یہ بات امر مسلمہ ہے کہ دنیا میں منفی قوتیں اثبات کو اور شر پرست قوتیں خیر کو مٹانے پر تلی رہتی ہیں۔ پچھلے پچاس سالوں سے سیاست کی طرح علم و ادب کے شعبے بھی مفاد پرست افراد کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوے ہیں۔
خاص طور پر ادب کو چند افراد نے جس طرح ترنوالہ سمجھ کر اپنے اپنے جناتی معدوں کے لیے چارا بنایا ہے یہ ایک پوری تاریخ ہے۔ یہ لوگ کس طرح حقیقی شاعروں اور ادیبوں کو روند کر سامنے آئے اور سچ مچ کے ادیب بن کر مفادات اٹھاتے چلے آ رہے ہیں۔ بڑی بڑی ادبی کرسیوں پر چھوٹے چھوٹے آدمیوں نے بیٹھ کر وہی کچھ کیا ہے جو ہمارے زیادہ تر حکمرانوں نے ملک کے ساتھ کیا ہے۔ لیکن نظام قدرت کا بھی اپنا ہی انداز ہے۔
ابتدائی آفرینش سے ہی شر کی قوتیں خیر کو نیست و نابود کرنے پر تلی رہی ہیں لیکن اگر وقتی طور پر کبھی بظاہر غالب نظر آتی بھی ہیں تو اگلے ہی وقت میں ذلت و رسوائی کے ایسے پاتال میں جا گرتی ہیں کہ آنے والے زمانے ان کی مثالیں دیتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے ادبی میدان میں بھی تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہی ہے۔ یہاں بھی ساری ساری زندگی ادبی اجارہ داریاں قائم کرکے شہنشاہ معظم بنے ہوئے لوگ جب مرتے ہیں تو ان کو کوئی یاد رکھنے والا نہیں ہوتا، جبکہ منیر نیازی، ناصر کاظمی، فیض اور فراز جیسے حقیقی تخلیق کار مرنے کے بعد زیادہ جی اٹھتے ہیں۔
ممتاز ناول نگار علی نواز شاہ سیکریٹری جنرل حلقہءارباب ذوق لاہور اور صدر ممتاز شاعر اعجاز رضوی نے اپنے رفقاءکار کے ساتھ مل کر گزشتہ سات سالوں سے حلقے کو نئے زمانے اور نئی صورتحال سے ہم آہنگ بنایا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں حلقے کو روایتی تنقید اجلاسوں سے نکال کے مطالعاتی نشستوں، فلسفیانہ مباحث، نظریاتی مکالموں اور سیاسی سماجی موضوعات پر تحقیق و تنقید کے اجلاسوں میں تبدیل کیا ہے۔
اس سال ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے حلقہءارباب ذوق نے سالانہ اعترافِ فن ایوارڈ کا اجراءکیا ہے جس کا ایک مقصد تو فیک اور درباری نام نہاد شاعروں اور ادہبوں کے درمیان ایوارڈز کی بندر بانٹ کے مقابلے میں جینوئن اور بڑے ادیبوں کی خدمات کا علم بلند کرنا ہے اور دوسرا حقیقی ادیبوں کو دیوار سے لگانے اور انہیں مایوسی کا شکار کرکے ادبی اور سماجی تشکیل کے دھارے سے دور رکھنے کی سازش کو ناکام بنانا ہے۔ دسمبر 2024 میں حلقہءاربابِ ذوق کے انہیں تعمیری مقاصد میں کی تکمیل کے لیے لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ کا اعلان کیا گیا جس کے بعد حلقہءاربابِ ذوق کی گیارہ رکنی جیوری نے سینئر ممتاز، مقبول، اعلیٰ اور مزاحمتی شاعر ڈاکٹر ابرار عمر کے حق میں فیصلہ دیا۔
ایوارڈ حلقہ کے صدر، اعجاز رضوی، سیکریٹری علی نواز شاہ، صدر تقریب ڈاکٹر یونس خیال، سینئر نائب صدر شفیق احمد خان، نائب صدر فرحت عباس شاہ، جوائینٹ سیکریٹری فیصل زمان چشتی۔ اراکین مجلس عاملہ، ڈاکٹر اسد محمود خان، ہمایوں پرویز شاہد، عزیز مغل اور وفاقی وزیرِ اطلاعات و ثقافت کی ایڈوائزر براے کلچر اینڈ ہیری ٹیج محترمہ فرح دیبا کی موجودگی میں دیا گیا۔ اس موقع پر مہمانانِ اعزاز مزاحمتی شاعر ڈاکٹر طاہر شبیر اور اظہرعباس، حلقہ کے سینئر ممبرز عباس مرزا، راغب تحسین، شہزاد واثق، طلحہ غفور، حنظلہ شاہد، شگفتہ نعیم ہاشمی، ڈاکٹر خالدہ انوز، الماس شبی، ڈاکٹر فرخ، راؤ ندیم، ڈاکٹر محمدعلی، عرفان اللہ عرفان سمیت درجنوں ممبرز نے شرکت کی۔ لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ حاصل کرنے والے ڈاکٹر ابرار عمر کا تعلق شہر فیض و اقبال سیالکوٹ سے ہے۔ انہوں نے مرے کالج جیسی عظیم درسگاہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر راولپنڈی میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔
بعد ازاں وہ اسلام آباد میں ہی مقیم ہو گئے۔ انہوں نے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز کیا۔ اسی دوران "پاکستان میں ہم جنس پرستی" پر ان کا تحقیقی مقالہ شائع ہوا۔ اپنی پی ایچ ڈی میں انہوں نے "سی بی ٹی کے طریقہ علاج کے ڈپریشن، فوبیاز، او سی ڈی، ڈرگ ایڈکشن اور دوسری نفسیاتی بیماریوں پر اثرات" پر ریسرچ مکمل کی۔ ملکی اور بین الاقوامی کئی ریسرچ جرنلز میں انکے تیس سے زیادہ ریسرچ آرٹیکلز چھپ چکے ہیں۔ ڈاکٹر ابرار عمر پاکستان بھر میں کئی میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز میں پبلک ہیلتھ کے پروفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
ڈاکٹر ابرار عمر آکسفورڈ سینٹر اف سی بی ٹی برطانیہ سے سرٹیفیکیشن لے چکے ہیں۔ انہوں نے نیشنل گلڈ آف ہپناٹسٹس امریکہ سے ہپناٹزم کی سرٹیفکیشن بھی لی ہوئی ہے۔ وہ سی بی ٹی پریکٹس کرتے ہیں اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کا علاج کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ابرار عمر کے نظموں اور غزلوں کے چھ مجموعے بعنوان "دسمبر اب بھی تیرا منتظر ہے"، "خیالوں میں تمہاری انکھیں "، "میرے وائلن کے تاروں میں "، "محبت فاصلوں کی قید میں ہے"، "یہ جو تنہائی ہے" اور "دوسری بارش" چھپ چکے ہیں۔ ان کی شاعری کا ایک انتخاب "کٹ ہی گئی جدائی بھی" کے نام سے چھپ چکا ہے۔ ڈاکٹر ڈاکٹر ابرار عمر کی دو کتابوں کے انگلش تراجم بعنوان "دسمبر ییٹ اویٹس یو" اور"فرام مائی وائلنز سٹرنگز" چھپ چکے ہیں۔ وہ انگلش میں بھی شاعری کرتے ہیں۔
ان کی انگلش نظمیں معروف انگلش نظم نگار مارتھا فرنچ "نیو ملینیم پوئٹس لائبریری آف کانگرس" میں شائع کر چکی ہیں محترمہ مسرت جہاں خٹک نے ڈاکٹر ابرار عمر کی منتخب نظموں کا پشتو ترجمہ "صحرا و ساگر" کے نام سے شائع کیا گیا۔ یہ کتاب اسلامیہ کالج پشاور سے اجمل خٹک اور عباسین یوسف زئی کی سرپرستی میں شائع ہوئی۔۔ "ڈاکٹر ابرار عمر کی نظم نگاری "کے عنوان سے عندلیب زہرا نے نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز میں شفیق انجم کی سپر وژن میں اپنا مقالہ شائع کیا۔ ڈاکٹر ابرار عمر نے سات سال تک پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگرامز پی ٹی وی ٹائمز اور کشمیر میگزین کے لیے سکرپٹ لکھا۔
پاکستان ٹیلی ویڑن نے انہیں بیسٹ گیت لکھنے کے ایوارڈ کے لیے نامزد کیا۔ ڈاکٹر ابرار عمر کی نظموں اور غزلوں کی ایک اور کتاب زیر اشاعت ہے۔ ڈاکٹر ابرار عمر نے نہ صرف انتہائی معیاری ادب تخلیق کیا بلکہ ان کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی جس سے خوفزدہ ہوکر اسلام کے ادبی وڈیروں اور ان کے چاکروں نے تیس سال تک ان کو نظر انداز کیا۔ ایسے ایوارڈز جو حقیقی کارکردگی پر اور میرٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے دیے جائیں یقیناً ایک نہایت احسن اور قابل تقلید قدم ہے۔ حلقہء اربابِ ذوق کے پہلے ایوارڈ نے ہی میرٹ کے احترام کی بنیاد ڈال دی اب اگر ریاستی یرغمال ادارے غیر مستحق افراد اور دونمبر ادیبوں کو نوازیں گے تو ادبی ادارے حقیقی حقیقی تخلیق کاروں کو عزت دیں گے۔ حساب برابر۔