Wednesday, 26 March 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Farhat Abbas Shah
    4. Army Chief Ka Thos Khitab Aur Aik Pir Ka Bachgana Bayan

    Army Chief Ka Thos Khitab Aur Aik Pir Ka Bachgana Bayan

    جعفر ایکسپریس پر دہشت گردی کے بہیمانہ حملے نے جہاں پورے ملک کو غم و غصے سے دوچار کردیا ہے وہاں ریاست بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور نظر آتی ہے۔ افواج پاکستان نے فوری طور پر کامیاب آپریشن کرکے انسانیت دشمنوں کے عزائم تو خاک میں ملائے سو ملائے لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل احمد شریف کا یہ کہنا بھی دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو ٹھوس پیغام ہے کہ رولز آف دی گیم چینج ہونگے اور اس کے بعد پاکستان کی قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا اپنیخطاب میں یہ کہنا بھی ملک دشمن عناصر کو مسکت جواب ہے کہ پاکستان کو اب ایک سوفٹ ریاست ثابت کرنے کی حالت سے باہر آ کر ہارڈ ریاست کے طور پر ملک و قوم کے دشمنوں کو بتانا ہوگا کہ ہم تر نوالہ نہیں ہیں۔

    شاید پاکستان کے عام شہری کو یہ اندازہ نہیں کہ بین الاقوامی قوتوں، مالیاتی اداروں اور پاکستان دشمن ممالک نے کس کس طرح پاکستان کو انڈر پریشر رکھ کر بلیک میل کیا ہے۔ پالیسیاں پچھلی حکومتیں اور لیڈرشپ بناتی ہے، نتائج بعد میں آنے والوں کو بھگتنا پڑتیہیں۔ سرزمین فتنہ و شر بھارت نے جس طرح پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کیا ہے اس کی مثال تلاش کرنا ناممکن ہے۔ دہشت گردی خودکرنی اورالزام پاکستان پر لگا دینا۔

    بلاشبہ پاکستان نے اپنا سوفٹ امیج بنانے کے لیے جتنے نقصانات اٹھائے ہیں اور صبر سے کام لیا ہے شاید ضرورت سے بھی کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے۔ اسی وجہ سے دہشت گردوں اور انکے "شرپرستوں" کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ انہوں نے ظلم اور بربریت کی انتہا کر رکھی ہے۔ آج اگر جنرل عاصم منیر نے ہارڈ سٹیٹ کی بات کی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اب اسکے سوا کوئی چارہ نہیں۔

    دوسری طرف ہمارے بعض دانشوروں کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ ہر پاکستانی کو کسی بھی فرد اور شخص سے بالا ہو کر وطن سے وابستگی ثابت کرنے کا وقت ہے۔ جن لوگوں نے عمران خان کو جان مال، عزت بے عزتی، دین ایمان اور قوم و ملک سے ارفع و اعلیٰ قرار دے رکھا ہے اور اس پر ایمان بھی لاچکے ہیں، ان کے لیے یہ بات ہضم کرنا ہی مشکل دکھائی دیتی ہے کہ وطن کو کسی فرد واحد سے بالا و برتر سجھنا چاہیے۔ ان کے لیڈر کا حال یہ ہے کہ جیل میں بیٹھا زمینی حقائق اور سیاسی دانائی سے تہی بیانات دے رہا ہے۔ موصوف کا کہناہے کہ افغانستان ہمارا برادر ملک ہے، اسکے ساتھ جنگ کرنے کی بجائے مذاکرات کی میز پر بات کی جائے۔ یعنی دہشت گردی کا جواب میز پر بیٹھ کر دیا جائے، وہ بھی اس احسان فراموش ملک کو جو پاکستان کی طرف سے بخشے گئے نوالوں کی گنتی کرنے سے قاصر ہے۔

    پڑھے لکھے لوگوں کے علم میں ہے کہ پاکستان نے آزادی کے بعد جب اقوام متحدہ کی رکنیت کی کوشش کی تو، افغانستان واحد ملک تھا، جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کے خلاف ووٹ دیا۔ 1947ء میں افغانستان نے فوری طور پر نو آباد پاکستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کو مسلح کیا اور پاکستانی سرزمین کے بڑے حصے پر بے بنیاد دعوے کیے، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات تسلسل کے ساتھ کبھی بھی معمول پر نہیں آ سکے۔ کابل کبھی بھی اس جھوٹے اور بیبنیاد دعوے سے دستبردار نہیں ہوا کہ دونوں ملکوں کے درمیان موجود ڈیورنڈ لائن ایک تاریخی اور جغرافیائی حقیت ہے۔

    افغانستان آج بھی پاکستان کی سرحدوں کا احترام کرنے کی بجائے یہی کہتا پایا گیاہے کہ وہ علاقے جہاں پشتون آباد ہیں (بشمول خیبر پختونخوا، قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان کا ایک بہت بڑا حصہ) افغانستان کا حصہ ہیں اور ان علاقوں کو افغانستان میں شامل کرنے کیلے افغانیوں نے بہت سی تحریکیں بھی چلائیں جن میں پشتونستان تحریک معروف ہے۔ لیکن پاکستان نے ہمیشہ اس بات کو قطعی اور حتمی طور پر مسترد کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ یہ علاقے پاکستان کے تھے، ہیں اور رہیں گے۔ پاکستان ایک ایسی باوقار ریاست ہے جو اپنے کسی بھی حصے کو کسی اور ملک کے حوالے نہیں کر سکتا، اس بات پر افغانستان اور پاکستان کے درمیان میں بہت دفعہ کشیدگی پیدا ہوچکی ہے خاص کر حامد کرزئی حکومت تک یہ کشیدگی عروج پر تھی۔

    آج بھی افغانستان بھارت کے چرنوں میں بیٹھ کر پاکستان کے ساتھ جو منافقت اور ظلم کر رہاہے، اب اس کے ساتھ میز پر بیٹھ کر بات کرنے کا وقت گزر چکا ہے اور پھر افغانی وار لارڈز کی تاریخ گواہ ہے کہ ڈالرز دے کر ان سے کچھ بھی کروایا جاسکتا ہے۔

    عمران خان نے اپنے دور حکومت میں دہشت گردوں کے ساتھ ایسی ہی عاقبت نااندیشانہ سوچ کے اور نابالغ پالیسی کی تحت دہشت گردوں کو گھر میں گھسیڑ لیا جس کا بھگتان اب پورے ملک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ابھی بھی تحریک انصاف نے قومی سلامتی کے معاملے سے خود کو علیحدہ کرکے جس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اس نے پاکستان کے ہر باشعور انسان کو مضطرب کرکے رکھ دیا ہے۔

    ہر گزرتا دن تحریک انصاف کو ایک سیاسی پارٹی سے ایک اقتدار پرست جتھہ ثابت کرتا جا رہا ہے جس کی پاکستان کی مستقبل کی سیاست میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔