکھ کر پاکستان تحریک انصاف بوکھلا گئی ہے اور سینٹ انتخابات میں کوئی چانس لینے کو تیار نہیں۔ ادھر حمزہ شہباز کی بیس ماہ بعد منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں اچانک ضمانت ایک کرشمہ ہے جس کے ساتھ ہی ن لیگ میں ہلچل اور پنجاب کی سیاست حمزہ شہباز کے حوالے کرنے کی باتیں سنی جا رہی ہے۔ نتیجہ پنجاب میں سینٹ الیکشن پر خاموش مفاہمت کی صورت میں واضح ہے۔ یہی اس کہانی کا اصل ٹرن ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے بہت کامیابی کے ساتھ پی ڈی ایم میں شریک رہ کر بھی ایک قابل قبول سیاسی جماعت کی حیثیت کو نہیں گنوایا جبکہ مریم نواز نے عوامی پذیرائی اور سیاسی مقبولیت تو کمائی لیکن جوں جوں ان کے بیانات میں شدت آتی رہی ان کا ناقابل قبول ہونا بھی مسلمہ ہوتا گیا۔
یوں بھی تقسیم کرنے اور حکمرانی کرنے کا تصور انگریزوں نے اس خطے میں بہت کامیابی سے استعمال کیا اور اس لازوال فارمولے کا کامیابی سے استعمال اب تک جاری ہے۔ پی ڈی ایم اپوزیشن اتحاد کا فائدہ اٹھا سکے گی یا حکومت سینٹ میں عددی اکثریت حاصل کر کے تحریک عدم اعتماد کا کانٹا نکال پھینکنے میں کامیاب ہوگی۔ اگلے چند گھنٹوں میں واضح ہو جائے گا۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف کو آج اپنے ناراض اراکین منانے میں جس تردد کا سامنا ہے کیا بیس کروڑ عوام کی توقعات پر پورا نہ اترنے اور 8.7 فیصد مہنگائی کے تحفہ اور مسلسل بڑھتے قرضے کے بوجھ تلے دبتے عوام کا غم و غصے کا سامنا کر پائے گی کہ جمہوریت کا حسن یہی ہے کہ عوام کے نمائندے عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ سینٹ انتخابات کا معرکہ سر کر بھی لیا تو اصل معرکہ تو الیکشن کی صورت میں نزدیک ہے۔ کیا حکومت اس کے لیے تیار ہے۔ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ ضمنی انتخابات اور سینٹ الیکشن میں بہرحال حکومت کو اشارہ دیا گیا ہے اور سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔